بدھ‬‮ ، 05 فروری‬‮ 2025 

ہم انسان ہی نہیں ہیں

datetime 6  فروری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون علی کا تعلق لاہور سے ہے‘ یہ لوگ لاہور ائیرپورٹ کے ذریعے 30 دسمبر 2024ء کو عمرے کے لیے سعودی عرب گئے‘ ان کے ساتھ خاندان کے لوگ بھی تھے‘ یہ لوگ جدہ ائیرپورٹ پر اترے‘ سامان اٹھایا‘ ائیرپورٹ سے باہر آئے اور مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے‘ عمرہ کیا اور درمیانے سے ہوٹل میں رہائش پذیر ہو گئے‘ ان کا زیادہ وقت حرم شریف میں گزرتا تھا‘ فرحانہ خاتون تیسرے دن حرم سے واپس آئی تو ہوٹل میں پولیس اس کا انتظار کر رہی تھی‘ پولیس نے اسے دیکھتے ہی گرفتار کر لیا‘ اسے بتایا گیا ائیرپورٹ پر آپ کا بیگ رہ گیا تھا‘

اس میں سے منشیات نکل آئی ہیں لہٰذا آپ کو منشیات سمگلنگ کے جرم میں گرفتار کیا جا رہا ہے‘ یہ خبر خاتون کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی‘ سعودی عرب میں منشیات فروشی اور سمگلنگ میں سزائے موت دے دی جاتی ہے‘ کیس کا فیصلہ بہت سپیڈ سے ہوتا ہے اور اس کے بعد مجرم کو چوک میں بٹھا کر اس کی گردن کاٹ دی جاتی ہے‘ خاتون نے یہ خبریں سن رکھی تھیں چناں چہ اس کا دل بیٹھ گیا‘ خاندان کے دوسرے افراد بھی گرفتار کر لیے گئے اور انہیں حوالات میں بند کر دیا گیا‘ تفتیش شروع ہوئی تو خاتون کے سامنے ایک بیگ رکھا گیا‘ بیگ پر خاتون کے نام کا ٹیگ لگا تھا‘ خاتون سے پوچھا گیا ’’کیا یہ آپ کا بیگ ہے؟‘‘ خاتون نے فوراً انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا ہم نے چھ بیگ بک کرائے تھے اور ہم نے جدہ میں یہ سارے وصول کر لیے تھے‘ ہمارا کوئی ساتواں بیگ نہیں تھا‘

خاتون سے پوچھا گیا ’’پھر اس بیگ پر آپ کا ٹیگ کیوں ہے؟‘‘ خاتون کا جواب تھا ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی‘‘ وہ تھوڑا سا رکی اور پھر سوچ کر بولی ’’ہم نے جب جدہ ائیرپورٹ سے اپنے بیگ لیے تھے تو میرے ایک بیگ پر ٹیگ نہیں تھا‘ میں نے اپنا بیگ پہچان کر بیلٹ سے اٹھا لیا تھا اور اسے بھی دوسرے بیگز کے ساتھ مکہ لے آئی تھی‘ تفتیشی نے خاتون کے بیان یک تصدیق کرائی تو یہ صحیح نکلی‘ اس کے پاس واقعی چھ بیگ تھے‘ ائیر لائین نے بھی ان کے صرف چھ بیگ بک کیے تھے اور ان بیگز پر بکنگ سٹکرز بھی موجود تھے‘ جدہ ائیرپورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی بیان کی تصدیق ہو گئی لہٰذا کیس الجھ گیا‘ سعودی عرب اور پاکستان کی اینٹی نارکوٹیکس فورس کے درمیان رابطہ ہوا اور سعودی اے این ایف نے پاکستانی اے این ایف کو لکھ دیا‘ اب یہاں سے خاتون کی لک سٹارٹ ہوتی ہے۔

یہ لوگ دین دار اور پرہیز گار ہیں‘ خاتون نے رو رو کر اللہ سے مدد مانگنی شروع کر دی‘ اللہ نے مہربانی کی اور اسے پہلے سعودی عرب میں اچھی تفتیشی ٹیم مل گئی‘ اس ٹیم نے اس کے بیان کی باقاعدہ تصدیق کرائی اور اس دن کی ائیرپورٹ کی فوٹیج بھی دیکھی‘ ائیرپورٹ کے کیمروں میں اس کے تمام بیگ بھی آ گئے اور کیمرے میں یہ بھی نظر آ گیا خاتون نے منشیات کے بیگ کی طرف دیکھا اور نہ اسے پہچاننے کی کوشش کی تھی جب کہ وہ اس کے سامنے بیلٹ پر چل رہا تھا‘ پاکستان میں بھی اسے اچھی ٹیم مل گئی‘ پاکستانی ٹیم نے بھی سر درد لیا‘ یہ بھی لاہور ائیرپورٹ گئی اور 30 دسمبر کی ساری فوٹیج نکلوا لی‘ خاتون کا نصیب اچھا تھا‘ اس دن ائیرپورٹ کے سارے کیمرے کام کر رہے تھے اور ان کیمروں میں خاتون‘ ان کی فیملی اور تمام بیگ ریکارڈ ہو گئے تھے‘ فوٹیج بار بار دیکھی گئی تو پتا چلا خاتون سچ کہہ رہی ہے‘ اس کے پاس واقعی چھ بیگ تھے اور منشیات کا بیگ انہوں نے بک کرایا تھا اور نہ ائیرلائین نے بک کیا تھا‘ اب سوال پیدا ہو گیا یہ بیگ پھر کہاں سے آ گیا‘ اسے کس نے بک کیا اور اس پر خاتون کا ٹیگ کیسے لگ گیا؟ ان سوالوں کے جوابوں کی تلاش کے لیے جب لاہور ائیرپورٹ کی مزید فوٹیجز دیکھی گئیں تو ملزم سامنے آ گیا‘

پتا چلا بیگز جب بکنگ کے بعد جہاز کی طرف لے جائے جا رہے تھے اس وقت ائیرپورٹ کے ایک پورٹر نے خاتون کے بیگ کا ٹیگ اتارا اور اپنے پاس موجود بیگ پر وہ ٹیگ لگا کر اسے جہاز کے سامان کے خانے میں رکھوا دیا‘ اے این ایف نے پورٹر کی شناخت کی اور اسے گرفتار کر لیا‘ وہ مکر گیا لیکن جب اسے فوٹیج دکھائی گئی تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ مزید تفتیش ہوئی تو پتا چلا یہ ایک منظم گروہ ہے جو اسی طرح دوسرے مسافروں کے ٹیگز اتار کر منشیات کے بیگز پر لگا دیتا ہے یوں یہ بیگ سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں‘ مسافر اسے اپنا سمجھ کر جدہ ائیرپورٹ سے باہر لے جاتے ہیں اگر اس دوران بیگ پکڑا جائے تو بے گناہ اور معصوم مسافر گرفتار ہو جاتا ہے اور اگر خوش قسمتی سے مسافر بیگ لے کر باہر آ جائے تو یہ لوگ کوریڈورز یا ٹیکسی سٹینڈ پہنچ کر مسافر کو روکتے ہیں‘ ان سے معذرت کرتے ہیں اور پھر اسے بتاتے ہیں آپ غلطی سے ہمارا بیگ اٹھا لائے ہیں‘

مسافر فوراً مان جاتا ہے اور ان کا بیگ ان کے حوالے کر دیتا ہے اور یوں منشیات سعودی عرب پہنچ جاتی ہیں‘ بہرحال قصر مختصر پورٹر کی نشان دہی پر 9 سمگلر گرفتار ہو گئے‘ انہوں نے جرم کا اعتراف بھی کر لیا جس کے بعد رپورٹ‘ فوٹیجز اور مجرموں کا اعترافی بیان مکہ مکرمہ بھجوا دیا گیا جس کے بعد سعودی حکومت نے فرحانہ اکرم اور اس کے خاندان کے لوگوں کو رہا کر دیا لیکن مہینے بھر کی جیل میں خاندان نے جس مشکل میں وقت گزارہ اس کا اندازہ صرف یہی لوگ کر سکتے ہیں‘ آپ خود سوچیے آپ ایک عام لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہوں‘ جیسے تیسے پیسے جمع کر کے عمرے پر گئے ہوں‘ آپ کا زیادہ وقت حرم شریف میں عبادت میں گزرتا ہو اور پھر آپ کو ایک ایسے گھنائونے جرم میں گرفتار کر لیا جائے جس کی سزا موت ہو تو پھر آپ کی کیا صورت حال ہو گی؟ فرحانہ اکرم اور اس کے خاندان کے لوگ بھی پورے مہینے اسی اذیت اور مشکل کا شکار رہے‘

اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا اور یہ لوگ صرف مہینہ بھر کی خواری کے بعد رہا ہو گئے‘ آپ ذرا سوچیے اگر خدانخواستہ اس دن جدہ ائیرپورٹ کا ایک آدھ کیمرہ خراب ہو جاتا یا لاہور ائیرپورٹ کی فوٹیج ضائع ہو جاتی یا کیمرے جواب دے جاتے یا ان لوگوں کو سعودی عرب اور پاکستان میں کوئی سست ٹیم ٹکر جاتی اور یہ لوگ تفتیش اور تصدیق پر وقت ضائع نہ کرتے تو ان لوگوں کا کیا بنتا!یہ اس وقت کہاں ہوتے؟۔

فرحانہ اکرم کی کہانی ثابت کرتی ہے ہم من حیث القوم کس قدر گر چکے ہیں‘ ہمارے دل میں اس سرزمین کا احترام بھی نہیں رہا جس کی طرف منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں یا جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ ہمارے لوگ کس قدر ظالم اور غلیظ ہیں آپ یہ جاننے کے لیے کسی دن سعودی حکومت سے پوچھ لیجیے‘ آپ کو خود سے گھن آنے لگے گی‘ پاکستانی یا پاکستانی بھیس میں چھپے درندے احرام‘ قرآن مجید‘ جائے نماز اور حج کی چپلوں میں منشیات چھپا کر سعودی عرب لے جاتے ہیں‘ خواتین منشیات کو جسم کے ان حصوں میں چھپا کر حجاز مقدس پہنچ جاتی ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ کام حج اور عمرے کی آڑ میں ہوتا ہے‘ پاکستان میں بے شمار ایسے گروہ پکڑے گئے ہیں جو غریب اور مسکین لوگوں کو مفت عمرہ یا حج کی آفر کرتے ہیں‘ لوگ خوش ہو کر ان کے رزق اور عمر میں اضافے کی دعائیں کرتے ہیں لیکن جب یہ لوگ جدہ اترتے ہیں تو انہیں اس وقت پتا چلتا ہے ان کے مہربان سخی نے ان کے بیگ میں ہیروئن یا آئس چھپا دی تھی‘ یہ ظالم لوگ بزرگ عورتوں اور معصوم چھوٹے بچوں کے جسم تک میں منشیات چھپا کر سعودی عرب پہنچا دیتے ہیں‘

یہ بے گناہ لوگ بعدازاں پکڑے جاتے ہیں اور پھر ان کے سر اتار دیے جاتے ہیں‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور ایران میں ہر سال پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں بھکاری بھی جاتے ہیں اور یہ وہاں مانگ مانگ کر ملک کا نام روشن کرتے ہیں‘ یہ بھکاری جاتے ہیں‘ چھ ماہ کا سیزن لگاتے ہیں‘ پاکستان واپس آتے ہیں‘ عیاشی کرتے ہیں اور احرام باندھ کر دوبارہ سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں اور پھر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں لوگوں کی عقیدت سے کھیل کر مال سمیٹتے ہیں‘ ہم یو اے ای‘ عراق اور ایران میں بھی یہ گھنائونا کھیل کھیلتے ہیں اور ہمیں ذرا برابر ملال یا شرمندگی نہیں ہوتی‘ اس وقت بھی ان چاروں ملکوں کی جیلوں میں ہزاروں پاکستانی قید ہیں اور یہ وہاں کی حکومتوں کو بتا رہے ہیں ہم کس قدر غیرت مند اور شان دار قوم ہیں‘ ہم اکثر دنیا سے شکوہ کرتے ہیں دنیا ہماری عزت نہیں کرتی‘ دنیا کیوں عزت کرے گی جب یونان یا اٹلی میں کشتی ڈوبے گی اور اس میں پاکستانی نکلیں گے‘

دنیا کے ہر ائیرپورٹ پر پاکستانی پاسپورٹس پر جعلی ویزے ملیں گے‘ ہم جب بچے اغواء کر کے ملک سے باہر بیچ دیں گے‘ جعلی نکاح ناموں پر امیگریشن اپلائی کر دیں گے‘ یورپ میں اپنی بیٹیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں ڈسٹ بینوں میں پھینک دیں گے‘ ہمارے پائلٹس اور ائیرہوسٹسز سمگلنگ کرتے پکڑی جائیں گی یا کینیڈا میں غائب ہو جائیں گی یا باہر سے موبائل فون سمگل کر کے لے آئیں گی اور جب لوگ سرکاری پاسپورٹ پر دوسرے ملکوں میں لینڈ کر کے غائب ہو جائیں گے تو پھر ہماری کیا عزت ہو گی؟ ہم روز اخبارات میں ائیرپورٹ سے ہیومین سمگلر‘ جعلی ویزہ ہولڈر اور مسافر کے بیگ سے منشیات نکلنے کی خبریں پڑھتے ہیں‘ یہ خبریں دوسرے ملکوں میں بھی پڑھی جاتی ہیں‘ جب صورت حال یہ ہو گی تو پھر عزت کہاں سے آئے گی؟ آپ خود سوچیے جو لوگ عمرہ اور زیارت کو نہیں بخش رہے‘ جو اسے بھی سمگلنگ اور ڈنکی کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘ جو حرم شریف میں کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر بھیک مانگ لیتے ہیں یا جو دوسرے حاجی کی جیب کاٹ لیتے ہیں‘ کیا آپ ان کی عزت کریں گے؟ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہم مسلمان تو دور ہم دراصل انسان ہی نہیں ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ہم انسان ہی نہیں ہیں


یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…