شرم الشیخ مصر کا ساحلی اور سیاحتی شہر ہے‘ یہ شہر صحرائے سینا کی ٹپ پر ریڈ سی کے کنارے واقع ہے اور اپنے ریزارٹس‘ہوٹلز‘ سپاز اور ریستورانوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ مجھے چھ مرتبہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا‘ دنیا بھر سے وہاں فلائیٹس جاتی ہیں اور ہر سال وہاں لاکھوں سیاح جاتے ہیں‘ مصر نے اپنے اس مقام کو پاپولر بنانے کے لیے اسے ویزہ فری کر دیا ہے‘
آ پ دنیا کے کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہیں یا آپ کے پاس کوئی بھی پاسپورٹ ہے‘ آپ فلائیٹ لیں اور شرم الشیخ پہنچ جائیں بس آپ کے پاس دو ہزار ڈالرز اور کریڈٹ کارڈ ہونا چاہیے‘ آپ سے ائیرپورٹ پر کرنسی کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آپ کو ویزہ آن ارائیول دے دیا جائے گا تاہم یہ ویزہ صرف شرم الشیخ کے لیے ہو گا‘ آپ وہاں سے مصر کے کسی دوسرے شہر نہیں جا سکیں گے‘ مصر اور اسرائیل کے درمیان فرعون راعمیسس ٹو کے زمانے سے لڑائی چل رہی ہے‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی مصر اور اسرائیل میں چھ جنگیں ہو چکی ہیں‘ دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں‘دونوں میں اختلافات بھی ہیں لیکن ساتھ ساتھ سیاحت بھی چل رہی ہے‘ اسرائیلی شہری ویزے کے بغیر صحرائے سینا میں آسکتے ہیں‘ یہ ویزے کے بغیر کوہ طور کی زیارت بھی کر سکتے ہیں‘ اردن بھی اسرائیل کی سرحد پر واقع ہے اور یہ بھی ایک سیاحتی ملک ہے‘ اس نے بھی گروپ ویزے آسان کر دیے ہیں‘ آپ اپنا گروپ بنائیں‘ کسی سیاحتی کمپنی سے رابطہ کریں اور اردن چلے جائیں بس آپ کے پاس کم از کم دو ہزار ڈالرز ہونے چاہییں‘ میں پچھلے ماہ کمبوڈیا گیا تھا‘ اس کا ویزہ بھی آن لائین تھا‘ آپ کا فنانشل بیک گرائونڈ اگر اچھا ہے‘ کریڈٹ کارڈز ہیں اور آپ اگر ڈالرز میں پے منٹ کر سکتے ہیں تو آپ کمبوڈیا کا ویزہ بھی آن لائین لے سکتے ہیں اور آپ وہاں جا کر موجیں ماریں‘
اسرائیل دنیا کا مشکل ترین ملک ہے مگر یہ بھی ویزہ فری ہے‘ آپ اگر سیاحت کے لیے اسرائیل جانا چاہتے ہیں تو آپ بکنگ کرائیں اور چلے جائیں‘ آپ کو آن ارائیول ویزہ مل جائے گا تاہم یہ سہولت پاکستانیوں کے لیے نہیں ہے‘ دوبئی‘ قطر‘ ترکی‘ سنٹرل ایشیا‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ بھارت‘ سنگا پور اور چین حتیٰ کہ جاپان کے چند سیاحتی علاقوں کے لیے بھی آن ارائیول یا آن لائین ویزے کی سہولت موجود ہے‘
یورپ کے ملک بھی اب تیزی سے اس ڈائریکشن پر جا رہے ہیں‘ یہ امکان بھی موجود ہے آج سے دس سال بعد دنیا کے زیادہ تر ملک سیاحوں کے لیے کھل جائیں گے‘ آپ اگر معاشی طور پر مضبوط ہیں اور اگر آپ کی ٹریول ہسٹری اچھی ہے تو آپ کسی بھی ملک میں ویزے کے بغیر لینڈ کر سکیں گے‘ سوال یہ ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ جواب بہت آسان ہے‘سیاحت دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اور ملک اس انڈسٹری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سرمایہ سمیٹنا چاہتے ہیں لہٰذا یہ زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں‘
آپ چین کے صرف ایک سیاحتی سیکٹر سے اس انڈسٹری کا فیوچر دیکھ لیں‘ چین نے پچھلے ہفتے اپنا ملک ونٹر سپورٹس اور سنو ٹورازم کے لیے کھول دیا‘ چینی حکومت کا خیال ہے اگلی دو سردیوںمیں ان کے ٹھنڈے علاقوں میں 52کروڑ سیاح ونٹر سپورٹس اور سنو ٹورازم کے لیے آئیں گے اور چین ان سے 105 بلین ڈالرز کمائے گا‘ جی ہاں 105 بلین ڈالرز‘
چین میں پچھلے سال سردیوں میں بھی 34 کروڑ 40 لاکھ سیاح آئے تھے یعنی ہماری آبادی سے دوگنے لوگ‘ ہر سال صرف پیرس شہر دیکھنے کے لیے 10 کروڑ لوگ فرانس جاتے ہیں‘ ترکی میں 45 ملین سیاح آتے ہیں اور سپین میں 80 ملین‘ کیوبا جیسا کمیونسٹ ملک بھی سیاحوں سے سالانہ تین بلین ڈالرز کماتا ہے‘ دوبئی نے 2022ء میں ٹورازم سے 29بلین ڈالرز کمائے جب کہ ہماری قومی آمدنی میں سیاحت کی
شرح نہ ہونے کے برابر ہے‘ ہمارے پاس اب پاکستانی بھی نہیں آتے کیوں کہ ہم نے کبھی سیاحت کو انڈسٹری ہی نہیں سمجھا چناں چہ ہم اس سیکٹر میں دنیا میں سب سے پیچھے ہیں۔آپ حقیقت دیکھیے‘ ہم دو دو چار ملین ڈالرز کے لیے پوری دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں جب کہ کمبوڈیا جیسے ملک اتنی رقم روزانہ کما لیتے ہیں‘ ہم جنیوا میں سیلاب کے نام پر ساڑھے گیارہ بلین ڈالرز کے وعدے لے کر خوش ہو رہے ہیں‘
سعودی عرب نے بھی ہم سے 10 ارب ڈالرز سرمایہ کاری کا وعدہ کر دیا‘ ہم نے آئی ایم ایف سے معافی مانگ لی ہے اور یہ معاہدہ بھی اب بہت جلد ہو جائے گا‘ ہمیں چین سے بھی مدد مل جائے گی اور دوسرے دوست ملک بھی ہمیں کچھ نہ کچھ دے دیں گے لیکن یہ امداد جلے ہوئے زخم پر برف سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی‘ یہ رقم بھی ایک دو ماہ میں ختم ہو جائے گی اور ہم ایک بار پھر کشکول لے کر گلی گلی پھر رہے ہوں گے
چناں چہ ہمیں بہرحال آمدنی کا کوئی مستقل بندوبست کرنا ہوگا اور ہمارے پاس اب صرف تین آپشن بچے ہیں‘ ہم اپنی سیاحتی انڈسٹری ڈویلپ کر لیں‘ اپنی آئی ٹی اور سوشل میڈیاانڈسٹری پر توجہ دیں اور راہ داری کے آپشن کھول دیں‘ ہم بھارت اور سنٹرل ایشیااور چین اور بحیرہ عرب کے درمیان ہیں‘ چین کو گوادر اور بھارت کو سنٹرل ایشیا اور سنٹرل ایشیا کو بھارت کی ضرورت ہے لہٰذا ہم اگر اپنی تجارتی سرحدیں کھول دیں‘
بھارت کے ٹرک افغانستان‘ ایران اور ازبکستان جائیں اور وہاں سے را مٹیریل لے کر بھارت جانے لگیں‘ہم اگر اسی طرح سی پیک مکمل کرلیتے ہیں اور چین اور عرب دنیا ہمارے ذریعے ایک دوسرے سے تجارت کرتی ہے تو اس میں ہمارا کیا نقصان ہے؟ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے عمران خان اور جنرل باجوہ سے کہا تھا‘ آپ ایک ایک ارب ڈالر کے لیے رو رہے ہیں‘
آپ آج بھارت کو افغانستان تک راستہ دے دیں‘ آپ 50 بلین ڈالرز سالانہ کما لیا کریں گے‘ یہ مشورہ ٹھیک تھا مگر شاید ہم ابھی مزید جوتے کھانا چاہتے ہیں‘ میری درخواست ہے آپ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بحال کر دیں اور راہ داری بھی دے دیں‘ اس سے روزگار بھی ملے گا اور ہمارے معاشی وسائل بھی بہتر ہو جائیں گے۔
ہمیں اسی طرح آئی ٹی پر بھی توجہ دینی چاہیے‘ ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں‘ ہم ٹک ٹاک‘ فیس بک‘ انسٹا گرام‘ ٹوئٹر اور یوٹیوب کے لیے انسٹی ٹیوٹ کیوں نہیں بناتے؟ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کوپروموٹ کرے‘ ملک میں تعلیمی ادارے بنیں اور ہم آئی ٹی ایکسپورٹ سے ٹھیک ٹھاک سرمایہ کما لیں گے‘ ہم نے آج تک گوگل کو پاکستان نہیں آنے دیا‘
فیس بک مونیٹائزیشن کا معاہدہ بھی بلاول بھٹو نے اب9 دسمبر 2022ء کو کیا‘ آپ اس سے ہمارا فوکس دیکھ لیں اور ہماری تیسری لائف لائین سیاحت ہے‘ ہم عالمی سطح پر پاکستان کی تین چیزوں کو مارکیٹ کر سکتے ہیں‘ مذہبی ٹورازم‘ پہاڑ اور صحرا‘ پاکستان میں سکھوں‘ ہندوئوں اور بودھوں کی مقدس ترین عبادت گاہیں ہیں‘ لاکھوں زائرین ہر سال پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر انہیں ویزہ نہیں ملتا‘
ہم بھارت میں پیدا ہونے والوں کو امریکی اور یورپی پاسپورٹ پر بھی ویزہ نہیں دیتے‘ ہم اگر زائرین کے لیے ویزہ فری کنٹری بن جائیں‘ دنیا بھر سے سکھ‘ ہندو اور بودھ آئیں‘ ائیرپورٹ سے دو ہزار ڈالرز دے کر پاکستانی روپے حاصل کریں‘ امیگریشن آفیسر کو رسید دکھائیں اور آن ارائیول ویزہ لے لیں‘
یہ سہولت زمینی سفر کے دوران بھی حاصل ہو تو ہم دو چار بلین ڈالرز آسانی سے کما سکتے ہیں‘ اسی طرح 1947ء میں 30 لاکھ خاندان پاکستان سے بھارت گئے تھے‘ ہمارے ملک میں آج بھی ان کی جائیدادیں موجود ہیں‘ حکومت ان خاندانوں کو یہ جائیدادیں خریدنے کی اجازت دے دے بس دو شرائط ہوں‘ یہ لوگ یہ جائیدادیں امریکی ڈالرز میں خریدیں گے
اور خریداری کے بعد انہیں فیملی میوزیم میں تبدیل کریں گے یا ریستوران اور ہوٹل بنا ئیں گے‘ آپ جائیدادیں خریدنے والوں کو آمدورفت کا کارڈ جاری کر دیں تاکہ یہ آتے اور جاتے رہیں‘ہمیں اس سے بھی کروڑوں ڈالرز مل سکتے ہیں‘ حکومت اسی طرح ہنزہ اور گوادر کو انٹرنیشنل سٹی ڈکلیئر کر دے‘
یہ لبرل سٹی ہوں اور ویزہ فری ہوں اور ان کی ثقافت دوبئی‘ استنبول‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا کے سیاحتی جزیرے بالی اور سعودی عرب کے نیوم شہر جیسی ہو تاہم خریدوفروخت کا میڈیم ڈالرز ہونے چاہییں تاکہ ملک کے فارن ایکسچینج ریزروز بہتر ہو سکیں‘ حکومت اسی طرح کسی صحرائی علاقے کو بھی سیاحتی مقام ڈکلیئر کر دے اور انٹرنیشنل کمپنیوں کو وہاں ریزارٹس کی اجازت دے دے‘
اس شہر کے قوانین بھی عالمی ہوں‘ ہمارے پاس 8 ہزار میٹر سے بلندپانچ اور 7 ہزار میٹر سے بلند36 چوٹیاں ہیں‘ ہم ان علاقوں کو بھی مائونٹ ایورسٹ‘ مونٹ بلیک اور ایلپس کی طرح سیاحتی بنا سکتے ہیں‘ آپ یہ پہاڑی علاقے بھی بین الاقوامی کمپنیوں کو کرائے پر دے دیں اور ان کی کرنسی بھی ڈالر بنا دیں‘ ہمیں رقم آنا شروع ہو جائے گی‘ ہم آخر دنیا سے اتنے دور کیوں ہیں؟ ہم کیوں بھول جاتے ہیں‘
ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں سعودی عرب دنیا کا ایک بڑا سیاحتی شہر بنا رہا ہے اور اس شہر میں ’’سب کچھ‘‘ جائز ہو گا‘ ہم ایک ایسی دنیا میں بھی رہ رہے ہیں جس میں دوبئی نے پچھلے ہفتے شراب پر ٹیکس بھی واپس لے لیا‘ جس میں ترکی میں شراب‘ شباب‘ کباب اور جواء خانے قانونی ہیں‘ جس میں ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے بڑے اسلامی ملکوں میں کیسینوز‘ بارز‘ ڈسکوز اور مساج پارلرز ہیں‘
جس میں اس ازبکستان میں آج بھی ہر چیز عام ہے جس میں احادیث کی دو بڑی کتابیں لکھی گئی تھیں اور جس میں ویٹی کن سٹی کے سائے میں شراب خانے اور دیوار گریہ سے چند میٹر کے فاصلے پر کلب ہیں جب کہ ہم ہنگلاج‘ راج کٹاس‘ ٹیکسلا اور موہن جودڑو کے زائرین کو ویزہ تک دینے کے لیے تیار نہیں چناں چہ پھر ہمارے پاس ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟۔
میری درخواست ہے آپ اگر اس دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر دنیا کے ساتھ ساتھ چلیں ورنہ کسی دوسرے سیارے پر تشریف لے جائیں‘ یہ زمین پھر آپ کے قابل نہیں ہے۔