آپ اگر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار سے اتاترک برج کی طرف آئیں تو آپ کو پُل سے پہلے بائیں جانب ایک چھوٹی سی قدیم مسجد دکھائی دے گی‘ یہ مسجد چلبی کہلاتی ہے اور اس مناسبت سے اس پورے علاقے کا نام چلبی ہے‘ چلبی کون تھا؟ یہ تاریخ کا انتہائی دل چسپ کردار تھا‘ پورا نام اولیا چلبی تھا‘ خاندان کا شمار استنبول کے رئیس خاندانوں میں ہوتا تھا‘ والد درویش محمد ذلی جوہری تھا‘ شاہی خاندان کے لیے زیورات بناتا تھاجب کہ والدہ حرم میں شہزادیوں اور ملکاؤں کی اتالیق تھی۔
اولیا 1611ء میں منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا‘ اعلیٰ اداروں میں شہزادوں اور مشیروں کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی‘ موسیقی سے خصوصی رغبت تھی‘ آلات موسیقی بجا بھی لیتا تھا اور سر اور سنگیت کو آسانی سے سمجھ بھی لیتا تھا‘ والد کے اصرار پر قرآن مجید حفظ کر لیا‘ مستقبل بہت روشن تھا‘ یہ خلیفہ مراد چہارم کا دور تھا‘ ترکی میں امن اور سکون تھا‘ درس گاہیں آباد تھیں‘ بازاروں‘ چائے خانوں اور ریستورانوں میں رونق تھی‘ منڈیاں چل رہی تھیں‘ بازاروں میں ریل پیل تھی‘ لوگ سارا دن کام کرتے تھے اور شام کو نہا دھو کر تیار ہو کر چائے خانوں میں بیٹھ جاتے تھے‘ موسیقار دھنیں اڑاتے تھے او رسننے والے دل کھول کر دادا دیتے تھے‘ اولیا اس فضا میں پل کر جوان ہوا‘ وہ روز استنبول کی پتھریلی گلیوں سے گزر کر باسفورس پہنچ جاتا تھا‘ پانی پر تیرتے جہازوں کو دیکھتا تھا اور سوچتا تھا ”کیا میں بھی ان جہازوں پر بیٹھ کر کبھی وہاں جا سکوں گا جہاں سورج طلوع ہوتے ہیں اور چاند ڈوبتے ہیں“ اسے سیاحت کا بے انتہا شوق تھا‘ وہ نئی دنیا تلاش کرنا چاہتا تھا‘ باسفورس دو سمندروں کے درمیان خلیج ہے‘ یہ بلیک سی کو مرمرا سی سے جوڑتی ہے‘ مرمرا تھوڑاسا دور جا کر ایجین سی میں شامل ہو جاتا ہے اور ایجین آگے چل کر میڈی ٹیرین سی بن جاتا ہے‘ باسفورس دنیا کے دو حصوں کا واحد رابطہ بھی ہے۔
یہ اگر نہ ہوتی تو بلیک سی کے گرد آباد چھ ملکوں کو بحری راستوں سے سپلائی ناممکن ہو جاتی چناں چہ باسفورس سے صدیوں سے بحری جہاز اور کشتیاں گزرتی ہیں اور استنبول کے لوگ ان مسافروں کو اشیائے خورونوش بیچتے ہیں‘ استنبول کے لڑکے بالے بھی شام کو باسفورس کے کنارے پہنچ جاتے تھے‘ یہ آج بھی آ جاتے ہیں چناں چہ آپ جب بھی شام کو اتاترک برج پر جائیں آپ کو وہاں سیکڑوں نوجوان دکھائی دیں گے‘ یہ قطار اندر قطار کھڑے ہو کر مچھلیاں بھی پکڑتے ہیں۔
اولیا کے دور میں اتاترک برج نہیں تھا لہٰذا یہ باسفورس کے کنارے آ کر بیٹھ جاتا تھا‘ مغرب کے وقت باسفورس کے کنارے موجود اس چھوٹی سی مسجد میں جاتا تھا‘ نماز پڑھتا تھا اور پھر اندھیری گلیوں سے ہوتا ہوا گھر واپس چلا جاتا تھا‘ یہ معمول تھا لیکن پھر ایک شام عجیب واقعہ پیش آیا‘ یہ نماز کے لیے مسجد گیا‘ نماز کے بعد درودوسلام کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ خلاف معمول اس محفل میں بیٹھ گیا‘ یہ درویشوں کی محفل تھی‘ درویش درود پڑھتے پڑھتے وجد میں آ گئے اور بآواز بلند یا اللہ‘ یا رسولؐ کا ورد کرنے لگے۔
یہ بھی ان کے ساتھ یا اللہ یا رسولؐ کا ورد کرنے لگا‘ محفل نے وجد کی انتہا پر پہنچ کر یامصطفیؐ یا مصطفیؐ کے نعرے لگانا شروع کر دیے‘ یہ بھی لگاتا رہا لیکن پھر اس کے منہ سے اچانک یا اللہ اور یا مصطفیؐ کے بجائے یا سیاح نکل گیا‘ وہ قبولیت کی گھڑی تھی‘ اللہ نے اولیا کی دعا سن لی اور اس کے لیے سیاحت کے دروازے کھل گئے۔اولیا چلبی 1640ء میں 29سال کی عمر میں استنبول سے نکلا اور پوری سلطنت عثمانیہ کی سیاحت شروع کر دی۔
یہ سب سے پہلے کروشیا گیا‘ وہاں کے لوگوں‘ شہروں اور مذاہب کی روایات لکھیں اور پھر بوسنیا کی طرف نکل گیا‘ یہ چالیس سال حالت سفر میں رہا‘ اس نے اس دوران کوسوو‘ البانیہ‘ آذربائیجان اور کریمیا کا سفر بھی کیا اور یہ شام اور فلسطین بھی گیا اور پورے یورپ کا دورہ بھی کیا‘ یہ 40سال بعد 1680ء میں واپس آیا تو اس کے پاس معلومات اور علم کا خزانہ تھا‘ اولیا چلبی نے باقی زندگی اپنے سفر کی روداد لکھنے کے لیے وقف کر دی‘ یہ مسلسل دو سال لکھتا رہا‘ 1682ء میں اس نے سیاحت نامہ کے نام سے دس کتابوں کا مجموعہ تحریر کیا۔
آٹھ کتابیں سیاحت پر تھیں جب کہ دو کتابوں میں مختلف علاقوں کے آلات موسیقی اور سرسنگیت کا ذکر تھا‘ انتقال سے قبل اس کی شہرت پورے ملک میں پھیل چکی تھی‘ اس وقت سلطان محمد چہارم برسر اقتدار تھا‘ وہ اسے روز بلاتا تھا اور اس سے مختلف علاقوں کی بودوباش کے قصے سنتا تھا‘ عمائدین سلطنت اور شاہی خاندان کے لوگ بھی اولیا چلبی کی محفل میں بیٹھتے تھے اور اس کے علم سے سرفراز ہوتے تھے‘ یہ 1682ء میں علیل ہوا‘ شاہی طبیبوں نے اس کا علاج کیا مگر یہ جانبر نہ ہو سکا۔
اس کا انتقال ہو گیا مگر اس کی کتابیں آج بھی زندہ ہیں‘ یہ 338 سال سے پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہیں‘ ان کے انگریزی‘ فرانسیسی‘ جرمن اور عربی زبانوں میں ترجمے بھی ہو چکے ہیں‘ آپ سفر کی برکت ملاحظہ کیجیے‘ اولیا نے جس مسجد سے اپنا سفر شروع کیا تھا وہ مسجد آج چار سو سال بعد بھی جامع چلبی کہلاتی ہے اور وہ جس علاقے میں رہتا اور جس سے گزرتا تھا وہ بھی آج تک اس سے منسوب ہے‘ یہ بھی چلبی کہلاتا ہے جب کہ زمانہ اس دور کے بادشاہوں‘ امراء اور رئیسوں کے نام تک چاٹ چکا ہے۔
ان کے محلات اور محلے تک پیوند خاک ہو چکے ہیں‘ اورخان پاموک ترکی کے نوبل انعام یافتہ لکھاری ہیں‘ ان کے ناول سفید قلعہ میں اولیا چلبی کا تفصیل سے ذکر ہے‘ ہم اتوار کی سہ پہر چلبی مسجد کے قریب سے گزرے‘ اس کی سرخ چھت اور سرخ اینٹوں کا مینار آج تک ترکی کے ابن بطوطہ کی راہ دیکھ رہا ہے‘ آج بھی جب اس سے اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں تو مؤذن اذان کے آخر میں یا سیاح ضرور کہتا ہے‘ یہ دو لفظ اولیا چلبی کو خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔
اور یہ یاد دہانی بھی کراتے ہیں اس پوری کائنات میں صرف ایک طاقت ہے جو آپ کی مرادیں‘ آپ کی تمنائیں پوری کر سکتی ہے اور وہ ہے وحدہ لاشریک میرا رب‘ میرا اللہ اور وہ اگر سننے پر آجائے تو وہ ایک چھوٹے سے غیرمعروف امیر زادے کا ذکر صدیوں تک پھیلا دیتا ہے‘ وہ اپنا گھر‘ اپنی مسجد بھی اس سے منسوب کر دیتا ہے‘ بے شک ہمارے رب کے سوا کوئی طاقت کسی کو کچھ دے سکتی ہے اور نہ کسی سے چھین سکتی ہے اگر اعتبار نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیں۔
ہم اگر مسلمان ہیں تو صدقہ ہماری چھٹی نماز ہے‘ یہ ہمارے ایمان اور کلچر دونوں کا حصہ ہے‘ ترک دنیا کے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے صدقے کو باقاعدہ ادارے کی شکل دی‘ خلفاء کے زمانے میں ہر گلی کے آخر‘ ہر بازار اور ہر چوک میں سیاہ سنگ مرمر کی چھوٹی سی چٹان ہوتی تھی‘ یہ اندر سے کھوکھلی ہوتی تھی‘ اس کی ایک سائیڈ پر چھوٹا سا سوراخ ہوتا تھا اور دوسری طرف نسبتاً بڑی کھڑکی بنی ہوتی تھی‘ اہل خیر گھر سے نکلتے اور جاتے وقت اس چٹان کے سوراخ میں سکے پھینکتے جاتے تھے۔
شہر کے غرباء رات کے اندھیرے میں آتے تھے‘ کھڑکی کھولتے تھے اور اپنی ضرورت کے مطابق رقم نکال کر لے جاتے تھے‘ یہ پتھر صدقہ کہلاتا تھا‘ ترکی کے قدیم شہروں میں روایت تھی آپ اگر خوش حال ہیں تو آپ صدقے میں سکہ گرائے بغیر اس کے قریب سے نہیں گزریں گے اور آپ اگر ضرورت مند ہیں تو صدقے کی کھڑکی سے صرف اتنے پیسے نکالیں گے جن سے آپ کی ضرورت پوری ہوسکے‘ آپ اگر اس معاملے میں بے ایمانی کریں گے تو آپ قدرت کے انتقام کا نشانہ بن جائیں گے چناں چہ روایت تھی غرباء‘ مساکین رقم لے جاتے تھے اور اگر صدقے کی رقم سے کوئی پیسہ بچ جاتا تھا تو یہ اسے واپس صدقے میں ڈال جاتے تھے۔
یہ روایت اور یہ پتھر وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے لیکن حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر آج بھی صدقے کی چٹان موجود ہے اور لوگ اس کے سوراخ میں پیسے بھی ڈالتے ہیں‘ ہمارا پورا گروپ اس کے سامنے رک گیا‘ ہم نے چٹان کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور آگے روانہ ہو گئے‘ مجھے پیچھے سے اچانک ٹک ٹک سکوں کی آواز آئی‘ میں نے پچھے مڑ کر دیکھا تو میرا بیٹا شماعیل چٹان میں اپنی جیبیں خالی کر رہا تھا‘ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور آگے چل پڑا۔
میرے دل سے اس کے لیے دعا نکلی‘ اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ سخی اور دینے والا رکھے‘ یہ واقعی کمال بچہ ہے‘ ڈاؤن ٹو ارتھ اور خدمت گزار‘ یہ روز رات کو جم کے بعد مجھے چائے بنا کر دیتا ہے اور ٹب میں گرم پانی ڈال کر میرے سامنے رکھ دیتا ہے اور میں سونے تک ٹب میں پاؤں ڈبو کر بیٹھا رہتا ہوں اور ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں اللہ میرے تمام جاننے والوں کوعاجز‘ خدمت گزار‘ مہذب اور محنتی اولاد عطا فرمائے‘ یہ بھی میری طرح دائمی سیاح ہے اور یہ بھی ملک میں سیاحتی کلچر ڈویلپ کرنا چاہتا ہے۔
یہ لوگوں کو وہ سارے معاشرے دکھانا چاہتا ہے جہاں لوگ امن‘ سکون اور رواداری سے رہ رہے ہیں اور کوئی کسی کی زندگی میں بے جا مداخلت نہیں کرتا‘ میں اس کام میں اس کا معاون ہوں‘ اس کا ورکر‘ میں نے دل سے اس کے لیے دعا کی اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے احاطے میں ساڑھے چھ سو سال سے ایستادہ چنار کے درخت کے نیچے آ کھڑا ہوا‘ یہ درخت میزبان رسولؐ کے ہر مہمان کا گواہ ہے اور میں اس کی کتاب میں درجنوں مرتبہ اپنا نام لکھوا چکا ہوں‘ شاید اللہ کو میری یہ عقیدت ہی پسند آ جائے‘شاید یہ مجھے میزبان رسولؐ کے مہمانوں کی فہرست میں دیکھ کر ہی اپنی رحمت کے دروازے کھول دے‘ یہ مجھے اپنا قرب عنایت کر دے۔