کوبے شہر چار وجوہات سے پورے جاپان میں مشہور ہے‘ پہلی وجہ کوبے بیف ہے‘ کوبے میں ایک خاص قسم کی گائے پروان چڑھتی ہے جس کا گوشت انتہائی لذیذ اور نرم ہوتا ہے‘ جانوروں کو شہر سے باہر خاص فارم ہائوسز میں رکھا جاتا ہے‘ ان کے لیے گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹروں کا بندوبست کیا جاتا ہے‘ باڑے میں صفائی کے لیے جدید ترین مشینیں نصب ہوتی ہیں‘ جانوروں کو روزانہ مساج کیا جاتا ہے‘ پانی کی جگہ جو کا پانی (بیئر) پلایا جاتا ہے‘ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انہیں دھوپ‘ سردی اورگرمی لگوائی جاتی ہے اور یہ گائے جب جوان ہو جاتی ہیں تو انہیں صاف ستھرے ماحول میں ذبح کر کے ان کے مختلف سائز کے سٹیکس بنائے جاتے ہیں اور یہ سٹیکس بعدازاں دنیا کے کھرب پتیوں‘ بادشاہوں‘ مہنگے اداکاروں اور کھلاڑیوں کی ٹیبل پر پہنچتے ہیں‘ کوبے بیف کو دنیا کا مہنگا ترین گوشت سمجھا جاتا ہے‘ یورپ میں اس کی قیمت پانچ سو یورو فی کلو ہوتی ہے جب کہ اس کا سٹیک دو سو ڈالر فی پیس بکتا ہے۔
میں زندگی میں ایک بار کوبے میں بیٹھ کر کوبے سٹیک انجوائے کرنا چاہتا تھا چناں چہ میں جمعرات 23 نومبر کو علی جوہر اور عرفان صدیقی کے ساتھ کوبے پہنچ گیا‘ علی جوہر اوساکا شہر میں پاکستانی کھانوں کا ریستوران چلاتے ہیں‘ کینیڈا میں پیدا ہوئے اور دوبئی میں پرورش پائی‘ والدین کراچی کے رہنے والے تھے‘ یہ جوانی میں جاپان آئے اور پھر اسی ملک کے ہو کر رہ گئے‘ کھانا بنانے کا ہنر جانتے ہیں‘ ان کے ہاتھ میں واقعی جادو ہے‘ ہمارا گروپ لنچ کے لیے ان کے ریستوران میں گیا اور پھر ان کے کھانے اور شخصیت نے ہمیں گرویدہ بنا لیا‘ عرفان صدیقی جاپان میں جنگ اور جیو کے نمائندے ہیں‘ میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا یہ انسان بڑے ہیں یا صحافی‘ ہمارا گروپ 23 نومبر کو واپس چلا گیا لیکن میں عرفان بھائی اور علی جوہر کی کمپنی انجوائے کرنے کے لیے دو دن مزید رک گیا‘ ہم اگلے روز اوساکا سے کوبے پہنچ گئے‘ یہ اوساکا سے سوا گھنٹے کی دوری پر ہے‘ پہاڑی قصبہ ہے جس کو سمندر کاٹ کر دو حصوںمیں الگ کردیتا ہے‘
حکومت نے 1998ء میں دونوں حصوں کو جوڑنے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا معلق پل بنایا تھا‘ یہ پل آج بھی انسانی معجزہ کہلاتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں‘ پل سے پہلے ساڑھے آٹھ کلو میٹر لمبی ٹنل بھی آتی ہے اور یہ پہاڑ کے نیچے سمندر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے‘ ہم بہرحال تلاش کرتے ہوئے کوبے سٹیک کے ایک ریستوران پر پہنچ گئے‘ سٹیک ریستورانوں میں نیم دائرے میں ڈائننگ ٹیبلز لگے ہوتے ہیں‘ گاہک کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور شیف ان کے سامنے ان کا سٹیک بناتے ہیں‘ یہ پراسیس دیکھنا بھی ایک مکمل ایکٹویٹی ہے‘ سٹیک کی قیمت اس کے سائز‘ موٹائی اور گائے کے جسم کے حصے کی بنیاد پر مقرر ہوتی ہے‘ اسے مکھن اور لہسن میں بنایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ جڑی بوٹیاں اور سبزیاں سرو کی جاتی ہیں‘ آج سے چند برس پہلے تک کوبے میں حلال بیف نہیں ملتا تھا مگر اب مسلمان سیاحوں کی وجہ سے حلال سٹیک بھی دستیاب ہے لیکن اس کے لیے ذرا سی جدوجہد کرنی پڑتی ہے‘ علی جوہر کوبے میں ریستوران چلاتے رہے ہیں اوریہ سمجھ دار بھی ہیں چناں چہ یہ ہمیں ایک ایسے ریستوران میں لے گئے جہاں حلال بیف تھا‘ شیف نے ہمارے سامنے سٹیک بنایا‘ اس کے چھوٹے چھوٹے پیس کیے اور ہمارے حوالے کر دیے‘ آپ یقین کریں میں نے زندگی میں اس سے زیادہ لذیذ گوشت نہیں کھایا‘ وہ حقیقتاً برفی کی طرح نرم تھا اور برف کی طرح منہ میں گھل رہا تھا‘ بے شک دنیا بلاوجہ اس کی عاشق نہیں ہے۔
کوبے کی دوسری پہچان اس کی مسجد ہے‘ اللہ کا یہ گھر ہندوستان کے گجراتی مسلمانوں نے 1935ء میں تعمیر کیا تھا‘ جاپان میں یہ پہلی مسجد ہے اور یہ اب تک سینکڑوں جاپانیوں کو دائرہ اسلام میں داخل کر چکی ہے‘ مسجد سے دو معجزے جڑے ہیں‘ امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کوبے شہر پر خوف ناک بمباری کی‘ تمام بڑی عمارتیں تباہ ہو گئیں مگر مسجد مکمل طور پر محفوظ رہی‘ یہ معجزہ دیکھ کر جاپانی فوج مسجد کے تہہ خانے میں پناہ گزین ہو گئی اور دو سال مسجد میں رہی‘ دوسرا معجزہ 17 جنوری 1995ء کو سامنے آیا‘ اس رات کوبے میں خوف ناک زلزلہ آیا اور پورا شہر زمین بوس ہو گیا لیکن آپ قدرت کاکرم دیکھیے‘ مسجد کی کسی دیوار‘ کسی فرش میں دراڑ تک نہیں آئی‘ یہ جوں کی توں محفوظ رہی‘ آج بھی دیوار پر 1945ء اور 1995ء کی تصویریں لگی ہیں اور ان تصویروں میں واقعی اللہ کا گھر تباہ حال شہر کے درمیان پورے قد اور فخر کے ساتھ کھڑا ہے‘ اللہ نے ہمیں اس مسجد کی زیارت کا موقع بھی دیا‘ امام صاحب جامعۃ الرشید سے فارغ التحصیل ہیں اور بہت ہی نفیس انسان ہیں‘ مؤذن کا تعلق الجیریا سے ہے جب کہ نمازیوں میں ہر خطے کے مسلمان شامل ہوتے ہیں‘ کوبے کی شہرت کی تیسری وجہ اس کی فضا اور ماحول ہے‘ یہ پہاڑی علاقہ ہے چناں چہ اس کی گلیاں اور سڑکیں اونچی نیچی ہیں‘
موسم اچھا اور فضا بھی صاف ستھری ہے‘ ہمیں وہاں جنید خان ملے‘ یہ خوش حال انسان ہیں‘ دنیا کے مختلف ملکوں میں کام کر کے پیسہ کمایا اور پھر بچوں کو ساتھ لے کر کوبے میں ہجرت کر لی‘ انہوں نے یہ بتا کر حیران کر دیا میں یہاں صرف رہنے کے لیے آیا ہوں بزنس کے لیے نہیں‘ یہ بہت خوش اور مطمئن ہیں اور کوبے کی چوتھی وجہ شہرت اس کا زلزلہ تھا‘ کوبے میں17جنوری 1995ء کو انتہائی خوف ناک زلزلہ آیا‘ اس سے قبل اس خطے میں زیادہ سے زیادہ 6 اشاریہ تین ریکٹر سکیل کا زلزلہ آیا تھا لہٰذا تمام عمارتیں اس کے مطابق بنی تھیں مگر پھر 1995ء میں 6 اشاریہ 9 شدت کا زلزلہ آیا اور اس نے پورے شہر کو جڑوں سے ہلا دیا‘ آپ زلزلے کی شدت کا اندازہ اس سے لگا لیجیے‘حکومت نے 1995ء میں سمندر پر پل بنانے کا فیصلہ کیا ‘ ڈیزائن تیار ہو گیا مگر کام شروع ہونے سے پہلے زلزلہ آ گیا‘ 1996ء میں پل کی تعمیر شروع ہوئی تو پتا چلا سمندر کے کنارے ایک میٹر پیچھے ہٹ گئے ہیں اور اب ڈیزائن دوبارہ بنانا پڑے گا اور آرکی ٹیکٹ کویہ کرنا پڑا‘ کوبے کا پل آج بھی زلزلے کی یاد دلاتا ہے۔
ہم نے دوسرے دن نارا کی وزٹ کی‘ نارا کوبے سے مخالف سمت میں ہے‘ اوساکا سے وہاں پہنچنے میں بھی ایک گھنٹہ لگتا ہے‘ نارا شہر اپنے قدیم ٹمپلز اور لاکھوں ہرنوں کی وجہ سے مشہور ہے‘ ہم تودائے جی ٹمپل (Todaiji) گئے‘ یہ ٹمپل 710 ء میں شومو بادشاہ نے بنوایا تھا‘ نارا ماضی میں جاپان کا دارالحکومت ہوتا تھا‘ یہ یہاں سے کیوٹو گیا اور پھر 1868ء میں ٹوکیو کو دارالحکومت بنا دیا گیا‘ دارالحکومت کی اس تبدیلی کی وجہ مذہبی رہنما تھے‘ ماضی میں دنیا کی زیادہ تر ریاستیں بادشاہ اور مذہبی رہنما مل کر چلاتے تھے‘ مذہبی رہنما وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوتے چلے گئے اور ایک ایسا وقت آیا جب بودھ لاما بادشاہوں کے بھی بادشاہ بن گئے اوربادشاہوں کے اختیارات محدود ہوتے چلے گئے‘ بادشاہوں نے اس کا حل دارالحکومت کی تبدیلی کی شکل میں نکالا‘ یہ نارا سے کیوٹو چلے گئے لیکن کیوٹو اور نارا کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا لہٰذا لاما گھوڑوں کے ذریعے بادشاہ اور وزراء کو پیغام بھجوادیا کرتے تھے جس کی وجہ سے بادشاہ دارالحکومت کو پانچ سو کلو میٹر دور ٹوکیو لے جانے پر مجبور ہو گئے‘
اس کے بعد لامائوں کے پیغامات پہنچتے پہنچتے بے اثر اور غیر ضروری ہو جاتے تھے‘ تودائے جی ٹمپل بہت وسیع تھا‘ ہال میں مہاتما بودھ کا 49فٹ بلند مجسمہ تھا‘ میں نے آج تک بودھ کا اتنا پراثر اور دل موہ لینے والا مجسمہ نہیں دیکھا‘ بودھ کے مجسمے کے گرد ان کے دو ساتھیوں کے بت بھی تھے‘ ساتھی بھی لمبے چوڑے تھے تاہم یہ مجسمے گولڈن تھے جب کہ مہاتما بودھ کا مجسمہ سیاہ رنگ کا تھا‘ یہ سیاہ اور دوسرے دونوں گولڈن کیوں ہیں؟ مجھے سمجھ نہیں آئی‘ ٹمپل کے تمام ستون دیوہیکل تنوں سے بنے تھے اور یہ ’’ون پیس‘‘ تھے‘ وہاں ایک ستون کے نیچے سوراخ تھا اور پانچ چھ سال کے بچے رینگ کر سوراخ پار کر رہے تھے‘ یہ سوراخ پرانے زمانے میں بچوں کے ناجائز اور جائز ہونے کا فیصلہ کرتا تھا‘ بچے کو سوراخ سے گزارہ جاتا تھا جو بچہ آسانی سے سوراخ سے گزر جاتا تھا وہ جائز سمجھا جاتا تھا جب کہ ناجائز بچے سوراخ میں پھنس جاتے تھے‘
یہ روایت آج تک قائم ہے اور ہم نے درجنوں بچوں کو سوراخ سے آر پار آتے جاتے دیکھا اور کھڑے ہو کر مسکراتے رہے‘ ٹمپل کے احاطے میں سینکڑوں کی تعداد میں ہرن تھے‘ یہ پرامن اور بے خوف ہو کر پھر رہے تھے‘ زائرین انہیں بسکٹ کھلا رہے تھے‘ یہ بسکٹ عام مل جاتے ہیں اور ان ہرنوں کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ پورے شہر میں ہرن ہیں اور یہ بے خوف گھومتے پھرتے رہتے ہیں‘ زائرین ان کے ساتھ تصویریں بھی بنواتے ہیں اور ان کے بدن پر ہاتھ بھی پھیرتے ہیں‘ ہرن سینکڑوں سال سے نارا کی ویلی میں ہیں‘ ان کی تعداد جب غیر معمولی ہو جاتی ہے تو ٹمپل کی انتظامیہ پاکستانیوں کو شکار کی دعوت دیتی ہے اور پاکستانی بھائی جی بھر کر ان کا شکار کرتے ہیں‘ اس معاملے میں پاکستانیوں کی مدد کیوں لی جاتی ہے؟ پتا چلا جاپانی ان ہرنوں کا شکار حرام سمجھتے ہیں‘ دوسری قومیں بھی احترام کی وجہ سے پرہیز کرتی ہیں جب کہ پاکستانی اس کی پرواہ نہیں کرتے لہٰذا ٹمپل مشکل وقت میں پاکستانی بھائیوں کی مدد لیتا ہے اور پاکستانی اس معصوم جانور کے تکے بنا کر کھا جاتے ہیں‘ ہرن شاید ہماری قومیت سے واقف تھے چناں چہ ہم جب بھی ان کے قریب جاتے تھے وہ گھبرا کر دائیں بائیں ہو جاتے تھے‘ وہ شاید ہمیں بھی شکاری سمجھ رہے تھے۔