یہ جارجیا کا میرا دوسرا وزٹ تھا‘ میں پہلی بار 2014ء میں تبلیسی آیا تھا‘ اس وقت مجھے شاہد رسول نے جارجیا کی دعوت دی تھی‘ یہ سانگھڑ کے رہنے والے تھے‘ 17 سال کی عمر میں پاکستان سے نکلے‘ آدھی دنیا کی خاک چھان کر بڑی مشکل سے پولینڈ پہنچے‘ پولش خاتون سے شادی کی اور پھر وہیں سیٹل ہو گئے لیکن پھر 2013ء میں انہیں ’’دانے پانی‘‘ کا کھیل جارجیا لے آیا‘
تبلیسی شہر میں انہوں نے ویران زمین لی اور اس پر آہستہ آہستہ ہوٹل بنانا شروع کر دیا‘ 2014ء میں یہ ابھی بزنس کی دنیا میں رینگ رہے تھے‘ ہوٹل صرف 6 کمروں پر مشتمل تھا اور ملازم بھی صرف دو تھے‘ پٹیالہ کا ایک سکھ نوجوان جمی اور جارجین ڈرائیور ڈیوڈ‘ یہ اس زمانے میں پریشان تھے اور اسی پریشانی میں انہوں نے مجھے فون کر دیا اور جارجیا کی دعوت دے دی‘ میں فارغ تھا لہٰذا میں تین دن بعد تبلیسی پہنچ گیا اور تین دن شاہد رسول کے ساتھ گزار کر واپس آ گیا‘ یہ ان دنوں اپنے ہوٹل کے لان میں پاکستانی انڈین کھانوں کا ڈھابا بنانے کی پلاننگ کر رہے تھے‘ ان کا خیال تھا اگر ان کے پاس 30 ہزار ڈالر آ جائیں تو یہ تبلیسی میں دیسی کھانے متعارف کرا سکتے ہیں‘ انہوں نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے عرض کیا ’’آپ اسے آج سے شروع کیوں نہیں کرتے؟ یہ اچھا بزنس آئیڈیا ہے‘
اس پر فوراً عمل کریں‘‘ ان کا جواب تھا ’’میرے پاس پیسے نہیں ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’پیسوں سے بزنس نہیں آتا‘ بزنس سے پیسے آتے ہیں‘ آپ بس سٹارٹ کریں‘ اللہ کرم کرے گا‘‘ شاہد رسول سادہ‘ پازیٹو اور فوکسڈ انسان ہیں‘ یہ بات ان کو کلک کر گئی لہٰذا انہوں نے چند دن بعد بریانی بنائی‘ خالی پلاٹ میں بینچ لگائے اور بیچنا شروع کر دی‘ جارجیا میں ان دنوں تازہ تازہ انڈین سٹوڈنٹس آئے تھے اور انہیں کھانے میں خاصی دقت ہوتی تھی‘ سٹوڈنٹس آئے اور چند دنوں میں شاہد رسول کا بریانی کا ڈھابا کام یاب ہو گیا‘ یہ بہت اچھی بریانی بناتے تھے اور سٹوڈنٹس کو سستی دیتے تھے‘ بل ایک بار وصول کرتے تھے اور گاہک جتنی بار طلب کرتا تھا یہ اسے دیتے جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو شاید ان کی یہ ادا پسند آ گئی اور اس نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ڈھابے پر رش بڑھنے لگا۔
جارجیا کا تعلیمی معیار بہت بلند ہے‘ بالخصوص میڈیکل‘ میزبانی (ہاسپٹیلٹی) اور سول ایوی ایشن کے شعبوں کی تعلیم یورپی سٹینڈرڈ سے بھی اچھی اور سستی ہے‘ حکومت نے اپنے تعلیمی ادارے غیر ملکی طالب علموں کے لیے کھول دیے جس کے بعد یورپ‘ امریکا‘کینیڈا‘ انڈیا اور مڈل ایسٹ سے25 ہزار طالب علم جارجیا آ گئے‘ ان میں وہ پاکستانی بھی شامل تھے جو یورپ‘ مڈل ایسٹ اور امریکا میں سیٹل ہیں‘ ان کو حلال اور سستی خوراک چاہیے تھی یوں مسلم طالب علم بہت جلد شاہد رسول کی طرف متوجہ ہو گئے‘ انڈین طالب علم پہلے سے ان کے ہاں کھانا کھا رہے تھے‘
اس طرح ان کے پاس رونق لگ گئی‘ ان کے پاس جگہ بہت تھی‘ انہوں نے لان میں پھولوں کی کیاریاں بنائیں‘ انگور کی بیلیں لگائیں‘ انجیر‘ خوبانی‘ آڑو اور سیب کے درخت لگائے اور ان کے پیچھے کرسیاں اور میزیں لگا دیں‘ چھوٹا سا ریستوران بھی بنا دیا‘ طالب علموں کے والدین بھی کھانے کے لیے ان کے پاس آتے تھے‘ وہ ان کی نیک نیتی‘ ہیلپنگ ایٹی چیوڈ اور اخلاص سے متاثر ہو گئے اور انہوں نے انہیں مشورہ دینا شروع کر دیا آپ ہوٹل کو ہاسٹل میں تبدیل کر دیں اور طالب علموں کو رہائش‘ کھانے اور ٹرانسپورٹ کی سہولت دے دیں‘ شاہد کو یہ آئیڈیا پسند آیا اور اس نے اپنے ہوٹل کو ہاسٹل میں تبدیل کر دیا‘
اس کے پاس دس کمرے تھے‘ یہ شروع میں ہی بک ہو گئے‘ والدین کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا تو شاہد نے تین چار فلیٹس کرائے پرلے لیے اور انہیںبھی ہاسٹل میں تبدیل کر دیا‘ یہ بھی کرائے پر چڑھ گئے اور یوں یہ فلیٹس لیتے چلے گئے اور ان کے ہاسٹل کا کاروبار بڑھتا چلا گیا‘ آج ان کے پاس ساڑھے پانچ سو بیڈز اور سوا سو فلیٹس ہیں‘ بچیوں کے ہاسٹلز الگ ہیں اور بچوں کے الگ‘ یہ انہیں صبح‘ دوپہر اور شام تین وقت کھانا بھی دیتے ہیں اور پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی‘ فی طالب علم پیکج ساڑھے تین سو ڈالر سے نو سو ڈالر ہے‘ ان کے پاس دنیا جہاں کے طالب علم ہیں‘ بچیوں کے والدین ان پر بھروسا کر تے ہیں‘ 24 گھنٹے والدین اور بچوں کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں‘ یہ اب اس کے علاوہ دریا کے ساتھ ایک انتہائی خوب صورت لوکیشن پر ہوٹل‘ ریستوران اور اپارٹمنٹس بلڈنگ بھی بنا رہے ہیں اور تبلیسی میں پاکستانیوں‘ انڈینز اور عربوں کی پراپرٹیز بھی مینج کر رہے ہیں۔
شاہد رسول نے ترقی کے بعد ایک بار پھر مجھے جارجیا کی دعوت دی اور میں جمعرات 18 جولائی2024ء کی صبح تبلیسی پہنچ گیا‘ شہر میں دس برسوں میں بہت تبدیلیاں آ چکی تھیں‘ 2014ء میںائیرپورٹ پر صرف ایک فلائیٹ تھی جب کہ 2024ء میں وہاں جہازوں کی لائنیں لگی تھیں‘ ائیرپورٹ پر سیاحوں کا رش بھی تھا‘ میں نے آذر بائیجان ائیر لائین سے سفر کیا تھا جب کہ واپسی قطر ائیرویز سے تھی‘ باکو سے روزانہ چار فلائیٹس تبلیسی آتی ہیں‘ دونوں کے درمیان گھنٹے بھر کا فاصلہ ہے‘
پاکستان میں جارجیا کی ایمبیسی نہیں لہٰذا ویزے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تاہم اگر آپ کے پاس امریکا‘ برطانیہ یا شینجن ممالک کا ویزہ ہے تو آپ ویزے کے بغیر بھی جارجیا جا سکتے ہیں‘ میں نے بھی شینجن ویزے پر سفر کیا لیکن جارجیا میں بھی پاکستانیوں کے بارے میں رائے اچھی نہیں ہے چناں چہ امیگریشن آفیسر نے ٹھوک بجا کر میرا پاسپورٹ اور ویزے چیک کیے‘ 1990ء کی دہائی میں پاکستانیوں کے لیے آن ارائیول ویزہ تھا‘ ہم نے اس سہولت پر خوف ناک گند مچایا چناں چہ حکومت نے پاکستانیوں سے یہ سہولت واپس لے لی جب کہ دوسری طرف انڈین آن لائن ویزہ لیتے ہیں اور دہلی اور ممبئی سے روزانہ فلائیٹس آتی ہیںلہٰذا آپ کو شہر میں ہر طرف انڈین دکھائی دیتے ہیں‘ جارجیا میں پاکستانی زیادہ نہیں ہیں‘ کل پچاس ساٹھ لوگ ہوں گے اور یہ بھی کھیتی باڑی اور ریستوران کے بزنس سے وابستہ ہیں‘ آپ اگر ویزے کے ساتھ جارجیا جانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو تہران میں جارجین ایمبیسی جانا پڑے گا جب کہ جارجیا میں موجود پاکستانیوں کو باکو میں ہماری ایمبیسی ڈیل کرتی ہے۔
میں نے اولڈ تبلیسی کے نزدیک ہوٹل لیا‘ شہر کی زیادہ تر اٹریکشنز ہوٹل کے قریب تھیں‘ میں تین تین‘ چار چار گھنٹے پیدل گھومتا رہتا تھا‘ شہر کے درمیان سے کرا(Kura)دریاگزرتا ہے‘ میں دریا کے دائیں کنارے پر تھا جب کہ دوسری طرف شہر کا قدیم حصہ تھا‘ تبلیسی کا مرکزی چوک ’’میدان‘‘ کہلاتا ہے‘ یہ نام یقینا ایرانی حکمرانوں نے دیا ہو گا‘جارجیا سلجوق‘ عثمانی‘ ازبک (امیر تیمور) اور ایران کے زیر نگیں رہ چکا ہے چناں چہ ان کے کلچر‘ لباس‘ رہن سہن اور زبان میں ان چاروں تہذیبوں کا اثر موجود ہے‘ روسی بھی سو سال سے زائد جارجیا میں رہے‘ آپ کو ان کے تمدن میں ان کا اثر بھی ملتا ہے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی مشہور روسی ڈکٹیٹر اور صدر جوزف سٹالن جارجین تھا‘ وہ تبلیسی سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ’’گوری‘‘ شہر میں پیدا ہوا تھا اور اس نے یہاں سے سینٹ پیٹرز برگ اور ماسکو جا کر دنیا کی پہلی کمیونسٹ سپرپاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ سٹالن بہت ظالم تھا‘ اس نے اپنے دور میں 60 سے 90 لاکھ لوگ قتل کیے تھے‘
دنیا آج بھی اس کے نام سے کانپتی ہے‘ گوری میں سٹالن کا گھر موجود ہے جسے اب میوزیم کا درجہ دے دیا گیا ہے‘ میں گوری نہیں جا سکا لیکن ان شاء اللہ اگلی بار ۔تبلیسی کا پرانا شہر بہت خوب صورت ہے‘ اونچی نیچی پتھریلی گلیوں میں چھوٹے چھوٹے صاف ستھرے گھر ہیں‘ ہر گھر میں انگور‘ انجیر اور اخروٹ کے درخت ہیں اور پورا خاندان درختوں کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے‘ لوگ بالخصوص خواتین بہت خوب صورت اور متحرک ہیں‘ یہ گھر کا کام بھی کرتی ہیں‘ دفتروں میں نوکریاں بھی کرتی ہیں اور بچوں اور خاوندوں کو بھی پالتی ہیں‘ مرد لڑاکے اور سست ہیں‘ اس وجہ سے عورتیں ان سے خوش نہیں ہیں‘ یہ اجنبیوں اور غیر ملکیوں سے فوراً شادی کر لیتی ہیں اور باقی زندگی خوشی خوشی ان کے ساتھ گزار دیتی ہیں‘ یہ لوگ آرتھوڈاکس کرسچین ہیں‘ اس وجہ سے آپ کو ہر گلی میں کوئی نہ کوئی چرچ ضرور ملتا ہے‘
لوگوں نے گھروں میں ’’بوتیک ہوٹل‘‘ اور ریستوران بنا رکھے ہیں‘ ان ہوٹلوں اور ریستورانوں میں وقت گزارنا دل چسپ تجربہ ہوتا ہے‘ لوگ سیاحوں کا احترام بھی کرتے ہیں‘ یہ سیاحوں کو دھوکا نہیں دیتے‘ لاء اینڈ آرڈر مضبوط اور قابل بھروسا ہے‘ امن و امان میں یہ ملک ساتویں نمبر پر آتا ہے‘ ماحول مکمل یورپی ہے لیکن یورپ کے مقابلے میں قیمتیں کم ہیں‘ ہوٹل‘ ریستوران اور کیفے سستے ہیں‘ تعلیم یونیورسٹی تک مفت اور معیاری ہے‘ پرائیویٹ یونیورسٹیاں معیاری اور زیادہ ہیں چناں چہ دنیا بھر کے طالب علم جارجیا کا رخ کر رہے ہیں بالخصوص میڈکل کالجز‘ انجینئرنگ کالجز‘ بزنس ایڈمنسٹریشن اور سول ایوی ایشن کے کالجز بہت اہم ہیں‘ تبلیسی میں یورپ اور بھارت کے طالب علم بھرے ہوئے ہیں جب کہ پاکستانی طالب علم نہ ہونے کے برابر ہیں‘ جارجیا کی ڈگریاں یورپ میں قابل قبول ہیں‘ یورپی طالب علم جارجیا آتے ہیں‘ ڈگریاں لیتے ہیں اور یورپ میں جا کر ملازمتیں لے لیتے ہیں‘ میرا خیال ہے ہمارے طالب علموں کو کرغزستان کی تھکی ہوئی سب سٹینڈرڈ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کی بجائے جارجیا جانا چاہیے وہاں تعلیم سستی بھی ہے اور معیاری بھی اور طالب علم اس کے بعد یورپ سیٹل بھی ہو سکتے ہیں۔