’’بھائی جی تسی کتھے دے او‘‘ اس کے ماتھے پر پسینہ تھا اور وہ پریشانی میں دائیں بائیں دیکھ رہا تھا‘ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا‘ اس کا حلیہ اور کپڑے اچھے تھے‘ وہ جینز‘ جیکٹ اور جاگرز میں تھا‘ بال بھی اچھے بنے ہوئے تھے اور وہ نہایا دھویا ہوا بھی تھا مگر اس کا لہجہ اور آواز اس کے حلیے کو سپورٹ نہیں کر رہی تھی‘ وہ لہجے سے اکھڑ پنجابی اور ان پڑھ محسوس ہو رہا تھا‘ میں نے تھوڑی دیر اس کی طرف دیکھا اور پھر ہنس کر جواب دیا
’’گجرات‘ لاہور اور اسلام آباد‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا ’’کیا آپ تین جگہوں پر رہتے ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’میں پیدا گجرات میں ہوا تھا‘ پڑھتا لاہور میں رہا اور کام اب اسلام آباد میں کر رہا ہوں‘‘ اس نے لمبا سانس لیا اور بولا ’’میں جرمنی جانا چاہتا ہوں‘ کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’میں کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘ اس کا جواب تھا’’ آپ مجھے برلن کی بس میں بٹھا دیں یا ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے دیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں؟‘‘ وہ شرما کر بولا ’’نہیں جی نہیں‘ میرے پاس بہت پیسے ہیں‘‘ اس نے ساتھ ہی پرس جیب سے نکال کر دکھا دیا‘ وہ یوروز سے لبالب بھرا ہوا تھا‘ میں نے پوچھا ’’پھر آپ کو میری کیا مدد چاہیے؟؟
وہ بولا’’ مجھے بس یا جہاز کا ٹکٹ نہیں خریدنا آتا‘ میں انگریزی بھی نہیں بول سکتا‘‘ میں نے لمبی سانس لی اور کہا ’’اوکے آپ میرے ساتھ آئو‘ میں سینٹرل سٹیشن جا رہا ہوں‘ میں وہاں سے تمہیں برلن کی ٹرین پر بٹھا دوں گا‘‘ اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور اپنا بیگ لے کر میرے ساتھ چل پڑا۔
میں کہانی مزید آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں یہ پچھلی جمعرات کا واقعہ ہے اور میری اس نوجوان سے ملاقات آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے ائیرپورٹ پر ہوئی تھی‘ ہمارا ایک گروپ ہنگری کے وزٹ پر تھا‘ میں اسے جوائن کرنے کے لیے بڈا پسٹ جا رہا تھا‘ بڈاپسٹ کی فلائیٹ نہیں ملی تو میں ویانا چلا گیا اور وہاں سے میں نے اب ٹرین کے ذریعے بڈاپسٹ جانا تھا‘ میں ویانا ائیرپورٹ سے سم لے رہا تھا اور میری طارق سے ملاقات ہو گئی‘ وہ لاہور کا رہنے والاتھا‘ پرانے ٹائرز کا پائوڈر بناتا تھا اور عمر 27 سال تھی‘ اسے ترکے میں تھوڑی سی زمین اور دس مرلے کا گھر ملا تھا‘ اس نے 60 لاکھ روپے میں زمین بیچی‘ 30 لاکھ روپے والدہ اور بہن بھائیوں کے لیے چھوڑے اور باقی تیس لاکھ روپے یورپ پہنچنے کے لیے خرچ کر دیے‘
وہ اب برلن جانا چاہتا تھا اور اس کا خیال تھا جرمنی میں خوش حالی اس کا انتظار کر رہی ہے‘ میں نے اس سے پوچھا‘ تم نے ویزہ کیسے حاصل کیا؟ اس نے جواب میں بڑی دل چسپ سٹوری سنائی‘ اس کا کہنا تھا میں نے دو سال پہلے باقاعدہ کمپنی بنائی‘ ایس ای سی پی سے رجسٹرڈ کرائی‘ ٹیکس نمبر لیا‘ اکائونٹس کھلوائے‘ ماموں کی کمپنی کے ساتھ بزنس کر کے رقم ری روٹ کی‘ کینیا‘ ایتھوپیا‘ ملائیشیا‘ دوبئی اور ترکی جیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں جا کر ٹریول ہسٹری بنائی اور پھریورپ کی ایک ایمبیسی میں ویزہ اپلائی کر دیا‘ میرے کاغذات مکمل اور جینوئن تھے‘ قسمت نے بھی ساتھ دیا اور مجھے 9 دن کا ویزہ مل گیا اور میں اب ویانا پہنچ گیا ہوں‘
میں نے حیرت سے اس کی کہانی سنی‘ وہ واقعی چالاک تھا‘ میں نے پوچھا ’’اتنے سفروں کے بعد تمہیں کم از کم ٹرین کے ٹکٹ خریدنے کا طریقہ تو معلوم ہونا چاہیے تھا‘‘ اس کا جواب تھا’’ میں یورپ پہلی بار آیا ہوں‘ میں ان کے سسٹم کو نہیں جانتا‘مجھے اس سے ہمدردی ہو گئی اور میں نے اسے مشین سے ٹرین کا ٹکٹ نکالنے‘ کوچ اور سیٹ تلاش کرنے‘ ریک میں سامان رکھنے اور بورڈ سے سٹیشنوں کے نام پڑھنے کا طریقہ بتا دیا‘میں اسے سنٹرل سٹیشن لے گیا‘ میں نے اسے وہاں انٹرنیشنل ٹرینز‘ ٹکٹ خریدنے اور پلیٹ فارمز پر پہنچنے کا طریقہ بھی بتا یا‘ میری ٹرین میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے‘ میں اسے لے کر کافی شاپ میں بیٹھ گیا اور اس کے مستقبل کے پلان سننا شروع کر دیے‘ اس کا خیال تھا وہ جرمنی پہنچ کر اسائلم اپلائی کر دے گا‘ جرمن حکومت اسے گھر اور رقم دے دے گی‘ یہ پھر مزدوری شروع کرے گا‘ کسی گوری سے شادی کرے گا اور یوں یورپ میں سیٹ ہو جائے گا۔
میں نے یہ پلان سن کر قہقہہ لگایا اور اس سے کہا‘ میرے بھائی تمہیں معمولی سے کام کے لیے اتنا ذلیل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ تم 80 فیصد کام کر چکے ہو‘ صرف 20 فیصد باقی ہے‘ تم اپنے پلان میں تھوڑی سی تبدیلی کر دو اور تمہاری زندگی بدل جائے گی‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا‘ میں نے اسے بتایا‘ یورپ کا ویزہ تمہارے جیسے بیک گرائونڈ کے لوگوں کے لیے تقریباً ناممکن ہے‘ تم نے یہ ناممکن کام کر لیا‘ یہ چیز ثابت کرتی ہے تمہارا ذہن بھی ذرخیز ہے اور تم پر اللہ بھی مہربان ہے لہٰذا اب کوئی مسئلہ نہیں‘تم نے جہاں اتنے سال گزار لیے ہیں تم اب تھوڑا سا وقت مزید گزار لو‘ تمہاری زندگی بدل جائے گی‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا‘
میں نے اسے بتایا‘یورپ میں ہنر (سکل) کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے‘ ان لوگوں کو مزدوروں کی قطعی ضرورت نہیں‘ یہاں صرف ہنر مندوں کی گنجائش ہے‘ تمہیں کوئی نہ کوئی کام آنا چاہیے‘ دوسرا یہاں اسائلم یا کاغذات کے بغیر سیٹلمنٹ انتہائی مشکل اور طویل ہے‘ سو میں سے صرف دو لوگ کام یاب ہوتے ہیں اور انہیں بھی دس سے پندرہ سال لگ جاتے ہیں اور یہ لوگ اس دوران واپس بھی نہیں جا سکتے‘ ان کے والدین اور بہن بھائی تک اس عرصے میں فوت ہو جاتے ہیں‘ دوسرا انہیں چھپ کر گندی نوکریاں کرنی پڑتی ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے جب تمہیں سیدھا راستہ دے رکھا ہے تو تم وہ کیوں استعمال نہیں کرتے‘ وہ حیرت سے بولا ’’وہ سیدھا راستہ کیا ہے؟‘‘ میں نے اسے بتایا ’’تمہارا شینجن ویزہ لگ چکا ہے‘
یہ ویزہ اب لگتا رہے گا‘ تم وقت پر واپس چلے جائو‘ پاکستان بیٹھ کر پہلے وہ ملک سلیکٹ کرو جہاں تم سیٹ ہونا چاہتے ہو‘ پھر یہ ریسرچ کرو وہاں کون کون سی سکل چاہیے‘ فرض کر لو تم جرمنی سلیکٹ کرتے ہو اور جرمنی میں اس وقت پلمبرز ‘ ٹائل فکسرز یا دیسی کھانوں کے ککس کی ضرورت ہے‘ تم ان میں سے کوئی ایک سکل سلیکٹ کرو‘ وہ سیکھو‘دوبارہ وزٹ ویزہ لو‘ جرمنی آئو‘ کام تلاش کرو اور اگر کمپنی تمہارا ویزہ وزٹ سے جاب میں تبدیل کرا دیتی ہے تو ٹھیک ورنہ تم ان سے ورک پرمٹ لو‘ واپس جائو اور باقاعدہ ورک ویزے پر جرمنی واپس آ جائو‘ اس سے تمہیں تین فائدے ہوں گے‘ تم پہلے دن سے برسر روزگار ہو گے‘دوسرا تم لیگل ہو گے اور تین تمہیں دو تین برسوں میں کاغذات مل جائیں گے‘ تم اس وقت جس راستے پر چل رہے ہو اس پر وہ لوگ چلتے ہیں جو سمندروں میں ذلیل ہو کر یورپ پہنچتے ہیں جب کہ تمہارے پاس پاسپورٹ اور ویزہ ہے‘ تمہیں کان کو الٹا پکڑنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اس نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولا ’’لیکن اس میں بہت سا وقت اور پیسہ خرچ ہو جائے گا‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ یہ بمشکل ایک دو سال کی بات ہے لیکن جس راستے پر تم چلنا چاہتے ہو‘ اس میں دس پندرہ سال لگ جائیں گے‘ دوسرا تم نے جہاں ٹریول ہسٹری بنانے میں تیس لاکھ روپے لگا دیے وہاں دس پندرہ لاکھ روپے اور سہی مگر تم یوں خواری اور ذلالت سے بھی بچ جائو گے اور تمہاری زندگی بھی بدل جائے گی‘ اس نے تھوڑی دیر سوچا‘ کھڑا ہوا اور میرے سینے سے لگ گیا‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں نے اسے کافی پلائی‘ اسے کافی کا آرڈر دینے‘ کافی کی مختلف وارئٹیز اور کافی اٹھانے اور پینے کا طریقہ بھی بتایا‘ ویانا میں سستے ہوٹل حاصل کرنے اور گھومنے پھرنے کی جگہوں کی فہرست بنا کر دی‘اسے سم کارڈ بھی لے کر دیا اور ساتھ ہی بتایا’’ تم نے ویزہ ختم ہونے سے پہلے ویانا سے واپس آنا ہے اور ایمبیسی جا کر رپورٹ بیک کرنا ہے اور اس کے بعد گرمیوں میں ایک بار پھر ویزہ لے کر یہاں آنا ہے تاکہ ایمبیسی کو تم پر اعتبار آ جائے اور اس دوران تم نے ملک‘ جاب اور سکل تینوں پر کام کرنا ہے اور اگر یہ فارمولا کام یاب ہو جائے تو تم نے اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی مدد اور میرے لیے دعا کرنی ہے‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر میرا ماتھا چوم لیا‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں اللہ کا بار بار شکر ادا کرتا رہا اس نے مجھے ویانا میں بھی نیکی کا موقع دیا‘ میری ٹرین پلیٹ فارم 10سی سے تھی‘ وہ مجھے پلیٹ فارم پر چھوڑنے آیا اور جب تک پلیٹ فارم میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گیا وہ وہاں کھڑا ہو کر ہاتھ ہلاتا رہا۔
مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کیا میری تمام کہانیاں سچی ہوتی ہیں‘ ان لوگوں میں میرے تازہ ترین دوست وسیم عباسی بھی شامل ہیں‘یہ بہت اچھے رپورٹر ہیں‘ میری چند دن قبل ان سے ملاقات ہوئی اور نہ ختم ہونے والا دائمی تعلق پیدا ہو گیا‘ یہ بہت اچھا وی لاگ کرتے ہیں‘ میں نے ان سے بھی عرض کیا تھا ہمارے دائیں بائیں لاکھوں کہانیاں بکھری ہوتی ہیں‘ ہم بس ان پر توجہ نہیں دیتے‘ یہ کائنات مادے سے نہیں بنی‘ یہ کہانیوں سے بنی ہوئی ہے‘ ہم نے آنکھیں کھول کر یہ کہانیاں دیکھنی ہوتی ہیں اور بس اور ان کہانیوں میں ایک کہانی طارق محمود کی بھی شامل ہے‘ یہ شخص میرا محسن ہے‘اس نے مجھے یوں ہی چلتے چلتے ویانا کے ریلوے سٹیشن پر نیکی کا موقع دیا اور اس نیکی نے میرا دل خوشی اور محبت سے بھر دیا اور میں چار دن سے سرشاری کے عالم میں ہوں۔