جنرل احمد شجاع پاشا نے عمران خان کو پیش کش کی ’’ہم آپ کی مالی مدد بھی کریں گے‘‘ عمران خان نے فوراً جواب دیا ’’جنرل صاحب میں نے جس دن کسی سے پیسے پکڑ لیے میں اس دن اندر سے فوت ہو جائوں گا لہٰذا میں آپ سے رقم نہیں لوں گا‘‘ یہ واقعہ مجھے جنرل پاشا نے بتایا تھا اور ان کا کہنا تھا ‘یہ سن کر میرے دل میں عمران خان کی قدر بڑھ گئی‘ ملاقات کے بعد عمران خان جنرل پاشا کو
گیٹ پر رخصت کرنے آئے تو وہاں ایک اور واقعہ ہو گیا‘ سڑک سے موٹر سائیکل پر دو لڑکے گزر رہے تھے‘ وہ عمران خان کو دیکھ کر رک گئے‘ جنرل پاشا یونیفارم میں تھے چناں چہ عمران خان گھبرا گئے اور انہوں نے جلدی جنرل پاشا کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ ٹکرایا اور انہیں گیٹ پر ہی چھوڑ کر اندر بھاگ گئے‘ جنرل صاحب تھوڑی دیرگیٹ پر کھڑے رہے اور پھر ہنس کرروانہ ہو گئے‘ عمران خان نے ایک طرف مالی امداد سے انکار کر کے جنرل پاشا کا دل موہ لیا تھا اور دوسری طرف یہ دو موٹر سائیکل سواروں کو دیکھ کر اتنا گھبرا گیا تھا کہ اپنے مہمان کو گیٹ پر ہی چھوڑ کر اندر بھاگ گیا‘ جنرل پاشا نے بعدازاں اس بے عزتی کا بدلہ بنی گالا میں لیا‘ خان کے ساتھ ان کی اگلی ملاقات بنی گالا میں طے ہوئی‘ جنرل پاشا پہنچے‘ بنی گالا کے گیٹ پر کھڑے ہو کر خان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ مس کیا اور کہا ’’میں یہیں سے واپس جا رہا ہوں‘ آپ کو کم از کم اپنے مہمان کو عزت کے ساتھ رخصت کرنا چاہیے تھا‘‘ بہرحال قصہ مختصر عمران خان اور جنرل پاشا کے درمیان تعلقات استوار ہو گئے‘ اس کے تین فوری نتائج نکلے‘ پی ٹی آئی کو فنڈز ملنا شروع ہو گئے‘ اسلام آباد کی صرف ایک کاروباری شخصیت نے 150 کروڑ روپے دیے چناں چہ وہ پارٹی جس کے پاس چیئرمین کی گاڑی کے پٹرول کے پیسے نہیں ہوتے تھے وہ چند دنوں میں امیر ہو گئی‘
سینیٹر سیف اللہ نیازی اس وقت پارٹی آفس میں کلرک تھے‘ یہ رقم کا حساب کتاب رکھنے لگے اور یہ خود بھی دنوں میں امیر ہو گئے‘ دوسرا 30 اکتوبر2011ء کو مینار پاکستان پر تاریخ ساز جلسہ ہوا‘ ہزاروں لوگ شریک ہوئے اور عمران خان نے لیڈر شپ کی پہلی سیڑھی پر پائوں رکھ دیا‘ دوسرا جلسہ 25 دسمبر 2011ء کو کراچی میںمزار قائد پرہوا‘ ایم کیو ایم اس وقت پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی
لیکن اس نے عمران خان کے جلسے کے لیے اپنے ہزاروں کارکن مزار قائدبھجوائے‘ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے پرانے لیڈرز یہ دعویٰ کرتے ہیں یہ جلسہ اسٹیبلشمنٹ نے کرایا تھا اور ہم نے اسی کی ہدایت پر جلسہ گاہ بھری تھی اور پھر اس کے بعد عمران خان کے جلسے بھی ہوتے چلے گئے اور یہ میڈیا کی ڈارلنگ بھی بن گئے‘ میڈیا مالکان سے پروموشن بھی ریاستی ادارے کراتے تھے‘
ٹاک شوز میں خان کی شمولیت کی ذمہ داری بھی فوج نے اٹھا لی تھی اور تیسرا عمران خان کے دائیں بائیں درجنوں لیڈرز کھڑے کر دیے گئے‘ شاہ محمود قریشی نے ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی‘ یہ ن لیگ جوائن کر رہے تھے‘ یہ انتہائی خوب صورت ویسٹ کوٹ پہن کر میاں نواز شریف سے ملے‘ میاں صاحب نے ان سے ویسٹ کوٹ کے درزی اور کپڑے کے بارے میں
معلومات بھی لے لیں لیکن پھریہ اچانک اِدھر کی بجائے اُدھر چلے گئے‘ اسد عمر اس وقت اینگرو کے سربراہ تھے‘ یہ پنجاب میں میاں شہباز شریف کی ٹاسک فورس میںشامل تھے اور یہ بڑی تیزی سے شریف برادران کے قریب بھی ہو رہے تھے‘ ان کے دوسرے بھائی محمد زبیر ن لیگ کے میڈیا سیل میں تھے‘ اسد عمر نے بھی اسلام آباد میں ایک میٹنگ کی اور یہ بھی خان کے پاس چلے گئے‘
جہانگیر ترین کو صدر آصف علی زرداری نے جنرل پاشا کے پاس بھجوا دیا‘ یہ اپنی شوگر مل کے لیے انڈیا سے سکھ انجینئر پاکستان بلوانا چاہتے تھے‘ انہیں آئی ایس آئی کی اجازت درکار تھی‘ یہ صدر زرداری کے ذریعے جنرل پاشا سے ملنے راولپنڈی گئے اور یہ بھی چار دن بعد جہاز سمیت پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے‘ مجھے اس دور میںمیاں شہباز شریف نے بتایا‘ میں ملتان کے دورے پر گیا‘
میں نے ائیرپورٹ پر ایک جانا پہچانا سرکاری جہاز دیکھا‘ میں نے پوچھا تو مجھے بتایا گیا‘ جنرل پاشا جہانگیر ترین سے ملاقات کے لیے آئے ہیں‘ شیخ رشید اور مشاہد حسین سید کو بھی پی ٹی آئی کی طرف دھکیلا گیا‘ شیخ رشید 2012ء میں پارٹی کے اتحادی بن گئے تاہم مشاہد صاحب نے عین وقت پر معذرت کر لی اور یہ واپس ن لیگ میں چلے گئے‘ چودھری اعتزاز احسن اور قمرزمان کائرہ کو بھی پش کیا جا رہا تھا‘
یہ راضی بھی ہو گئے مگر عمران خان نے ان کی ڈیمانڈز ماننے سے انکار کر دیا تھا‘ یہ بات بعدازاں آصف علی زرداری تک پہنچ گئی اور یہ طویل عرصہ دونوں صاحبان سے ناراض رہے۔یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ جنرل پاشا ریٹائر ہو گئے اور لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام ڈی جی آئی ایس آئی بن گئے اور عمران خان پراجیکٹ انہیں ورثے میں مل گیا‘ 2013ء کے الیکشنز میں جنرل ظہیر الاسلام کا بہت بڑا کنٹری بیوشن تھا‘
اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا عمران خان کام یاب ہو جائیں گے مگر نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ ن لیگ 126سیٹیں جیت گئی اور عمران خان بمشکل کے پی کے میں حکومت بنانے کے قابل ہو سکے‘ عمران خان الیکشن ہار چکے تھے لیکن ہمیں بہرحال خان کی یہ خوبی ماننا ہو گی یہ ’’گیواپ‘‘ نہیں کرتے‘ عمران خان نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کر دیا اور ان کا یہ مطالبہ آہستہ آہستہ زور پکڑتا چلا گیا
یہاں تک کہ یہ ایک بڑی سیاسی قوت بن گئے‘ 29 نومبر 2013ء کو میاں نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنا دیا‘ جنرل راحیل جمہوریت پسند تھے‘ یہ حکومت کو ڈیل ریل نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت تک عمران خان گلیاں اور سڑکیں گرم کر چکے تھے‘ لندن پلان بھی بن چکا تھا‘ عوامی طاقت کے لیے علامہ طاہر القادری کی خدمات بھی حاصل کی جا چکی تھیں اور میڈیا کو
بھی اشتہارات اور فنڈز کے ذریعے ہاتھ میں لایا جا چکا تھا‘ ٹی وی کے آٹھ نئے اینکرز اور چھ میڈیا مالکان کو عمران خان کے لیے وقف کر دیا گیا‘ میڈیاکمپنیوں کے سی ای اوز تک بدل دیے گئے‘ عمران خان کے حامی اینکرز اپنی تنخواہ‘ مراعات اور پروگرام کا وقت تک خود پسند کرتے تھے اور جو اینکر اس بیانیے سے انکار کرتا تھا اس کا پروگرام چلتے چلتے بند ہو جاتا تھا‘ میں خود اس زمانے کا وکٹم ہوں‘
میرا پروگرام کئی بار ڈائون ہوا اور مجھے سوشل میڈیا پر بھی لاکھوں کی تعداد میں گالیاں اور دھمکیاں دی گئیں‘ بہرحال لانگ مارچ اور دھرنا شروع ہوا اور یہ بری طرح پٹ گیا مگریہ ٹیلی ویژن پر روزانہ کام یاب دکھائی دیتا تھا‘ میں یہاں نواز شریف کی ایک خوبی کا اعتراف بھی کروں گا‘
یہ شخص گھبراتا بھی نہیں اور یہ ضد میں عمران خان سے بھی کئی گنا آگے ہے چناں چہ میاں نواز شریف وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کا گیٹ ٹوٹنے اور پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی پر قبضے کے باوجود ڈٹے رہے‘ یہ پیچھے نہیں ہٹے‘ اس دوران آئی بی نے عمران خان اور عارف علوی اور ڈی جی آئی اور ملک کے رئیل سٹیٹ ٹائی کون کی ٹیلی فون کالز بھی ریکارڈ کر لیں‘
عمران خان اور عارف علوی کی کال لیک کر دی گئی جب کہ دوسری کال جنرل راحیل شریف کو وزیراعظم ہائوس میں سنائی گئی اور اس کے بعد دھرنا پسپا ہو گیا‘ اس کال کا ذکر مشاہد اللہ خان مرحوم نے 14 اگست 2015ء کوبی بی سی کے انٹرویو میں کیا تھا اور اس جرم کی پاداش میں یہ وزارت سے فارغ ہو گئے تھے۔اے پی ایس پشاور کا سانحہ ہوا‘ 132بچے اور سٹاف کے 9 ارکان شہید ہوگئے
اور عمران خان کے سیاسی کزن علامہ طاہر القادری ایک رات انہیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے‘ علامہ طاہر القادری کی واپسی کے بارے میں یہ کہانی گردش کرتی رہی علامہ صاحب کو میاں نواز شریف کے ایک کزن نے راضی کیا تھا‘ انہیں ان کے اخراجات بھی ادا کیے گئے تھے اور شریف برادران کی والدہ مرحومہ بیگم شمیم اختر نے علامہ صاحب کو گارنٹی بھی دی تھی ’’آپ کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ نہیں بنے گا‘‘
اور علامہ صاحب اس گارنٹی کے بعد اپنے خیمے اور کفن لپیٹ کر واپس کینیڈا تشریف لے گئے ‘ یہ خبر مصدقہ نہیں‘ اس میں شامل مختلف کردار یہ حقائق تسلیم کرتے ہیں لیکن تصدیق کرنے سے انکاری ہیں تا ہم اگر ہم بعد کے واقعات کو دیکھیں تو یہ اطلاع غلط محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ شریف برادران نے علامہ صاحب کو ان کی رخصتی کے بعد کبھی تنگ نہیں کیا‘
دھرنے کے دوران ایک رات ملک ریاض کے ذریعے میاں نواز شریف کو دو ماہ چھٹی پر جانے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا‘ نواز شریف سو رہے تھے‘ انہیں اسحاق ڈار کے ذریعے ایمرجنسی میں اٹھایا گیا ‘ اسحاق ڈار کی موجودگی میں ملاقاتی سے ملاقات ہوئی‘ نواز شریف نے پوچھا ’’آپ کو یہ پیغام کس نے دیا ’’ملاقاتی کا جواب تھا ’’میں شخصیت کا نام نہیں بتا سکتا‘‘
نواز شریف کا جواب تھا ’’پھر میں یہ مشورہ ماننے سے انکار کرتا ہوں‘‘ اور وہ یہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے‘ میں اس واقعے کی اسحاق ڈار سے دو بار تصدیق کر چکا ہوں۔جنرل قمر جاوید باجوہ ان حالات میں29 نومبر 2016ء کو آرمی چیف بن گئے اور ملک میں نئے دور کا آغاز ہو گیا۔ (جاری ہے)