کسی کامل ولی کے بارے میں مشہور تھا وہ انگلی لگا کرپتھر کو سونا بنا دیتے ہیں‘ یہ خبر اڑتی اڑتی کسی انتہائی غریب شخص تک پہنچ گئی اور وہ دھکے ٹھڈے کھاتے کھاتے اس ولی تک پہنچ گیا‘ باباجی اس وقت پہاڑی راستے پر واک کر رہے تھے‘ انہیں اپنے پیچھے کسی کے پائوں کی آواز آئی‘ وہ مڑے اور سامنے وہ ضرورت مند کھڑا تھا‘ اس نے باباجی کے پائوں پکڑ لیے اور اپنی غربت کا رونا ‘رونا شروع کر دیا‘
باباجی نے ہنس کر پوچھا ’’میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘ ضرورت مند نے ایک پتھر اٹھایا اور باباجی کو پکڑا کر بولا ’’آپ اسے سونے کا بنا دیں‘یہ میرے لیے کافی ہوگا‘‘ باباجی نے پتھر کو اپنی شہادت کی انگلی سے چھوا اور وہ آناً فاناً سونے میں تبدیل ہو گیا‘ ضرورت مند نے باباجی کا شکریہ ادا کیا اور واپس چل پڑا‘ باباجی نے دوبارہ واک شروع کر دی‘ تھوڑی دیر بعد انہیں محسوس ہوا ان کے پیچھے اب بھی کوئی شخص چل رہا ہے‘ انہوں نے مڑ کر دیکھا تو وہی ضرورت مند ان کے پیچھے کھڑا تھا‘ بزرگ نے حیرت سے پوچھا ’’اب کیا مسئلہ ہے؟‘‘ وہ بولا ’’حضور سونے کا یہ پتھر میرے لیے کافی ہے لیکن میرے بعد میرے بچوں کا کیا بنے گا ؟آپ تھوڑی سی مزید مہربانی فرما دیں تاکہ میرا خاندان بھی خوش حالی دیکھ سکے‘‘ بزرگ نے راستے کے ساتھ موجود چٹان کو چھوا اور وہ بھی چند سیکنڈ میں سونے میں تبدیل ہو گئی‘ بزرگ نے اس کے بعد ہنس کر کہا ’’لے بھئی کرم داد یہ دولت اب تمہاری سات نسلوں کے لیے کافی ہے‘‘ وہ یہ کہہ کر دوبارہ آ گے چل پڑے لیکن تھوڑی دیر بعد انہیں پھر محسوس ہوا وہ ضرورت مند ابھی تک ان کے پیچھے چل رہا ہے‘ بزرگ نے درشت لہجے میں پوچھا ’’اب کیا مسئلہ ہے؟‘‘ ضرورت مند لجاجت سے بولا ’’جناب میں دنیا کا سب سے امیر شخص بننا چاہتا ہوں‘ آپ نے اتنی مہربانی فرما دی ہے تو ذرا سی مزید نوازش کر دیں‘‘ بزرگ کو ہنسی آ گئی اور انہوں نے ہنستے ہنستے اپنی انگلی دائیں بائیں پھیرنا شروع کر دی اور ذرا سی دیر میں پورا پہاڑ سونے کا ہو گیا‘ بزرگ نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’لو بیٹا تم دنیا کے سب سے امیر شخص بن چکے ہو‘ اب جائو‘‘
وہ اس کے بعد آگے چل پڑے لیکن چند منٹ بعد انہیں ایک بار پھر اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی‘ انہیں شدید غصہ آگیا‘ وہ واپس مڑے اور دیکھا وہ ضرورت مند ایک بار پھر دانت نکال کر ان کی طرف دیکھ رہا تھا‘ بزرگ نے ڈنڈا اٹھا لیا اور پوچھا ’’اب تمہیں کیا چاہیے؟‘‘ ضرورت مند نے دائیں بائیں دیکھا‘ تھوڑا سا شرمایا اور بزرگ کی انگلی کو ہاتھ لگا کر بولا ’’جناب مجھے آپ کی یہ انگلی چاہیے‘‘۔
یہ کسی اور کی نہیں یہ ہم سب کی کہانی ہے‘ ہم انسانوں کو آخر کتنی دولت چاہیے ہوتی ہے‘ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے‘ کیوں؟ کیوں کہ ضرورت کی ایک حد ہوتی ہے جب کہ خواہش اور ہوس کا کوئی انت نہیں ہوتا‘ یہ وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ انسان وہ انگلی بھی مانگ لیتا ہے جس سے دولت پھوٹ سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا انگلی کے حصول کے بعد خواہش رک جاتی ہے؟
جی نہیں ‘یہ یہاں بھی نہیں رکتی‘ یہ اس کے بعد بھی آگے بڑھتی رہتی ہے یہاں تک کہ انسان ختم ہو جاتا ہے‘ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم آج تک اپنی خواہشوں کا تخمینہ نہیں لگا سکے‘ یہ لامتناہی ہوتی ہیں تاہم انسان نے اپنی ضرورتوں کا تخمینہ ضرور لگا لیا ہے اور یہ تخمینہ ہے 65 ہزار ڈالر سے لے کر 95 ہزار ڈالر سالانہ تک یعنی آپ اگر دنیا کی واحد سپر پاور امریکا میں رہائش پذیر ہیں‘
آپ کا خاندان چار افراد پر مشتمل ہے اور آپ کی آمدنی سالانہ 65 ہزار ڈالر سے 95 ہزار ڈالر ہے تو آپ فائیو سٹار زندگی گزار سکتے ہیں‘ آپ کی پھر کوئی خواہش ادھوری نہیں رہے گی‘ آپ گھر‘ گاڑی‘ خوراک‘ علاج‘ بچوں کی تعلیم اور سال میں دو مرتبہ چھٹیوں کی سہولت انجوائے کر سکیں گے‘ آپ اس کے بعد دنیا کی کسی نعمت سے محروم نہیں رہیں گے‘
معاشی ماہرین کا خیال ہے 95 ہزار ڈالر سالانہ کے بعد دولت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی‘ یہ صرف فگر اور اکائونٹ بن کر رہ جاتی ہے‘ ہم اگر 95 ہزار ڈالر کو ماہانہ میں تبدیل کر دیں تو یہ تقریباً8 ہزار ڈالر بنتے ہیں اور یہ رقم آج کے ایکس چینج ریٹ کے مطابق 22 لاکھ روپے بنے گی اور یہ حقیقت ہے اس رقم کے ساتھ پاکستان میں بھی فائیو سٹار زندگی گزاری جا سکتی ہے‘
یہ پیک ہے لیکن سوال یہ ہے لوگ اس ہدف کے بعد بھی انتہائی خوف ناک‘ مایوس اور بیمار زندگی کیوں گزارتے ہیں؟ ہماری ’’مائینڈ چینجر کمیونٹی‘‘ نے اس پر بہت ریسرچ کی اور ہمیں اس ریسرچ کے بعد معلوم ہوا ہم میں سے زیادہ تر لوگ ضرورتیں پوری ہونے کے بعد انگلی کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں‘ یہ ہوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دائیں بائیں دیکھے سنے بغیردوڑ پڑتے ہیں
اور آخر میں دوسروں کے پائوں تلے کچلے جاتے ہیں اور یوں زندگی کا سفر ختم ہو جاتا ہے‘ میں اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہوں آپ اگر8 ہزار ڈالرز کا مستقل انتظام کر لیں‘ آپ کوئی ایسی پراپرٹی بنا لیں جس کا کرایہ 8 ہزار ڈالر ہو یا آپ کوئی ایسا کاروبار شروع کر لیں جو آپ کو گھر بیٹھے ہر مہینے8 ہزار ڈالر دے دے یا آپ اپنی رقم سٹاک ایکسچینج یا بینک میں رکھ کر ہر مہینے 8 ہزار ڈالر کمانے لگیں
تو آپ فوراً ریٹائرمنٹ لے لیں اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنا شروع کر دیں‘ آپ روزانہ دو اڑھائی گھنٹے ایکسرسائز کریں‘ دو تین گھنٹے کتابیں پڑھیں یا اہل علم کی محفل میں بیٹھیں‘ میوزک سنیں‘ فلمیں دیکھیں اور آپ اگر یہ پسند نہیں کرتے تو آپ تلاوت سنیں‘ آج کے مذہبی ایشوز پر ریسرچ کریں‘ کتابیں لکھیں‘ سیمینارز میں جائیں‘ شہر شہر ‘ملک ملک پھریں‘ نئے فوڈ ٹرائی کریں‘
یوگا اور سوئمنگ سیکھیں‘ اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ کھیلیں‘ سورج کو نکلتے اور غروب ہوتے دیکھیں‘ غریب لوگوں کے بچوں کو پڑھائیں اور کالج اور یونیورسٹی میں دوبارہ داخلہ لے لیں‘ اپنے آپ کو روزگار کی چکی سے نکال لیں‘ یہ بات سن کر زیادہ تر لوگ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔
میرے پاس چند دن قبل ایک صاحب تشریف لائے‘ یہ بھی گزارا نہیں ہوتا جیسی صورت حال سے گزر رہے تھے‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ کا ماہانہ خرچ کتنا ہے‘ یہ بولے‘ ایک لاکھ روپے‘ میں نے ان سے پوچھا یہ رقم سالانہ کتنی بنتی ہے‘ یہ بولے 12 لاکھ روپے‘ میں نے کہا‘ آپ اسے 20 سے ضرب دے دیں تو یہ کتنی بنے گی‘ یہ بولے دو کروڑ 40 لاکھ روپے‘
میں نے کہا گویا اگر آپ کے پاس دو کروڑ 40 لاکھ روپے ہوں تو آپ 20 سال گھر میں بیٹھ کر زندگی گزار سکتے ہیں‘ آپ کی عمر اس وقت 50سال ہے‘ آپ 20سال بعد 70 سال کے ہوں گے اوریہ رقم آپ کے بڑھاپے تک کافی ہو گی‘ وہ بولے ’’جناب یہ 20 سال بعد ڈی ویلیوایشن کی وجہ سے آدھی رہ جائے گی‘
میں نے ہنس کر جواب دیا‘ آپ اسے ڈبل کر لیں‘ آپ کے پاس اگر 4 کروڑ 80 لاکھ روپے ہوں تو یہ ڈی ویلیوایشن کے باوجود 20 سال کے لیے کافی ہوں گے‘ آپ اب دیکھیں کیا آپ کے پاس کوئی ایسا اثاثہ ہے جسے بیچ کر آپ اتنی رقم حاصل کر سکتے ہیں‘ یہ فوراً بولے ہاں میری آبائی زمین اتنے میں بک جائے گی‘
میں نے ہنس کر جواب دیا تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ آپ انگلی کے پیچھے کیوں دوڑ رہے ہیں؟ زمین بیچیں‘ پیسے بینک میں رکھیں‘ آدھے فکس کرا دیں اور باقی آدھے مزے سے کھائیں‘یہ ختم ہو جائیں گے تو فکس ڈیپازٹ کی رقم دوگنی ہو کر آجا ئے گی‘ ٹینشن کس چیز کی ہے؟
یہ بولے ’’آپ کی بات درست ہے لیکن ۔۔۔۔۔‘‘ وہ اس کے بعد خاموش ہو گئے‘ مجھے معلوم تھا اس لیکن کے ساتھ انگلی کی خواہش چپکی ہوئی ہے اور یہ بھی خود کو انگلی سے الگ نہیں کر سکیں گے مگر سوال یہ ہے کیا ساری دنیا ہماری طرح انگلی کے پیچھے دوڑ رہی ہے؟ جی نہیں‘ میں بیسیوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے دس پندرہ سال پہلے اپنی ضرورت کے مطابق رقم جمع کی اور اس کے بعد
انہوں نے کبھی تنکا بھی دہرا نہیں کیا‘ یہ روز صبح اپنی مرضی سے اٹھتے ہیں اور مرضی سے سوتے ہیں‘ تین تین گھنٹے ایکسرسائز کرتے ہیں‘ ستر سال کی عمر میں بھی 40 سال کے دکھائی دیتے ہیں اور گھوم پھر کر مزے سے زندگی گزارتے ہیں جب کہ انگلی کے پیچھے دوڑنے والے لوگ 40 سال کی عمر میں 70 سال کے لگتے ہیں اور دس دس قسم کی دوائیں کھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں نیند نہیں آتی‘
ہم انسانوں کو پورا سال گزارنے کے لیے 23 چیزیں چاہیے ہوتی ہیں لیکن ہم لوگ اوسطاً تین لاکھ چیزیں خریدتے ہیں‘ یہ چیزیں غیر ضروری ہوتی ہیں اور ہم ان غیر ضروری چیزوں کے لیے عمر بھر انگلی کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور یہ وہ حماقت ہے جو ہمیں زندہ ہونے کے باوجود زندہ نہیں رہنے دیتی لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ جو بھی ہیں اور آپ جو بھی کر رہے ہیں آپ چند لمحوں کے لیے رکیں‘
اپنے آج کے اخراجات کو بارہ سے ضرب دیں‘ پھر اس کو 20 سے ضرب دیں اور آخر میں اسے دو سے ضرب دے کر اتنی رقم کا بندوبست کر لیں اور اس کے بعد پیسے کے لیے کام بند کر دیں‘ آپ صرف وہ کام کریں جس سے آپ یا دوسروں کو خوشی ملتی ہے‘ آپ یقین کریں آپ کے لیے یہ دنیا جنت بن جائے گی ورنہ دوسری صورت میں آپ باقی زندگی بھی انگلی کی تلاش میں ضائع کر بیٹھیں گے اور آخر میں آپ کے ہاتھ میں خواہشوں کی ٹوکری کے سوا کچھ نہیں ہو گا‘ زندگی کا سفر ضائع ہو جائے گا۔