میرے پاس چند دن قبل ایک صاحب تشریف لائے‘ یہ سرکاری محکمے میں گریڈ 18 کے افسر تھے‘ محکمے نے ان کی ٹرانسفر کر دی تھی اور یہ ٹرانسفر رکوانا چاہتے تھے‘ میرے ایک دوست نے انھیں میرے پاس بھجوا دیا‘ میں نے ان سے محکمہ پوچھا‘ ان کا محکمہ سرکاری دنیا میں کماؤ پوت کہلاتا ہے۔
میں نے لوگوں کو اس محکمے میں دنوں میں کروڑ پتی بنتے دیکھا‘ میرا خیال تھا یہ بھی لازماً کروڑ پتی ہوں گے اور یہ اب کوئی ایسی پوزیشن تلاش کر رہے ہوں گے جو انھیں ارب پتی بنا دے‘ میں نے ان کی موجودہ پوسٹنگ کے بارے میں پوچھاتو پتا چلا یہ اس وقت کھڈے لائن ہیں‘ یہ دفتر کی ریسرچ ونگ میں ہیں اور ان کے محکمے میں کوئی ایسی ونگ ہے۔
کوئی ریسرچ ہے اور نہ ہی کوئی دفتر‘ یہ روزانہ آفس جاتے ہیں‘ دوسروں کے دفتروں میں بیٹھتے ہیں اور چھٹی کے وقت واپس آ جاتے ہیں‘ میں نے اندازہ لگایا یہ یہاں سے نکل کر کسی ایسی پوزیشن پر جانا چاہتے ہوں گے جہاں سرکاری گھر بھی ہو‘گاڑی بھی اور کمائی کے دو چار اچھے سورس بھی لہٰذا میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کہاں پوسٹنگ چاہتے ہیں؟‘‘ یہ شرما کر بولے ’’ میں یہیں اپنی اسی پوسٹ پر رہنا چاہتا ہوں۔
میں اپنا تبادلہ رکوانا چاہتا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ کو کوئی اس سے بھی زیادہ بری پوسٹنگ ملی ہے؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ہرگز نہیں‘ مجھے دراصل بہت اعلیٰ پوزیشن پر پوسٹ کر دیا گیا ہے‘ اس پوزیشن پر تنخواہ بھی زیادہ ہے اور سہولتیں بھی‘ میں وہاں نہیں جانا چاہتا مگر محکمے کا خیال ہے انھیں وہاں ایک ایمان دار اور کارآمد افسر چاہیے چناں چہ یہ مجھے وہاں بھجوارہے ہیں‘‘ یہ میرے لیے نئی صورت حال تھی۔
میں نے پہلی مرتبہ ان میں انٹرسٹ لینا شروع کر دیا اور ان سے پوچھا ’’آپ اچھی پوسٹ کے بجائے بری پوزیشن میں کیوں رہنا چاہتے ہیں؟‘‘ ان کے جواب نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میں بڑی دیر تک انھیں حیرت سے دیکھتا رہا‘ ان کا کہنا تھا ’’میں ایمان دار زندگی گزار رہا ہوں‘ تنخواہ میںگزارہ کرتا ہوں‘ دفتر سے سرکاری کوارٹر ملا ہوا ہے۔
یہ تین کمروں کا چھوٹا سا پرانا گھر ہے اور یہ میرے خاندان کے لیے کافی ہے‘ بجلی اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات البتہ زیادہ ہیں لیکن میں روزانہ دو ٹیوشنز پڑھا لیتا ہوں‘ مجھے ان سے اچھی آمدنی ہو جاتی ہے‘ باقی اخراجات کے لیے میری تنخواہ کافی ہے‘ میں اگر دور جاؤں گا تو میں ٹیوشن نہیں پڑھا سکوں گا یوں میری آمدنی کم ہو جائے گی اور میں اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں کر سکوں گا۔
مجھے اپنے خاندان سے بھی دور جانا پڑے گا لہٰذا آپ مہربانی فرما کر میرے سینئرز کو سمجھائیں یہ مجھے کھڈے لائن میں رہنے دیں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’لیکن آپ ٹیوشنز کیوں پڑھاتے ہیں؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’میں نے دو سال پہلے شروع کی تھی‘ میرا پہلے اچھا گزارہ ہو جاتا تھا لیکن پھر بجلی‘ گیس اور پٹرول مہنگا ہو گیا‘ گروسری کے ریٹس بھی بڑھ گئے اور بچوں کی فیسیں بھی‘ میرے پاس پھر دو آپشن تھے۔
میں اپنے بچوں کو حرام کھلاتا یا پھر میں اپنی آمدنی میں اضافہ کر لیتا‘ میں نے سی ایس ایس سے پہلے ایم ایس سی کی تھی‘ اسلام آباد ایک خوش حال شہر ہے‘ لوگوں کو یہاں اچھے ٹیوٹرز چاہیے ہوتے ہیں چناں چہ میں نے ٹیوشنز شروع کر دیں‘ میں اب روزانہ دو گھنٹے پڑھاتا ہوں اور میرے بلز اور بچوں کی فیس پوری ہو جاتی ہے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘میں بڑی دیر تک انھیں دیکھتا رہا اور آخر میں اٹھ کر ان کو گلے لگا لیا۔
وہ چلے گئے لیکن مجھے سوچ کے نئے زاویے دے گئے‘ ہم زندگی میں بھاگ دوڑ کیوں کرتے ہیں؟ اس کی دو ہی وجوہات ہوتی ہیں‘ فیملی اور اچھی لائف اور آپ کو اگر یہ دونوں مل رہی ہوں تو پھر بندروںکی طرح ایک درخت سے دوسرے اور ایک ٹہنی سے دوسری پر چھلانگ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ دوسرا ملک میں اگر مہنگائی ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے‘ ہم اپنی آمدنی میں اضافہ کرلیں اور بس اور اگر یہ شخص یہ دونوں کام کر رہا ہے۔
یہ اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر خوش ہے اور دوسرا اگر اس کے اخراجات میں اضافہ ہوا تو اس نے سوچا میں اپنی آمدنی میں آسانی کے ساتھ کس طرح اضافہ کر سکتا ہوں‘ اسے محسوس ہوا یہ ٹیوشن پڑھا کر ساٹھ ستر ہزار روپے کما سکتا ہے۔
اس نے ٹیوشنز پڑھانا شروع کر دیں‘ اس معاملے میں اس نے سی ایس ایس‘ اٹھارہویں گریڈ اور اپنے ’’سو کالڈا سٹیٹس‘‘ کو راستے کی دیوار نہیں بننے دیا لہٰذا یہ ایک اچھی‘ خوش حال اور کام یاب زندگی گزار رہا ہے‘ اب سوال یہ ہے ہم باقی سب لوگ اس طرح کیوں نہیں سوچتے؟ ہم اپنے وسائل کے ساتھ زندگی کو ری شیپ کیوں نہیں کرتے؟۔
پاکستان اس وقت چار خوف ناک مسئلوں کا شکار ہے‘ پہلا مسئلہ پٹرول ہے‘ پٹرول کی قیمت پوری دنیا میں زیادہ ہو رہی ہے اور اس میں اگلے تین سال کمی کا کوئی چانس نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ دنیا میں تیل کے دو بڑے ایکسپورٹرز ہیں‘ روس اور سعودی عرب‘ روس یوکرائن کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے جب کہ سعودی عرب دنیا کا مہنگا ترین شہر بنا رہا ہے اور دونوں کو اس کے لیے رقم چاہیے۔
لہٰذا دونوں نے مل کر پٹرول کی قیمت بڑھا دی ‘ قیمت 80 ڈالرفی بیرل سے 120ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو گا‘ پاکستان میں بھی پٹرول عن قریب 400 روپے فی لیٹر کراس کر جائے گا اور اگر یہ قیمت کم بھی ہو گئی تو بھی ڈیزل مسلسل اوپر جائے گا‘ کیوں؟ کیوں کہ دنیا بھر کے تمام بحری جہاز ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے فرنس آئل سے ڈیزل پر شفٹ ہو رہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں ڈیزل کی مانگ کئی گنا بڑھ جائے گی اور یوں اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا چناں چہ ہمیں ذہنی‘ سماجی اور معاشی لحاظ سے تیاری کر لینی چاہیے‘ ہمیں خود کو پیدل‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور کم سے کم پٹرول کے استعمال کے لیے تیار کر لینا چاہیے‘ ہمارا دوسرا ایشو بجلی ہے‘ واپڈا ہر سال 3700 ارب روپے کی بجلی بیچتا ہے۔
589 ارب روپے کی بجلی چوری ہو جاتی ہے‘ بجلی چوری روکنے کے لیے تگڑا سسٹم چاہیے اور اس سسٹم پر چوری سے زیادہ رقم خرچ ہو گی اور ہمارے پاس سردست رقم موجود نہیں ‘ چوری کی رقم نکالیں تو باقی 3100 ارب روپے بچ جاتے ہیں اور اس میں سے ہر سال 2200 ارب روپے بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو کیپسٹی پے منٹس کی مد میں ادا کر دیے جاتے ہیں‘ یہ رقم بہت زیادہ ہے مگر ہم اس سے نہیں بچ سکتے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم اگر یہ رقم ادا نہیں کریں گے تو غیر ملکی کمپنیاں پاور پلانٹس بند کر دیں گی جس سے لوڈ شیڈنگ شروع ہو جائے گی۔
دوسرا یہ کمپنیاں عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف مقدمات بھی درج کرا دیں گی جس کے نتیجے میں ہمیں بھاری جرمانے ادا کرنا پڑیں گے اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی رک جائے گی اور ہم سردست یہ افورڈ نہیں کر سکتے لہٰذا ہم روئیں‘ پیٹیں‘ سیاست دانوں اور سرکاری ملازموں کو پھینٹا لگائیں یا پھر سڑکیں اور ریلوے ٹریکس بند کردیں لیکن بجلی روزانہ کی بنیاد پر مہنگی ہو گی اور ہمیں ہر ماہ پہلے سے زیادہ مہنگی بجلی خریدنا پڑے گی۔
حقیقت یہ ہے ہم اگر آج اپنے میٹر بند کر دیں تو بھی ہمیں دو تہائی بل دیناپڑیں گے اور یہ کیپسٹی پے منٹس ہوں گی لہٰذا آپ ذہنی طور پر تیار رہیں اور احتجاج کے بجائے متبادل کے بارے میں سوچنا شروع کریں۔
ہمارا تیسرا مسئلہ گیس ہے‘ ہمارے گیس کے لوکل ذخائر ہماری ضرورت سے کہیں نیچے جا چکے ہیں‘ ہم اب ایل این جی کے بغیر گزارہ نہیں کر سکتے اور ایل این جی مہنگی بھی ہو چکی ہے اور ہمارے پاس خریدنے کے لیے ڈالرز بھی نہیں ہیں چناں چہ یہ سردیاں بھی بہت مشکل اور مہنگی ہوں گی اور اس کی مہنگائی میں ہر سال اضافہ بھی ہوتا چلا جائے گا۔
یہ یاد رکھیں نومبر اور دسمبر کے گیس کے بل عوام کو بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بھلا دیں گے اور ہمارا چوتھا مسئلہ مہنگائی ہے‘ مہنگائی کی بے شمار وجوہات ہیں‘ آبادی‘ زراعت میں کمی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی مہنگائی‘ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور امپورٹس پر انحصار‘ مہنگائی کی 21 بڑی وجوہات ہیں۔
ان وجوہات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھے گی چناں چہ پھر عوام کے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟ ہمارے پاس صرف دو آپشن ہیں‘ بچت اور اپنے مالی وسائل میں اضافہ‘ ہمیں یہاں یہ بھی ماننا ہوگا ہم من حیث القوم فضول خرچ لوگ ہیں‘ بچت شاید ہمارے ڈی این اے ہی میں نہیں ہے‘ ہندو ہم سے بالکل مختلف ہیں۔
یہ کنجوسی کی حد تک بچت کرتے ہیں‘ ہم جب تک ہندوؤں کے ساتھ رہتے تھے ہم میں اس وقت تک بچت کی تھوڑی بہت عادت تھی لیکن آزادی کے بعد جب ہندویہاں سے چلے گئے تو ہم نے یہ عادت مکمل طور پر ترک کر دی اور ہم آہستہ آہستہ قومی سطح پر انتہائی فضول خرچ قوم بن گئے ہیں‘ کیسے یہ میں آپ کو اگلے کالم میں بتاؤں گا۔