پروفیسر اطہر محبوب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ہیں‘ یہ چند دن قبل اسلام آباد آئے‘ مجھے عزت بخشی اور میرے گھر بھی تشریف لائے‘ یہ میری ان سے دوسری ملاقات تھی‘ پروفیسر صاحب پڑھے لکھے اور انتہائی سلجھے ہوئے خاندانی انسان ہیں‘ مجھے مدت بعد سلجھی اور علمی گفتگو سننے کا موقع ملا اور میں ابھی تک اس کی سرشاری میں ہوں‘
پروفیسر صاحب کا خاندان آٹھ سو سال سے علم‘ انصاف اور دین سے وابستہ ہے‘ آبائو اجداد بغداد کے عباسی خاندان کے قاضی القضاء تھے‘ تاتاریوں کے حملوں کے بعد بغداد سے ہندوستان ہجرت کی‘ اترپردیش کے شہر گورکھ پور کو اپنا مسکن بنا یا اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہو گئے‘ دادا قاضی منظور الحق ہجرت کر کے پاکستان آئے‘ سندھ‘ ایبٹ آباد اور گڑھی شاہو لاہور تین شہروں میں علم کے پیاسوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرتے رہے‘ میاں نواز شریف‘ شہباز شریف اور عباس شریف تینوں ان کے شاگرد رہے ہیں‘ پروفیسر اطہر کے والد قاضی محبوب الحق ائیرفورس کے فائٹر پائلٹ تھے‘ وہ پہلے امریکی فائٹر جہاز مارٹن بی 57 کے پائلٹ تھے‘ قاضی محبوب الحق امریکا میں ٹریننگ لینے والے ابتدائی پاکستانی پائلٹوں میں بھی شامل تھے‘ پروفیسر اطہر محبوب ان کے صاحب زادے ہیں‘یہ ملک کے مختلف کنٹونمنٹس کے مختلف سکولوں سے ہوتے ہوئے فرانس اور امریکا کے اعلیٰ اداروں تک پہنچے‘ انجینئر بنے‘ پی ایچ ڈی کی‘ تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوئے اور اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ہیں‘ ان کے والد فوج کے مختلف ٹرینی اداروں کے سربراہ رہے ‘ خاندان کے بے شمار افراد آج بھی ائیرفورس‘ نیوی اور فوج میں شامل ہیں‘ ڈاکٹر اطہر محبوب کی تربیت فوجی‘ علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی لہٰذا ان کی سوچ میچور اور گفتگو میں بے انتہا گہرائی ہے‘ میں نے زندگی میں ان جیسا پڑھا لکھا‘ متوازن اور علمی شخص بہت کم دیکھا۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے دوران ذکر کیا سائوتھ افریقہ نے 1950ء کی دہائی میں کوئلے سے پٹرول بنانے کی ٹیکنالوجی ڈویلپ کر لی تھی‘ چین نے یہ ٹیکنالوجی سیکھ کر اب چھوٹے چھوٹے پلانٹس بنا لیے ہیں‘ ہمارے پاس تھر میں اتنا کوئلہ موجود ہے جس سے ہم پانچ سو سال تک اپنی انرجی کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں‘ ہم اس کوئلے سے پٹرول کیوں نہیں بناتے؟ میں نے فوراً عرض کیا‘ سر آپ پاکستان میں پہلے انسان ہیں جس سے میں نے یہ بات سنی‘
ہمارے سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریٹس حتیٰ کہ سائنس دان تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ میں نے ان سے عرض کیا میں دو ہفتے قبل سائوتھ افریقہ گیا تھا‘ میں نے وہاں ساسول (Sasol) کے پٹرول پمپس دیکھے تھے‘ مجھے ڈاکٹر کاشف مصطفی نے بتایا تھا‘ ساسول نے 1960ء کی دہائی میں کوئلے سے پٹرول اور ڈیزل بنانا شروع کیا تھا‘ 1980ء کی دہائی تک یہ کمپنی پورے ملک کی آئل کی ضرورت پوری کرتی تھی‘ یہ آج بھی کام کر رہی ہے اور لوکل آبادی کے زیادہ تر لوگ ان سے پٹرول خریدتے ہیں‘
میں نے ریسرچ کی تو پتا چلا کوئلے سے بیک وقت بجلی‘ پٹرول اور گیس تینوں بن سکتی ہیں‘ ان تینوں کا بنیادی عنصر کیوں کہ کاربن ہوتا ہے اور کاربن کوئلے میں سب سے زیادہ ہوتی ہے چناں چہ اسے بڑی آسانی سے گیس اور پٹرول میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف میری بات سے اتفاق کیا بلکہ بڑی تفصیل کے ساتھ کوئلے کو گیس اور پٹرول میں تبدیل کرنے کا طریقہ بھی بتایا‘ میں نے ان سے پوچھا کیا ’’ہم تھر کے کوئلے سے اپنی ضرورت کے مطابق پٹرول اور گیس بنا سکتے ہیں؟‘‘
ان کا فرمانا تھا ’’ہم نہ صرف اپنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں بلکہ ہم ایکسپورٹ بھی کر سکتے ہیں بس اس میں صرف ایک قباحت ہے اور وہ ہے فضائی آلودگی‘ کوئلہ آلودگی بہت پیدا کرتا ہے لیکن اس کا علاج بھی ممکن ہے‘ چین نے آلودگی روکنے کے لیے بھی ٹیکنالوجی بنا لی ہے‘ ہم اگر آلودگی کنٹرول کر لیں تو ہم کم از کم توانائی کا مسئلہ ضرور حل کر سکتے ہیں‘‘۔ اب سوال یہ ہے جنوبی افریقہ کو یہ آئیڈیا کہاں سے آیا؟
آپ کو اس کے لیے 1950ء کی دہائی میں جانا ہوگا‘ 1950ء میں جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ شروع ہوئے اور گوروں نے کالوں سے تمام انسانی حقوق چھین لیے‘ یہ ایک غیرانسانی اور غیراخلاقی فیصلہ تھا چناں چہ سیاہ فام باشندوں نے بغاوت شروع کر دی‘پورے ملک میں ہنگاموں کا آغاز ہو گیا‘ دوسری طرف اقوام متحدہ نے جنوبی افریقہ پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں جس کے بعد امپورٹس ایکسپورٹس دونوں بند ہو گئیں اور جنوبی افریقہ میں خوف ناک بحران پیدا ہو گیا‘
یہ بحران اگر ایشیا یا تیسری دنیا کے کسی ملک میں آیا ہوتا تو وہ یقینا لیٹ جاتا لیکن جنوبی افریقہ نے کمال طریقے سے اس مصیبت کو اپنے لیے نعمت میں تبدیل کر لیا اور یہ ملک دس سال میں ہر قسم کی امپورٹ سے آزاد ہو گیا‘ سائوتھ افریقہ میں تیل نہیں نکلتا تھا‘ حکومت نے فوری طور پر سائنس دانوں کی مدد لی اور انہوں نے چند برسوں میں کوئلے سے پٹرول اور گیس بنانا شروع کر دی‘ ان لوگوں نے بجلی کے پلانٹس بھی کوئلے پر شفٹ کر دیے‘ یہ لوگ خوراک بھی ملک کے اندر پیدا کرنے لگے اور مشینوں اور گاڑیوں کے کارخانے بھی ملک میں لگا لیے یوں امپورٹس کا مسئلہ حل ہو گیا لیکن ملکوں کو غیرملکی سرمایہ بھی چاہیے ہوتا ہے اس لیے بھی ان لوگوں نے کمال بندوبست کیا‘
جنوبی افریقہ میں لی سوٹو (Lesotho) نام کا ایک علاقہ ہے‘ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں چند لاکھ لوگ رہتے تھے‘ جنوبی افریقہ نے وہاں آزاد حکومت قائم کر کے اسے الگ ملک بنا دیا‘ لی سوٹو میں میں تجارتی کمپنیاں بنیں‘ یہ کمپنیاں جنوبی افریقہ سے مال خریدتیں‘ ان پر میڈ ان لی سوٹو کی مہریں لگتیں اور پوری دنیا کی منڈیوں تک پہنچا دیتیں‘ اقوام متحدہ اس بدمعاشی سے واقف تھی لیکن یہ تکنیکی طور پر بے بس تھی‘ یہ کسی آزاد اور قانونی ملک کی تجارت پر پابندی نہیں لگا سکتی تھی اور یوں سائوتھ افریقہ میں اقتصادی پابندیوں کے باوجود ترقی کا عمل جاری رہا‘
میرا پرانا تھیسس ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو گرم اور سرد دو علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے‘ دونوں علاقوں کے لوگوں کے ڈی این اے میں بڑا فرق ہے‘ ٹھنڈے علاقے کے لوگ سائنسی دماغ کے ہوتے ہیں‘ یہ مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں جب کہ گرم علاقے کے لوگ فلسفی ہوتے ہیں‘ یہ سوچتے اور بولتے زیادہ ہیں‘ آپ کسی دن ڈیٹا جمع کرلیں‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے دنیا کی 95 فیصد ایجادات ٹھنڈے علاقوں میں ہوئیں اور یہ گوروں نے کیں جب کہ دنیا کے 98 فیصد مذاہب اور فلسفوں نے گرم علاقوں میں جنم لیا‘
احادیث کی چھ کتابیں بھی سنٹرل ایشیا کے علماء نے مرتب کیں اور یہ سفید فام تھے اور دنیا پر زیادہ عرصہ حکومت بھی سفید فام باشندوں نے کی اور اس کی بنیادی وجہ ٹیکنالوجی تھی‘گورا ڈی این اے قسم کی ٹیکنالوجی جلدی بنا لیتا ہے جب کہ ہم گندمی یا سیاہ فام لوگ صرف سوچتے اور بولتے رہ جاتے ہیں‘ دنیا اس وقت بھی سفید فاموں اور ٹیکنالوجی کے ہاتھ میں ہے اور یہ زیادہ تر ٹھنڈے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں چناں چہ موسم اور ڈی این اے بھی دنیا میں تفریق کی وجہ ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہم اگر سفیدفام نہیں ہیں یا گرم علاقوں میں پیدا ہو گئے ہیں تو ہم نئی ٹیکنالوجی اور ماڈلز سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے‘
ہمیں اٹھانا چاہیے کیوں کہ علم اور عقل عالمی میراث ہیں‘ دنیا کے تمام انسانوں کو اس پر برابری کا حق حاصل ہے۔
ہم تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں‘ ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور کساد بازاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ ملک سیاسی افراتفری کا شکار بھی ہو چکا ہے‘ حکومت اپنا سیاسی مستقبل بچانے میں مصروف ہے‘ عمران خان ’’میں یا پھر کوئی بھی نہیں‘‘ کے عمل سے گزر رہے ہیں جب کہ اسٹیبلشمنٹ اگلی تقرری کے بحران کا شکار ہے لہٰذا ملک اس وقت اللہ کے آسرے پر ہے‘ یہ چلتا ہے یا نہیں چلتا اس وقت کسی کو اس کی کوئی پروا نہیں‘ کاش اس وقت چند صحیح الدماغ لوگ اکٹھے ہو جائیں‘
یہ سب کو اکٹھا بٹھائیں‘ رولز آف گیم طے کریں اور ملک کو راہ راست پر لے آئیں‘ ہم زیادہ نہ کریں تو کم از کم ملک کے بنیادی مسئلے ہی طے کر کے ان سے متعلق ادارے بنادیں اور ان اداروں کو ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے بالاتر کر دیں‘ کوئلے سے بجلی‘ گیس اور پٹرول بنانے کا ادارہ بنائیں‘ زراعت کے شعبے کے لیے بھی پالیسیاں بنا کر بیس سال کے لیے فکس کر دی جائیں‘ تعلیم کا شعبہ اور نصاب بھی فکس کر دیا جائے‘ آبادی کنٹرول کا محکمہ بھی آزاد اور پالیسی لانگ ٹرم ہو اور کاروباری شعبے کے لیے بھی تمام پالیسیاں اور ٹیکس سلیبز ایک ہی بار فکس کر دی جائیں اور پھر انہیں کسی بھی صورت میں چھیڑا نہ جائے‘
آپ بالکل اسی طرح احتجاج کے رولز بھی طے کر دیں‘ کسی کو سڑک‘ شہر اور پل بند کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور جو یہ کرے اسے بھاری جرمانہ بھی کیا جائے اور اس کی سیاست اور کاروبار پر بھی پابندی لگا دی جائے‘ یہ ملک پھر چل سکے گا ورنہ آپ یقین کریں ہم 2023ء میں بیٹھ کر 2022ء کو یادکیا کریں گے اور کہا کریں گے واہ وہ بھی کیا زمانہ تھا‘ چیزیں مہنگی تھیں لیکن دستیاب تھیں مگر اب پٹرول ہے‘ گیس ہے‘ بجلی ہے اور نہ ہی خوراک ہے صرف عمران خان اور مریم نواز کی تقریریں ہیں‘ہم اگر اس زمانے میں جانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن اگر ہم یہ ملک چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں عقل سے کام لینا پڑے گا‘ یہ یاد رکھیں زندہ رہنا‘ ترقی کرنا اور مطمئن زندگی گزارنایہ عقل کے بغیر ممکن نہیں اور ہم عقل سے مکمل عاری ہو چکے ہیں۔