پاکستان آرمی 1971ءتک دو حصوں میں تقسیم تھی‘ ایسٹرن کمانڈ اور ویسٹرن کمانڈ ‘ ایسٹرن کمانڈ مشرقی پاکستان میں تعینات تھی جب کہ ویسٹرن کمانڈ موجودہ پاکستان (مغربی پاکستان) میں سرو کرتی تھی‘ دونوں کمانڈ کا سربراہ کمانڈر ان چیف کہلاتا تھا‘ جنرل یحییٰ خان 1971ءمیں کمانڈر انچیف بھی تھے اور یونیفارم میں صدر پاکستان بھی‘ ہم نے16 دسمبر 1971ءکو مشرقی پاکستان کھو دیا‘ فوج کے اندر ابال آیا‘ جونیئر افسروں نے جرنیلوں کا گھیراﺅ کر لیا‘ جنرل یحییٰ خان اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بنا دیاگیا‘ بھٹو صاحب نے چیف آف جنرل سٹاف (سی جی ایس) جنرل گل حسن خان کو کمانڈر انچیف بنا دیا‘ ائیر مارشل عبدالرحیم خان اس وقت فضائیہ کے کمانڈر ان چیف تھے‘ جنرل گل حسن یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہتے تھے‘ اس کی تین وجوہات تھیں‘ یہ ملک کے آخری کمانڈر ان چیف نہیں بننا چاہتے تھے‘ دوسرا یہ بھٹو صاحب جیسے شخص کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں تھے اور تین 1971ءکے سانحے کی وجہ سے ملک میں فوج کا امیج خراب تھا‘ یہ ان حالات میں سائیڈ لائین رہنا چاہتے تھے لیکن بھٹو صاحب نے انہیں قائل کر لیا اور یہ دل برداشتہ‘ زخم خوردہ اور مایوس فوج کی کمان کے لیے تیار ہو گئے‘ ملک میں اس وقت کوئی آئین بھی نہیں تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کے تمام سیاسی قائدین کو اکٹھا کیا اور آئین بنانا شروع کر دیا‘ آئین سازی کے درمیان فوج کے کردار‘ کمانڈر ان چیف کی تعیناتی‘ مدت ملازمت‘ توسیع اور مراعات کا ایشو آ گیا‘ بھٹو صاحب فوج کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے تھے چناں چہ ان کے حکم پریہ فیصلہ ادھورا چھوڑ دیا گیا‘ بھٹو صاحب سویلین رٹ اور منتخب وزیراعظم کو بااختیار ثابت کرنے کے خبط میں بھی مبتلا تھے چناں چہ انہوں نے خود کو طاقتور ثابت کرنے کے لیے تین کام کیے‘ انہوں نے دو مارچ 1972ء(سانحہ مشرقی پاکستان کے صرف اڑھائی ماہ بعد)کو جنرل گل حسن اور ائیر مارشل عبدالرحیم کو گاڑی میں بٹھایا‘ لاہور پہنچایا اور دونوں کو گورنر ہاﺅس لاہور میں بند کر دیا۔
گورنر غلام مصطفی کھر نے بھٹو صاحب کے حکم پر دونوں سے زبردستی استعفیٰ لے لیا‘ جنرل گل حسن کو بعد ازاںیونان اور ائیر مارشل عبدالرحیم کو سپین میں سفیر بنا کر بھجوا دیا گیا‘ بھٹو صاحب نے اس کے بعد آرمی اور ائیر فورس کے سربراہوں کے عہدے تبدیل کر دیے‘ کمانڈر انچیف کا عہدہ چیف آف آرمی سٹاف اور ائیر کمانڈ ان چیف کو ائیر چیف میں بدل دیا گیا اورسوم بھٹو صاحب نے جنرل ٹکا خان کو چیف آف آرمی سٹاف اور ائیر مارشل ظفر چودھری کو ائیر چیف لگا دیا‘(ظفر چودھری کا انتقال کل 18 دسمبر 2019ءکو ہوا) ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے یہ تعیناتیاں تین سال کے لیے کی تھیں‘ یہ تین فیصلے بعد ازاں افواج پاکستان کی روایت بن گئے‘ فوج کے سربراہوں کا فیصلہ وزیراعظم کے ہاتھ میں چلا گیا‘ یہ کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کو آرمی چیف‘ کسی بھی ائیر مارشل کو ائیر چیف اور کسی بھی ایڈ مرل کو نیول چیف بنا سکتا ہے اور یہ تعیناتیاں تین سال کے لیے ہوتی ہیں‘ 1971ءسے لے کر2010ءتک جنرل اشفاق پرویز کیانی واحد آرمی چیف ہیں جن کی مدت ملازمت میں کسی وزیراعظم نے توسیع کی‘ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف اپنی ایکسٹینشن خود کرتے رہے۔
یہ بطور صدر خط لکھ کر خود کو بطور آرمی چیف ایکسٹینشن دے دیتے تھے‘ جنرل راحیل شریف کے دور میں مختلف اوقات میں حکومت کو تین تجاویز دی گئیں‘ یہ جنرل راحیل شریف کو توسیع دے دیں‘ یہ لیفٹیننٹ جنرل اور جنرلز کی ریٹائرمنٹ ایج بڑھا دیں یا پھر یہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنا دیں لیکن میاں نواز شریف نے انکار کر دیا تھا یوں آرمی چیف کا عہدہ روایات کی بنیاد پر چلتا رہا یہاں تک کہ عمران خان کی حکومت آ گئی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کا ایشو سامنے آگیا۔
عمران خان کی حکومت انتظامی حماقتوں کا شان دارگل دستہ ہے‘ یہ بہت ہی بابرکت لوگ ہیں‘ یہ جس ایشو کو ہاتھ لگا دیتے ہیں وہ بحران بن جاتا ہے‘ آپ الیکشن کمیشن کو لے لیجیے‘ الیکشن کمیشن کے دو ارکان عبدالغفار سومرو اور شکیل احمد بلوچ 26 جنوری2019ءکو ریٹائر ہوئے ‘ حکومت نے ہاتھ ڈالا اور ماشاءاللہ یہ ارکان 10ماہ اور23دن گزرنے کے باوجود تعینات نہیں ہو سکے‘ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ بھی خالی ہو چکا ہے اور حکومت بڑی کام یابی کے ساتھ اسے بھی بگاڑتی چلی جا رہی ہے چناں چہ ملکی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن مکمل غیر فعال ہو چکا ہے۔
چیئرمین نیب بھی اکتوبر 2021ءمیں ریٹائر ہو جائیں گے‘ آپ آج سے لکھ لیجیے اگر اس وقت تک عمران خان کی حکومت رہی تو نیب بھی قائم مقام چیئرمین کے ذریعے ہی چلے گا‘ آپ پنجاب اور کے پی کے کو بھی لے لیجیے‘ یہ دونوں صوبے بھی الیکشن کمیشن کی طرح چل رہے ہیں‘ اصل طاقت اور اختیار کس کے پاس ہے کوئی نہیں جانتا‘ پی آئی سی پر وکلاءکے حملے کے دوران پولیس اور صوبائی انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حکم کا انتظار کرتی رہی اور پورے ملک میں انہیں حکم دینے والا کوئی نہیں تھا اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے دوران بھی یہی ہوا۔
وزیراعظم نے 19اگست 2019ءکو پہلا حکم جاری کیا اور آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور پہلے حکم کے درمیان سوا تین ماہ تھے‘ حکومت کو اس دوران کسی نے نہیں بتایا وزیراعظم یہ حکم براہ راست جاری نہیں کر سکتے اور پھر اس کے بعد پوری دنیا نے دیکھا‘ حکومت نے تین سمریاں اور دو نوٹیفکیشن جاری کیے اور وزیر قانون کو اپنا عہدہ چھوڑ کر بطور وکیل عدالت میں پیش ہونا پڑ گیا‘ حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کا شکریہ ادا کرے‘چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چھ ماہ کی رعایت دے کر بحران ٹال دیا۔
ورنہ دوسری صورت میں ملک کا حساس ترین عہدہ خالی ہو جاتا اور فوج ملکی تاریخ میں پہلی بار چیف کے بغیر رہ جاتی‘ آپ کوتاہ فہمی اور قومی غفلت ملاحظہ کیجیے‘ آئین کو بنے 46برس ہو چکے ہیں لیکن کسی حکومت نے آج تک آرمی چیف کی تعیناتی‘ مدت ملازمت‘ توسیع اور مراعات کا فیصلہ نہیں کیا‘ یہ عہدہ صرف روایات کی بنیاد پر چلتا رہا‘ بہرحال دیر آید درست آید‘ سپریم کورٹ نے 16 دسمبر کو ایکسٹینشن کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے‘ حکومت کے پاس اب دو آپشن ہیں‘ یہ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت (ایکٹ آف پارلیمنٹ) کے ذریعے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں تین سال اضافہ کر دے اور حتمی قانون سازی وقت پر چھوڑ دے‘ یہ بھی ممکن ہے لیکن اس کے دو نقصان ہوں گے‘ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے خلاف ہو گا یوں تلوار لٹک جائے گی اوردفاع کے تمام فیصلے تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔
عدالتی کارروائی‘ حکومت کی حماقتیں اور میڈیا کی آزادی اس ایشو کو مزید تماشے میں تبدیل کر دے گی‘ اس سے فوج اور عوام کو بھی تکلیف ہو گی اور ملک کے سب سے بڑے اور حساس ادارے کی عزت بھی داﺅ پر لگ جائے گی‘ اس تماشے کا اختتام حکومت‘ فوج اور عدالت تینوں کے لیے برا ثابت ہو گا‘ دوسرا آپشن حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لے‘ یہ ایشو کو پارلیمنٹ میں لے کر جائے اور چیف جسٹس‘ چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب کی طرح آرمی چیف کے عہدے کی مدت اور مراعات کو بھی آئینی تحفظ دے دے۔
آرمی چیف کی مدت تین‘ چار یا پھر پانچ سال کے لیے طے کر دی جائے اور جس طرح جنگ ہو یا امن چیف جسٹس آف پاکستان اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح آرمی چیف بھی آخری سلامی لے کر ریٹائر ہو جائیں‘ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی طرح اگلے آرمی چیف کی تعیناتی کو بھی وزیراعظم کے دائرہ اختیار سے نکال دے‘آرمی چیف ایک خود مختار طریقے سے منتخب ہوتے چلے جائیں‘ ہمارے سامنے بھارت کی مثال موجود ہے‘بھارت میں آرمی چیف کے ساتھ وائس آرمی چیف بھی تعینات کر دیا جاتا ہے۔
یہ تین سال آرمی چیف کے ساتھ رہ کر فوج کے ایشوز سمجھ جاتا ہے اور آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی عہدہ سنبھال لیتا ہے‘ بھارت کے موجودہ آرمی چیف جنرل بپن راوت 31 دسمبر تک چیف ہیں جب کہ جنرل منوج موکنڈ وائس آرمی چیف ہیں‘ 31 دسمبر کو جنرل بپن راوت ریٹائر ہو جائیں گے اور جنرل منوج ان کی جگہ عہدہ سنبھال لیں گے اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیے آج مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو137دن ہو چکے ہیں اور لوک سبھا کے شہریت کے متنازع ترمیمی بل کے بعد بھارت کی چھ ریاستوں میں فسادات چل رہے ہیںلیکن اس کے باوجود بھارت میں کمان تبدیل ہو رہی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ بھارت نے یہ مسئلہ 1955ءمیں حل کر لیا تھا۔
بھارت کا قانون واضح ہے چناں چہ وہاں 1965ءاور 1971ءکی جنگوں کے دوران بھی کمانڈ وقت پر تبدیل ہوتی رہی‘ اندرا گاندھی نے 1971ءکی جنگ جیتنے کے باوجود جنرل مانک شا کو توسیع نہیں دی تھی‘مانک شا نے ایک بار ایک ایشو پر حکومت کو مشورہ دینے کی کوشش کی تو وزیراعظم نے انہیں فٹ بال کی کوچنگ پر لگا دیاتھا‘ ہمیں بھی اب یہ فیصلہ کر لینا چاہیے مگر مجھے بدقسمتی سے حکومت سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی‘ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جان بوجھ کر اپوزیشن کو چھیڑ رہی ہے تاکہ یہ قانون سازی میں حکومت کا ساتھ نہ دے۔
حکومت کی یہ حرکت اس کی کریڈیبلٹی اور فوج کے امیج دونوں کو زک پہنچائے گی لہٰذا اس سارے معاملے میں جنرل قمر جاوید باجوہ مظلوم دکھائی دے رہے ہیں‘ یہ ایک بہادر سپاہی اور شان دار کمانڈر ہیں لیکن حکومت اپنی حماقتوں کے ذریعے انہیں متنازع بناتی چلی جا رہی ہے چناں چہ میرے خیال میں یہ ایشو اب جنرل قمر جاوید باجوہ ہی سلجھا سکتے ہیں‘ انہیں اپنے کیریئر کا سب سے بڑا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ آنے والے دن پورے ملک کے لیے مشکل ہو جائیں گے۔