میں نے مونس الٰہی سے پوچھا ’’خاندان میں اختلافات کہاں سے شروع ہوئے؟‘‘ ان کا جواب تھا’’جائیداد کی تقسیم سے‘ ظہور الٰہی فیملی نے اپنے اثاثے ہمارے بچپن میں آپس میں تقسیم کر لیے تھے صرف لاہور کا گھر رہ گیا تھا‘ یہ گھر ہمارے نانا چودھری ظہور الٰہی نے بنانا شروع کیا تھا لیکن مکمل ہونے سے قبل ہی ان کی شہادت ہو گئی‘ گھر بہت بڑا تھا لہٰذا اس کی تقسیم مشکل تھی اور یوں یہ سلسلہ لٹکا رہا‘
ماموں اور ابا کا بزنس مشترکہ تھا‘ ہمارے پاس دو شوگر اور دو ٹیکسٹائل ملیں تھیں‘ 2006ء میں یہ اثاثے تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا‘ کنجاہ ٹیکسٹائل اور میاں چنوں شوگر مل چودھری شجاعت کے بیٹوں نے لے لیں اور پھالیہ شوگر مل اور ملک وال ٹیکسٹائل ہمارے حصے آ گئی‘ مجھے فیکٹریاں چلانے کا تجربہ نہیں تھالہٰذا میں نے دونوں ملیں بیچنے کا فیصلہ کر لیا‘ پنجاب بینک کے صدر ہمیش خان ایک گاہک لے آئے‘ میں نے انہیں ٹالنے کے لیے ویلیو سے زیادہ ڈیمانڈ کر دی لیکن گاہک نے اوکے کر دیا اور یوں میں نے ملیں بیچ دیں‘ ابا یہ نہیں چاہتے تھے‘ یہ مخالفت کرتے رہے مگر میں نے ملیں بیچ کر زمینیں خرید لیں‘ اللہ نے کرم کیا اور میرے اثاثوں میں اضافہ ہوگیا‘ شافع اور سالک نے بھی ہمیش خان سے خود رابطہ کر کے اپنی ملیں بیچ دیں‘ ان دونوں نے اپنی رقم کہاں لگائی میں نہیں جانتالیکن یہ ملیں بیچنے کا الزام میرے سر لگا دیتے ہیں جب کہ پراپرٹیز ان کی تھیں‘ یہ فیصلہ بھی انہوں نے خود کیا تھا‘ یہ نہ بیچتے‘ دوسرا ہماری لاہور میں للیانی میں زمین تھی‘ وہ زمین بھی ان کی مرضی سے تقسیم ہوئی تھی‘ ان دونوں بھائیوں نے فرنٹ زیادہ لیا تھا اور مجھے پیچھے زمین دی تھی‘ میری قسمت‘ میری پچھلی زمین مہنگی بک گئی‘ انہیں اس کا بھی افسوس ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا گھر کی تقسیم پر بھی کوئی جھگڑا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’ایک نہیں کئی جھگڑے تھے‘ یہ گھر ماموں شجاعت کی خواہش پر تقسیم ہوا تھا‘ مجھے ماموں نے کہا تھا تم ایل ڈی اے سے کاغذات نکلوائو اور گھر تقسیم کر دو‘ گھر کی تقسیم کسی طرح نہیں ہو پا رہی تھی‘ ہمارے بیڈرومز اور ڈرائنگ روم تک تقسیم ہو رہے تھے لہٰذا ماموں نے فیصلہ کیا جس کا گھر جہاں ہے اسے اسی طرح قبول کر لیا جائے لیکن پھر پیمائشوں کا تنازع شروع ہو گیا‘
کبھی ایک پیمائش شروع کر دیتا تھا اور کبھی دوسرا‘ پیمائش کے اس تنازعے کے دوران اشرف مارتھ مرحوم کے صاحب زادے منتہیٰ اور چودھری وجاہت کے بیٹے موسیٰ الٰہی کی لڑائی بھی ہوئی اور یہ تماشا گھر کے ملازمین نے بھی دیکھا‘ شجاعت ماموں کے دو بیٹے (شافع اور سالک) اور ایک بیٹی (خیریا) ہیں‘ خیریا کی شادی ایک سعودی شہری سے ہوئی‘ یہ سعودیہ میں رہتی ہیں‘ ماموں نے مجھے بلا کر کہا‘ تم لاہور والے گھر کا میرا حصہ خیریا کے نام ٹرانسفر کر دو‘ میرے بیٹے میرے بعد اسے نہیں دیں گے‘
میں نے کر دیا تو خیریا نے آ کر مجھ پر الزام لگا دیا تم میرے 13 مرلے کھا گئے ہو‘ میں نے ماموں سے کہا‘ آپ میرے حصے میں سے جتنا لینا چاہتے ہیں لے لیں اور یوں ماموں نے اپنا بیڈروم میرے حصے تک ایکسٹینڈ کر دیا مگر مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں‘‘۔میں نے پوچھا ’’آپ کی جب ن لیگ سے چیف منسٹری فائنل ہو گئی تھی تو پھر آپ کو عمران خان کے پاس جانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ مونس الٰہی کا جواب تھا ’’میں مانتا ہوں عمران خان عدم اعتماد سے پہلے تک پاپولر نہیں رہے تھے‘ میں حلقے میں جاتا تھا تو لوگ کہتے تھے
چودھری صاحب ہم اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ساتھ لڑ کر نہیں جیت سکتے‘ آپ حکومت سے جان چھڑا لیں مگر جب عدم اعتماد آئی تو لوگوں کی رائے تبدیل ہونا شروع ہو گئی‘ حلقے کے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا‘ بارہ جماعتیں عمران خان کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں‘ ہمیں اس وقت عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے‘ میں نے لوگوں کے ذہن پڑھ لیے اور عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا اور میں اپنے بزرگوں کی مخالفت کے باوجود یہ کرتا رہا‘ وہ خواہ’’ خان صاحب اپنی پارٹی کے لوگوں سے کہیں آپ نے گھبرانا نہیں‘‘
جیسا بیان ہو یا پھر کابینہ میں میری گفتگو ہو‘ میرا خیال تھا ہمیں مشکل وقت میں عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے اور میں نے اور ابا نے یہ کیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو شافع اور سالک کو بھی کنونس کرنا چاہیے تھا‘‘ ان کا جواب تھا ’’شافع ایم پی اے بننا چاہتا ہے‘ میں نے اس کو آفر کی تھی آپ جہاں سے کہتے ہو میں تمہیں کھڑا کر کے پنجاب اسمبلی پہنچائوں گا‘ تم بے شک میرے حلقے سے الیکشن لڑ لینا لیکن یہ فیصلہ نہیں کر سکا جب کہ سالک ابا کے حلقے سے ایم این اے ہے اور یہ کبھی حلقے میں نہیں گیا‘
میں نے اسے کئی مرتبہ کہا‘ تم حلقے کے اندر اپنا گھر یا ڈیرہ بنائو‘ لوگوں سے ملو تاکہ تمہاری سیاسی گرومنگ ہو سکے لیکن یہ نہیں مانا‘‘ میٹنگ میں موجود ایک دوسرے صاحب بولے ’’سالک صاحب پارٹی فنڈ سے حلقے میں ڈیرہ بنوانا چاہتے تھے‘ انہوں نے مجھے ۔۔۔‘‘مونس الٰہی نے فوراً ہاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش کرا دیا‘‘ مونس الٰہی نے کہا ’’سالک نے الیکشن کمیشن میں 40 کروڑ روپے کیش ڈکلیئر کیا ہے‘
ان کے پاس رقم بھی موجود ہے لیکن یہ اپنی رقم چودھری شجاعت پر خرچ کرتے ہیں اور نہ حلقے میں‘ ماموں میری ذمہ داری تھی‘‘ وہ صاحب دوبارہ بولے ’’جرمنی میں علاج بھی ۔۔۔۔‘‘ مونس الٰہی نے دوبارہ ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا اور بولے ’’یہ دونوں بھائی سیاسی لحاظ سے ایکٹو نہیں ہیں لیکن ان کے خواب بڑے ہیں اور یہ خواب تنازعے کی اصل جڑ ہیں‘‘۔میں نے پوچھا ’’یہ خبر گردش کرتی رہی آپ نے خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق کو کمرے میں بٹھا کر اندر سے کنڈی لگا کر بتایا تھا
آپ کس کے کہنے پر عمران خان کے پاس بنی گالہ گئے تھے؟‘‘ یہ سیدھے ہوئے اور بولے ’’میں حلف دینے کے لیے تیار ہوں یہ بات غلط ہے‘ آپ خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق کے سامنے قرآن رکھ دیں اور میرے سامنے بھی رکھ دیں‘ یہ بات غلط نکلے گی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا موجودہ حالات میں الیکشن ممکن ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ہم اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر الیکشن کرا سکتے ہیں اور نہ جیت سکتے ہیں‘
یہ حقیقت ہے آج اگر الیکشن ہو جائیں تو عمران خان ٹوتھرڈ نہیں تھری تھرڈ میجارٹی لے لیں گے لیکن ہمیں الیکشن تک جانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے اپنے فاصلے کم کرنا ہوں گے‘ میں نے خان صاحب کو مشورہ دیا‘ آپ اور آرمی چیف دونوں اکیلے بیٹھ جائیں‘ وہاں کوئی تیسرا شخص نہیں ہونا چاہیے‘ آپ کی غلط فہمیاں چند لمحوں میں ختم ہو جائیں گی لیکن وہاں اگر کوئی تیسرا شخص ہوا تو پھر یہ دونوں اپنی اپنی پوزیشن پر قائم رہیں گے‘‘
میں نے پوچھا ’’کیا آپ کی ملاقاتیں ہوئیں؟‘‘ یہ بولے ’’جی ہاں ہوئی ہیں‘ آرمی چیف کے دل میں عمران خان کے خلاف کسی قسم کی کدورت نہیں‘ وہ کبھی ان کے خلاف بات نہیں کرتے تاہم ان کے ساتھی کیا سوچ رہے ہیں یہ میں حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا لیکن ہم نے اگر فیئر اینڈ فری الیکشن کرانے ہیں تو پھر ہمیں یہ فاصلہ کم کرنا ہوگا‘ اس کے بغیر کوئی آپشن نہیں‘‘
میں نے پوچھا ’’آپ کی والدہ کے بارے میں شنید ہے یہ عمران خان کی حامی ہیں‘‘ مونس الٰہی کا جواب تھا ’’میری والدہ قیصرہ الٰہی سیاسی لحاظ سے بہت سمجھ دار خاتون ہیں‘ چودھری ظہور الٰہی انہیں سیاست میں لانا چاہتے تھے‘ وہ چودھری شجاعت اور پرویزالٰہی کی بجائے ہمیشہ میری والدہ کو سیاسی مذاکرات میں لے کر جاتے تھے‘وہ سیاسی گفتگو کے دوران ابا اور ماموں کو کمرے میں نہیں گھسنے دیتے تھے‘
والدہ انتہائی پڑھی لکھی اور سمجھ دار بھی ہیں‘ پورے خاندان کے بچوں کے نام انہوں نے رکھے‘ شاید اسی لیے آپ کو ظہور الٰہی فیملی کے نام منفرد محسوس ہوتے ہیں‘ میں نے امریکن سکول میں تعلیم حاصل کی‘ ہمیں وہاں اردو نہیں پڑھائی جاتی تھی‘ والدہ نے میرے لیے اردو کا ٹیوٹر رکھا اور میں جب سکول سے آتا تھا اور میرے کزنز کھیلتے کودتے تھے تو والدہ مجھے کان سے پکڑ کر ٹیوٹر کے سامنے بٹھا دیتی تھیں
اور یہ والدہ کی محنت کا نتیجہ ہے میں اردو پڑھ بھی لیتا ہوں اور لکھ بھی لیتا ہوں جب کہ باقی سب رومن میں اردو لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں‘ میری والدہ سیاسی لحاظ سے ہم سب سے آگے ہیں‘ یہ ہمیں بھی سمجھاتی اور بتاتی رہتی ہیں لیکن آپ انہیں چھوڑیں‘ ہمارے خاندان میں عمران خان کی سب سے بڑی فین اور ہمدرد چودھری شجاعت حسین کی بیگم کوثر الٰہی ہیں‘ یہ میری پھوپھی بھی ہیں‘
ہم نے جب عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو پھوپھو (چودھری شجاعت کی بیگم) نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور میرا ماتھا بھی چوما تھا‘ آپ اس سے ان کی ہمدردی کا اندازہ کر لیجیے‘ میرا ماموں کے ساتھ یہی اختلاف ہے‘ آپ نے پوری زندگی میرے سامنے شریف فیملی کی برائیاں کیں‘
آپ مجھے بتاتے رہے ہمارے ساتھ فلاں موقع پر بھی زیادتی ہوئی اور فلاں جگہ بھی ہم سے غلط بیانی کی گئی لیکن پھر آپ اچانک ان کے ساتھ مل گئے‘ آپ کو چاہیے تھا آپ میرا سافٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ کر دیتے تاکہ میں بھی ذہنی طور پر تیار ہو جاتا لیکن آپ نے اچانک یوٹرن لے لیا اور میں اس یوٹرن کو ہضم نہ کر سکا‘‘
میں نے آخری سوال کیا ’’کیا آپ پی ٹی آئی جوائن کریں گے یا اپنی پارٹی کو الگ رکھیں گے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’یہ قبل از وقت ہے‘ ہم اس وقت عمران خان کے اتحادی ہیں‘ ہمیں آگے چل کر اتحاد میں سیاسی مستقبل نظر آیا تو ہم اتحادی رہیں گے اور اگر حالات کا تقاضا ہوا تو ہم پی ٹی آئی میں باقاعدہ شامل ہو جائیں گے بہرحال ہم نے ابھی فیصلہ نہیں کیا‘‘۔