عرسوف اسرائیل کا ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے‘ یہ گاﺅں میڈی ٹیرین سی کے ساتھ چٹان پر قائم ہے‘ آبادی 166 افراد پر مشتمل ہے مگر یہ اپنی لوکیشن اور تاریخ کی وجہ سے اسرائیل کے مہنگے ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے‘ گاﺅں میں صرف امراءرہتے ہیں‘ تمام گھروں کی کھڑکیاں اور صحن سمندر کی طرف کھلتے ہیں اور پائیں باغ یوروشلم اور مقبوضہ بیت المقدس کی ہواﺅں سے معطر رہتے ہیں‘ عرسوف تیسری صلیبی جنگ کی وجہ سے تاریخ کا ان مٹ جزو ہے اور یہ جزو پچھلے ہزار سال سے دنیا کی فوجی اکیڈمیوں میں پڑھا اور پڑھایا جارہا ہے۔
تیسری صلیبی جنگ انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ اول اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے درمیان لڑی گئی تھی‘ سلطان یوروشلم پر قابض ہو چکا تھا‘ رچرڈ پورے یورپ کا خوف ناک لشکر تیار کر کے فلسطین فتح کرنے کے لیے ارض مقدس پہنچ گیا‘ یہ 1157ءمیں پیدا ہوا تھا‘ 1189ءمیں برطانیہ اور فرانس کا بادشاہ بنا تھا اور یہ اپنی بہادری‘ شجاعت اور عسکری ذہانت کی وجہ سے شیردل کہلاتا تھا‘ یہ گریٹ ملٹری لیڈروں کی فہرست میں بھی شامل تھا‘ 16 سال کی عمر میں کمانڈ شروع کی اور اپنی بہادری سے دشمنوں کا دل موہ لیا‘ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا چناں چہ وہ 1191ءمیں سلطان کو شکست دینے اور یوروشلم پر قبضے کے لیے عرسوف پہنچ گیا‘ سلطان بھی لشکر لے کر ساحل تک آ گیا‘ جنگ شروع ہوئی اور مہینوں جاری رہی‘ عیسائی لشکر نے صلیبیں اٹھا رکھی تھیں جب کہ مسلمان ہلال اور کلمے کا پرچم اٹھا کر لڑ رہے تھے‘ یہ عالم اسلام اور مسیحی دنیا کی سب سے بڑی جنگ تھی‘ مورخین کا خیال ہے چوتھی صلیبی جنگ بھی ہو گی اور یہ دنیا کی آخری جنگ ہو گی‘ آپ کو یاد ہو گا نائین الیون کے دن صدر جارج بش نے چوتھی صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا تھا لیکن بعد ازاں امریکا اور یورپ کے دباﺅ پر اپنا بیان واپس لینے پر مجبور ہو گئے‘ ہم تیسری صلیبی جنگ کی طرف واپس آتے ہیں‘ جنگ کے دوران دو ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے یہ جنگ اور سلطان صلاح الدین ایوبی ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
آج بھی تاریخ کے طالب علموں کو عرسوف کا نام یاد نہیں ہو گا‘رچرڈ شیردل نے کون سی صلیبی جنگ لڑی تھی لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں مگر جنگ کے دونوں واقعات ہزار سال سے لوگوں کی یادداشت کا حصہ ہیں‘ پہلا واقعہ رچرڈ شیردل کی بیماری تھی‘ مسیحی فوج کا کمانڈر جنگ کے دوران بیمار ہو گیا‘ یہ خبر صلاح الدین ایوبی تک پہنچی توسلطان نے رچرڈ کے صحت یاب ہونے تک جنگ بھی روک دی اور اسے پھلوں اور ادویات کا تحفہ بھی بھجوایا‘ مسیحی فوج یہ سلوک دیکھ کر حیران رہ گئی۔
دوسرا واقعہ پہلے واقعے سے زیادہ دل چسپ اور سبق آموز تھا‘ جنگ کے دوران رچرڈ شیردل کا گھوڑا مر گیا‘ وہ گھوڑے سے نیچے گر گیا‘ سلطان صلاح الدین ایوبی یہ منظر دیکھ رہا تھا‘ سلطان نے اسے نہ صرف اپنا گھوڑا بھجوا دیا بلکہ اسے اپنے جوانوں کی حفاظت میں اس کے سپاہیوں کے درمیان بھی پہنچا دیا‘ آپ اندازہ کیجیے سلطان یہ سلوک کس کے ساتھ کر رہا ہے؟ اپنے اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ‘ اس شخص کے ساتھ جو اسے قتل کرنے اور بیت المقدس پر قبضے کے لیے آیا تھا۔
یہ سلوک بعد ازاں دونوں فوجوں کو معاہدے کی طرف لے گیا‘ سلطان صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیردل کے درمیان 1192ءمیں ”معاہدہ رملا“ ہوا‘ مسیحی فوج نے بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ تسلیم کر لیا اور سلطان نے عیسائیوں کو یوروشلم میں آنے اور عبادت کرنے کی اجازت دے دی یوں تیسری صلیبی جنگ ختم ہو گئی لیکن دشمن کے ساتھ اعلیٰ ظرفی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔ہم انسان کتنے بڑے‘ کتنے اعلیٰ ظرف ہیں یہ فیصلہ ہمارے دوست‘ ہمارے رشتے دار نہیں کرتے ہمارے دشمن‘ ہمارے مخالف کرتے ہیں۔
دنیا کا برے سے برا انسان بھی اپنے عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ اچھا ہوتا ہے‘ سانپ اور مگرمچھ بھی اپنے بچوں اور اپنے قبیلے کے لیے اچھا ہوتا ہے چناں چہ ہم کتنے اچھے یا کتنے اعلیٰ ظرف ہیں اس کا فیصلہ ہمارے دوست نہیں ہمارے دشمن اور دشمنوں کے ساتھ ہمارا سلوک کرتا ہے‘ نبی اکرم نے پوری زندگی اپنے صحابہؓ کے ساتھ شفقت اور مہربانی فرمائی‘ یہ مہربانی اور یہ شفقت اتنا بڑا واقعہ نہ بن سکی جتنا بڑا واقعہ اس بڑھیا کی تیمار داری بنا جو روز آپ پر کوڑا پھینکتی تھی۔
ہمارے رسول نے کئی خواتین کے لیے اپنی چادر بچھائی مگر آپ نے جب حاتم طائی کی کافر بیٹی کو اپنی چادر پر بٹھایایا اپنے محسن ‘اپنے دوست حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کے گھر کو دارالامان قرار دیا تو تاریخ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے‘ ہماری پوری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے‘ اسلامی دنیا کے بے شمار حکمرانوں نے اس وقت اپنی تلواریں واپس کھینچ لیں جب انہوں نے اپنے دشمن کو بیمار یا بے بس پایا‘ پورس اور سکندراعظم دونوں غیر مسلم تھے۔
سکندر دیوتاﺅں کو پوجتا تھا جب کہ پورس بتوں کو خدا مانتا تھا مگر آپ اعلیٰ ظرفی دیکھیے جب پورس کو زنجیروں میں باندھ کر سکندراعظم کے سامنے کھڑا کیا گیا اور سکندر نے پورس سے پوچھا ”بتامیں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں“ تو پورس نے ہنس کر جواب دیا ”وہ سلوک جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں“ اور سکندر نے اس کی زنجیریں کھلوا کر اسے اپنے ساتھ بھی بٹھایا اور اسے اس کی سلطنت بھی واپس کر دی اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیے پورس وہ شخص تھا جس نے سکندراعظم کی آدھی فوج مار دی تھی۔
جو سکندر کا وہ آخری حریف تھا جس نے اس کا پوری دنیا فتح کرنے کا خواب توڑ دیا تھا اور سکندر جہلم سے یونان کی طرف واپس لوٹنے پر مجبور ہو گیا‘ اعلیٰ ظرف لوگ دشمنوں کے ساتھ اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ورنہ دوستوں کے ساتھ تو شیطان بھی قطب ہوتا ہے۔میاں نواز شریف کی بیماری نے عمران خان کو سلطان صلاح الدین بننے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا تھا‘ یہ اگر سمجھ دار ہوتا‘ یہ اگر لچک اور ایمان کا مظاہرہ کرتا تو یہ میاں نواز شریف کی تیمار داری کے لیے بھی چلا جاتا اور انہیں علاج کے لیے غیر مشروط طور پر باہر جانے کی اجازت بھی دے دیتا۔
عمران خان کی صرف یہ ایک لچک اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ کر دیتی اور اپوزیشن اور حکومت کے درمیان موجود آگ کی لکیر بھی ٹھنڈی کر دیتی مگر افسوس عمران خان نے نہ صرف یہ موقع ضائع کر دیا بلکہ اپوزیشن کو اپنا مزید دشمن بھی بنا لیا‘ نواز شریف کی بیماری پر وزیراعظم کے ردعمل نے پارٹی کے اندر بھی دراڑ ڈال دی اور اتحادیوں کا دل بھی توڑ دیا‘ہم میں سے کون نہیں جانتا سیاست میں اگر نواز شریف کا کوئی دشمن ہے تو وہ چودھری صاحبان ہیں۔
چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی نے 2002ءمیں میاں نواز شریف کی پوری پارٹی ہائی جیک کر لی تھی‘شریفوں اور چودھریوں میں اتنے اختلافات ہیں کہ یہ اگر خانہ کعبہ میں بیٹھ کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ کوئی وعدہ کریں تو یہ اس پر بھی یقین نہیں کریں گے لیکن آپ سیاسی وضع داری اور اعلیٰ ظرفی ملاحظہ کیجیے‘ 20 فروری 2009ءکو چودھری شجاعت کی والدہ کا انتقال ہوا تو میاں نواز شریف ذوالفقار کھوسہ‘ پیر صابر شاہ اور اقبال ظفر جھگڑا کو ساتھ لے کر تعزیت کے لیے ان کے گھر چلے گئے جب کہ چودھری برادران پچھلے پندرہ دنوں سے عمران خان کو کہہ رہے ہیں آپ علاج کے لیے میاں نواز شریف کو باہر جانے دیں۔یہ ہوتی ہے وضع داری۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی دشمنی بھی 35 سال پرانی ہے لیکن بے نظیر بھٹو کی شہادت پر میاں نواز شریف ہسپتال پہنچ گئے تھے اور بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو جاتی عمرہ گئے تھے‘ انسان میں اتنی وضع داری اور اعلیٰ ظرفی ضرور ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے حکومت اس سے مکمل محروم ہے‘ کابینہ میں فیصل واوڈا‘ علی زیدی‘ شیریں مزاری اور فواد چودھری کے علاوہ تمام وزراءنے غیر مشروط اجازت کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
مراد سعید تک نے پارٹی کی رائے کے خلاف ووٹ دیا تھا لیکن افسوس وزیراعظم نے رواداری اور شاباش کا موقع ضائع کر دیا‘ یہ وہ پنجابی ثابت ہوئے جس نے سیڑھی مانگنے پر جواب دیا تھا میرے پاس نہیں ہے لیکن اگر ہوتی تو بھی نہ دیتا‘ سیاسی مخالفتیں اپنی جگہ‘ مقدمے اور جیلیں بھی اپنی جگہ مگر ہمارے دل بڑے ہونے چاہئیں‘ ہم مخالف کو سلطان ایوبی کی طرح گھوڑا بے شک نہ دیں لیکن ہمیں کم از کم اس کی مجبوری پر اسے بلیک میل نہیں کرنا چاہیے۔
میاں نواز شریف کا کیس وضع داری اور اعلیٰ ظرفی کے ساتھ ساتھ حکومت کی ایک سیاسی غلطی بھی ثابت ہوا‘ پورے ملک کو پتا تھا عدالت میاں نواز شریف کو اجازت دے دے گی‘جج کبھی میاں نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری نہیں اٹھائیں گے لہٰذا اگر یہ کام حکومت کر دیتی تو اس کا کیا جاتا؟ کیا حکومت کی نیک نامی نہ بڑھتی‘ کیا اپوزیشن اور حکومت کے درمیان فاصلہ کم نہ ہو جاتا مگر شاید حکومت اس سے بھی بے نیاز ہے‘ یہ لوگ شاید کسی اور ہی سیارے کے باسی ہیں اور قدرت نے انہیں سزا بنا کر زمین پر اتار دیا ہے‘ یہ کیا لوگ ہیں؟ جہاں عقل سے فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے یہ وہاں بھی کمال کر دیتے ہیں اور جہاں دل سے فیصلے کا مرحلہ آ جاتا ہے یہ وہاں بھی پتھر ثابت ہوجاتے ہیں‘ آخر ان کو کیا کہا جائے؟۔
یہ حکومت ہیں‘ یہ ریاست ہیں‘ کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں جانتے تھے میاں نواز شریف مفرور ہونے کی غلطی نہیں کریں گے‘ ان کا سیاسی ورثہ پاکستان میں پڑا ہے‘ یہ اس ورثے کو ضائع نہیں کریں گے اور اگر یہ ایسی غلطی کر بھی بیٹھیں تو حکومت ملک میں موجود ان کی تمام جائیدادیں ضبط کر سکتی ہے‘ حکومت کو جاتی امراءکے ہوتے ہوئے کس بانڈ کی ضرورت تھی مگر افسوس جب انسان کے دماغ پر تالے پڑ جائیں تو پھر یہ ایسی ہی غلطیاں کرتا ہے‘ یہ پھر بادلوں سے بھی نہ برسنے کی ضمانتیں طلب کرتا ہے‘ یہ پھر اپنے سائے کو بھی مشکوک بنا لیتا ہے اور حکومت نے یہی کیا۔