چترال کے دو حصے ہیں‘ اپر چترال اور لوئر چترال‘ دونوں اضلاع الگ الگ ہیں‘ لوئر چترال دریا کے کنارے آباد ہے اور وادی نما ہے جب کہ اپر چترال پہاڑوں پر چپکے‘ لٹکے اور پھنسے ہوئے دیہات کی خوب صورت ٹوکری ہے‘ ہم اتوار کی صبح اپر چترال کے ضلعی ہیڈ کوارٹر بونی کے لیے روانہ ہوئے‘ سفر مشکل اور دشوار گزار تھا‘ دریا کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے گائوں آ رہے تھے‘
چترال پاکستان کے باقی علاقوں سے مختلف ہے‘ اس میں دریا کی دونوں سائیڈز پر خشک سنگلاخ پہاڑ ہیں‘ ان پر اچانک کیک پر چاکلیٹ کی ڈریسنگ کی طرح مٹی کی دو تین میٹر موٹی تہہ آ جاتی ہے اور اس تہہ پر دور سے گھر‘ کھیت اور باغ چپکے ہوئے نظر آتے ہیں‘ ان دیہات کی تین اطراف میں سنگلاخ چٹانیں ہوتی ہیں اور چوتھی سائیڈ پر گہرائی میں دریا لہٰذایہ اس لحاظ سے ایک منفرد علاقہ ہے۔ہماری بائیں جانب وقفے وقفے سے گائوں آ رہے تھے‘ ان میں جوار اور مکئی کی فصلیں لہلہا رہی تھیں اور ناشپاتی‘ سیب‘ انگور اور شہتوت کے باغ جھوم رہے تھے‘ ہمیں راستے میں ہموار خشک میدان بھی ملے‘ وہ شاید پانی کی کمی کی وجہ سے خشک رہ گئے تھے‘ بونی لوئر چترال سے تین گھنٹے کے فاصلے پر تھا‘ قصبہ پرانا اور دھیما سا ہے‘ آبادی کا زیادہ حصہ اسماعیلی کمیونٹی پر مشتمل ہے لیکن مذہبی منافرت نہ ہونے کے برابر ہے‘ یہ لوگ ایک دوسرے کو سنی اور اسماعیلی کی حیثیت سے نہیں پہچانتے چترالی کی حیثیت سے جانتے ہیں‘ ہم بونی میں پروفیسر علی نگاہ کے گھر گئے‘ یہ اسماعیلی مشنری رہے‘ چالیس سال تک دنیا کو اسماعیلی کمیونٹی کی روایات کے بارے میں بتاتے رہے‘ چھ کتابوں کے مصنف بھی ہیں لیکن میں یہ جان کر حیران رہ گیا یہ اسماعیلی ہونے کے باوجود جماعت اسلامی میں ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ ووٹ بھی مانگتے ہیں‘ ان کے صاحب زادے معراج پیرا گلائیڈر ہیں‘ وہ مقامی لوگوں کو ٹریننگ بھی دیتے ہیں اور سیاحوں کو گلائیڈ بھی کراتے ہیں‘ چترالی اپنے گھر تین حصوں میں بناتے ہیں‘ فیملی حصہ‘ اس میں عورتیں اور بچے رہتے ہیں‘ مہمان خانہ‘ اس میں مہمانوں کو ٹھہرایا اور کھلایا پلایا جاتا ہے اور باغ‘ اس میں فروٹ کے درخت لگائے جاتے ہیں‘ جانور پالے جاتے ہیں اور کھیتی باڑی ہوتی ہے‘ پروفیسر علی نگاہ کا گھر بھی اسی ترتیب سے بنا ہوا تھا‘ باغ میں سیب اور ناشپاتی کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے اور ان پر انگوروں کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں‘ چترالی بانس نما لمبی چھڑی سے پھل توڑتے ہیں‘ چھڑی کے آخر میں غلیل بنی ہوتی ہے‘یہ لوگ پھل کو اس کے درمیان پھنسا کر چھڑی گھماتے ہیں اور وہ نیچے آ گرتا ہے جب کہ سیب کے درخت زیادہ اونچے نہیں ہوتے لہٰذا پھل آسانی سے توڑے جا سکتے ہیں‘ ہم نے جی بھر کر پھل توڑے جب کہ معراج ہمارے لیے تازہ انگور توڑ کر لائے‘ پروفیسر صاحب کا مہمان خانہ بھی چھوٹا سا باغ تھا‘کچی اینٹوں کی دیواروں کے درمیان گھاس کا قطعہ تھا‘ دیواروں کے ساتھ درخت اور انگور کی بیلیں تھیں اور ان کے درمیان ہم بیٹھے تھے‘ چترالی مہمان کو میز پر کھانا نہیں کھلاتے‘
مہمان خانے میں زمین پر دستر خوان بچھاتے ہیں‘ اسے پھلوں اور کھانوں سے بھر دیتے ہیں اور پھر مہمان کو بٹھا کر کھلاتے ہیں اور اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں‘ کھانا روایتی اور ثقافتی تھا‘ ہماری طبیعت خوش ہو گئی‘ ہمیں پی آئی اے کے نوجوان انجینئر افسرالدین نے پروفیسر علی نگاہ کے گھر سے اچک لیا‘ نوجوان بہت متحرک اور شان دار انسان ہے‘ بونی میں اس کے سسرال رہتے ہیں جب کہ خود بونی سے ذرا سے فاصلے پر دوسرے گائوں میں رہتا ہے‘ افسر ہمیں اپنے سسرالی گھر لے گیا‘ اس کے سسر کو باغ بانی کا شوق ہے چناں چہ اس نے اپنے باغ میں ہر قسم کا پھل دار درخت اور پودا لگا رکھا ہے‘
آلوچے بھی پک چکے تھے‘ سیب بھی تیار تھے اور ناشپاتیاں بھی تاہم آڑو کے درخت پر شاخوں اور پتوں کے درمیان صرف ایک آڑو چھپا بیٹھا تھا اور ہم نے اسے کھوج کرنکال لیا‘ افسرالدین نے بھی پرتکلف کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا اور اس نے اور اس کے برادرنسبتی نے ہمیں جس محبت اور لگائو سے کھلانا شروع کیا وہ قابل ستائش تھا۔بونی کی فضا میں ایک بالکل مختلف قسم کی خوشبو اور کھلا پن تھا‘ ہم نے اس فضا میں تین گھنٹے گزارے‘ مجھے اس سارے عرصے میں یوں محسوس ہوتارہا
یہ شہر شاید میری روح کا کوئی بچھڑا ہواٹکڑا یا روح کے آرکسٹرا کا کوئی ٹوٹا ہوا ساز ہے اور میں اسے آرکسٹرا میں دوبارہ جوڑنے یا اس سے گلے ملنے کے لیے یہاں پہنچا ہوں‘ گلیاں گندی‘ سڑکیں ٹوٹی ہوئیں اور ماحول میں ریت کے ذرے تھے لیکن اس کے باوجود اس شہر میں ابتدائی محبت کا سرور اور بے اختیار آوارہ بوسے کا ذائقہ ہے اور یہ گہری نیند میں کھلنے والی آنکھ‘ رخصت ہوتی دلہن کے وسوسوں اور خشک بنجر زمین پر پہلی بارش جیسا ہے‘ اس شہر میں کچھ تھا‘ شاید میں اسی لیے اپنے دل کی چند دھڑکنیں آلوچے کے درخت کے ساتھ باندھ آیا‘ اس امید کے ساتھ کہ شاید قدرت اس جنم میں ایک بارپھر
اس شہر میں چند سانس لینے کی مہلت دے دے۔ہم بونی سے واپس آ گئے‘ راستے میں لوئر چترال کی سرحد پر ضیاء صاحب کا گھر تھا‘ یہ بھی پی آئی اے کے ملازم ہیں‘ رائل فیملی سے تعلق رکھتے ہیں‘ چہرے پر شاہی خاندان کی تمکنت اور انداز میں اعلیٰ نسب کی عاجزی تھی‘ ہم نے ان کے ساتھ لنچ کرنا تھا لیکن دن کو منت کر کے آگے نکل گئے مگر واپسی پر ان سے بچنا محال تھا‘ ان کے گھر میں بھی باغ‘ فیملی کوارٹر اور مہمان خانہ تھا‘ ہم ان کی منتیں کرتے رہے مگر انہوں نے کھانا لگا دیا‘
یہ ہمارا اس دن میں چوتھا کھانا تھا‘ میں دن میں صرف دو بار کھاتا ہوں لہٰذا یہ مہمان نوازیاں میرے لیے بھاری ثابت ہو رہی تھیں لیکن آپ یقین کریں میں نے زندگی میں ضیاء صاحب کے دسترخوان سے بہتر کھانا نہیں کھایا‘ تمام ڈشز لوکل تھیں بالخصوص مارخور کے گوشت کا ذائقہ ناقابل فراموش تھا‘ یہ گوشت انہیں کسی دوست نے گفٹ کیا تھا اور یہ اسے گھر میں رکھ کر کسی ’’حق دار‘‘ کا انتظار کر رہے تھے اور ہم اپنا حق وصول کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچ گئے‘ ہم اٹھتے ہوئے ان کے دستر خوان کی مہک اور مہمان نوازی کی گرمائش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساتھ لے آئے۔پیر کو ہماری فلائیٹ تھی‘
صبح مغفرت شاہ ہمارا ناشتہ لے کر ہوٹل پہنچ گئے‘ شاہ صاحب دو بار چترال کے ناظم رہے ہیں‘ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں‘ طویل قامت‘ خوش لباس اور مضبوط کاٹھی کے انسان ہیں‘ ان کے پاس ہزاروں کہانیاں اور سیکڑوں مسئلوں کے حل موجود ہیں‘ منظور احمد کے برادرنسبتی بھی ہیں‘ شاہ جی پیر کی صبح مقامی ناشتہ لے آئے‘ میں بار بار کھانوں کا ذکر کر کے خود کو سہیل وڑائچ محسوس کر رہا ہوں لیکن کیا کروں یہ حقیقت ہے چترال کے کھانے اور چترالیوں کی مہمان نوازی کو اگنور نہیں کیا جا سکتا‘ مغفرت شاہ نے انور امان صاحب کو بھی دعوت دے رکھی تھی‘ انور صاحب ایک دل چسپ کردار ہیں‘
اسماعیلی ہیں‘ بچپن اور لڑکپن چترال میں گزرا‘ جوانی میں امریکا گئے اور وہاں اربوں روپے کمائے‘ یہ اب چترال میں دو بڑے پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں‘ گرم چشمہ روڈ پر علاقے کا پہلا فائیو سٹار ہوٹل بنا رہے ہیں‘ آٹھ ارب روپے کا منصوبہ ہے‘ یہ اس کے بعد بونی میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی بنائیں گے اور پھنڈر میں دریا کے درمیان جزیرے پر ریزارٹ بنائیں گے‘ میں نے ان سے اس معاشی خودکشی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا‘ چترالی لوگ ہر وقت پاکستان سے سڑک‘ پل‘ بڑا ائیرپورٹ اور نوکریاں مانگتے رہتے ہیں‘ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا بھائی تم بتائو‘
تم نے آج تک پاکستان کو کیا دیا؟ ہم اگر ملک کو کچھ دیں گے تو ملک بھی ہمیں دے گا لہٰذا میں یہاں فائیو سٹار ہوٹل کی شکل میں چترال کی طرف سے پاکستان کو تحفہ دے رہا ہوں‘ لوگ اس میں آ کر ٹھہریں گے اور اس سے چترال کی گڈوِل بنے گی‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی بھی چترال کے لیے ایمبیسی ثابت ہو گی‘ پاکستان کے مختلف علاقوں سے نوجوان آئیں گے‘ ہمارے علاقے میں رہیں گے‘ کلچر سے واقف ہوں گے اور واپس جا کر دوسروں کو چترال کی بیوٹی کے بارے میں بتائیں گے لہٰذا میرا مقصد پورا ہو جائے گا‘ مغفرت شاہ نے بتایا چترال میں کریم آباد نام کا ایک گائوں ہے‘ انور امان نے
اس گائوں میں بہت کام کیا‘ وہاں تعلیم سو فیصد ہے اور لوگ ہنرمند اور برسر روزگار ہیں‘ انور امان یہ سن کر مسکرائے اور بتایا‘میرے یہ سارے کام اہم ہوں گے لیکن میں جس کام کا کریڈٹ لیتا ہوں وہ پشاور میں ’’سپارک آف ہوپ‘‘ نام کا ادارہ ہے‘ میں اور میری بیوی نے امریکا میں اپنے بیڈ پر لیٹے لیٹے بی بی سی کی ایک ڈاکومنٹری دیکھی تھیPakistan’s Hidden Shame ‘فلم میں انکشاف ہوا پشاور شہر میں سیکڑوں معصوم بچے دو دو ‘تین تین سو روپے کے لیے ٹرک ڈرائیوروں کی
ہوس کا نشانہ بناتے ہیں‘ فلم دیکھنے کے بعد ہم میاں بیوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ہم نے ان بچوں کی مدد کا فیصلہ کیا‘ ہم پشاور آئے‘ ادارہ بنایا اور سڑک سے اٹھا اٹھا کر بچے اپنے ادارے میں آباد کر دیے‘ ہمارے پاس اس وقت دو ہزار بچے ہیں‘ ہم انہیں تعلیم بھی دے رہے ہیں‘ ہنر بھی اور ان کی عزت نفس بھی بحال کر رہے ہیں‘ انور امان نے اس کے ساتھ ہی موبائل فون سے ادارے کی تصویریں دکھائیں‘ وہ واقعی بین الاقوامی معیار کا ادارہ تھا‘ وہ تصویریں آگے کھسکاتے کھسکاتے
ایک تصویر پررک گئے‘ یہ آٹھ نو برس کے خوب صورت بچے کی تصویر تھی‘ انور امان نے دکھی آواز میں بتایا‘ یہ بچہ تین سال کی عمر میں ڈرائیوروں کی ہوس کا نشانہ بننا شروع ہوا اور ایڈز کا شکار ہو گیا‘ ہم اس کا علاج بھی کرا رہے ہیں اور اسے انسانیت کا حق بھی لوٹا رہے ہیں‘ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے اٹھ کر انور امان کو سیلوٹ بھی کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسا بھی دیا‘ میرے سامنے دو ہزار مظلوم بچوں کامحسن کھڑا تھا‘ یہ شخص واقعی عظیم ہے۔