ایک طرف جنگی جنون ہے اور دوسری طرف امجد اسلام امجد کی خوشبو دار نظمیں اور دلفریب شخصیت ہے اور میں درمیان میں بیٹھ کر کبھی اِدھر دیکھتا ہوں اور کبھی اُدھر اور مجھے سمجھ نہیں آتی اصل حقیقت کیا ہے؟ شعر یا جنگ!۔ڈاکٹر سید تقی عابدی ملک کے نامور دانشور اور ماہر تعلیم ہیں‘ ڈاکٹر عابدی نے امجد اسلام امجد کے فن‘ کارناموں اور شخصیت پر بھاری بھرکم کتاب تحریر کی‘ کتاب کا نام ”امجد فہمی“ ہے ‘ یہ کتاب امجد صاحب کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے‘
میں امجد صاحب کا مرید ہوں‘میری نیاز مندی کا دورانیہ 25 برس پر محیط ہے لیکن میں ان کا چالیس سال سے فین ہوں‘ میرا بچپن ان کے معرکة الآراءڈرامے ”وارث“ کے سائے میں گزرا‘ ڈرامے کی ہر قسط پر پورے ملک میں سناٹا چھا جاتا تھا‘ گلیاں سونی ہو جاتی تھیں‘ دکانیں بند ہو جاتی تھیں‘ ٹریفک رک جاتی تھی اور ہر گھر سے وارث کے میوزک اور ڈائیلاگ کی آواز آتی تھی‘ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی 1980ءمیں جب وارث ڈرامے کی قسط کا وقت آتا تھا تو مسافر بسیں اور وینیں تک چائے خانوں پر رک جاتی تھیں اور ٹرینیں سٹیشنوںپر لمبے لمبے وقفے لیتی تھیں‘ لوگ شہروں میں نکلتے تھے تو ان کو آدھی سے زیادہ آبادی وارث کے مختلف کرداروں کے گیٹ اپ میں دکھائی دیتی تھی‘ لوگ بال اور شیو عابدعلی(دلاور) اوراورنگزیب لغاری(چودھری نیازعلی) کے سٹائل میں بنواتے تھے اور چادر چودھری حشمت کے سٹائل میں اوڑھتے تھے اور مونچھوں کو فردوس جمال(چودھری انور علی) اور شجاعت ہاشمی (مولاداد) کے سٹائل میں تاﺅ دیتے تھے‘ آپ کو اس وقت پورا پاکستان وارث ڈرامے کی لائیو سکرین محسوس ہوتا تھا‘ وارث نے آگے چل کر پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی ٹیلی ویژن اور سینما سکرینوں کو متاثر کیا اور ہمیں 20 برس تک مختلف فلموں اور ٹیلی ویژن سیریلیز میں وارث کے مختلف کردار دکھائی دیتے رہے‘
میں اس زمانے میں امجد اسلام امجد کو صرف ڈرامہ نگار سمجھتا تھا لیکن جب شعور آنا شروع ہوا تو پتہ چلا اللہ تعالیٰ نے امجد صاحب کو تخلیق کے عظیم خزانے سے نواز رکھا ہے‘ یہ سرسے پاﺅں تک تخلیق کار ہیں‘ یہ جس فن کو بھی اپنی انگلی سے چھو دیتے ہیں وہ چمکنا اور دمکنا شروع کر دیتا ہے‘ آپ ان کی شاعری پڑھیں آپ کو یہ اپنی جذباتی منظر نگاری سے گلزار کا مقابلہ کرتے نظر آئیں گے‘ آپ ان کے سفرنامے پڑھیں آپ کو ان کی ہر سطر میں منظر‘ جذبات اور معلومات تینوں ہم آغوش دکھائی دیں گے‘
یہ آپ کو مستنصر حسین تارڑ سے چند قدم آگے نظر آئیں گے‘ آپ ان کے ڈرامے دیکھیں آپ کو ان کے لفظوں‘ فقروں اور مکالموں سے برنارڈشا جھانکتا دکھائی دے گا‘ آپ ان کی محفل میں بیٹھ جائیں وقت ختم ہو جائے گا لیکن پیاس نہیں بجھے گی اور آپ ان سے جڑ جائیں یہ آپ کو پوری زندگی اپنے بزرگانہ سائے سے باہر نہیں آنے دیں گے۔میں سمجھتا تھا میں امجد اسلام امجد کو اچھی طرح سمجھتا ہوں لیکن میں نے جب امجد فہمی پڑھنا شروع کی تو میں حیران رہ گیا‘
امجد صاحب نے اپنی 75 سال کی عمر میں 475 سال کے برابر کام کیا‘ یہ 68 کتابوں کے مصنف ہیں‘ یہ 30 ملکوں کی سیاحت کر چکے ہیں‘ 15سیریلز لکھے اور ہر سیریل لاجواب بھی تھا اور نئی سیریلز کی بنیاد بھی‘ زندگی میں طویل دورانئے کے 17 اور 100 سے زائد پچاس پچاس منٹ کے ڈرامے تحریر کئے‘ دنیا کی 22 بڑی کہانیوں کی ڈرامائی تشکیل کی‘ دو درجن مختصر ڈرامے اور بچوں کےلئے تین بڑے ڈرامے لکھے‘ تین سٹیج ڈرامے تحریر کئے‘ پنجابی زبان میں تین ڈرامے لکھے‘
سات فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے اور تین پروگراموں کی میزبانی کی‘ ایک پروگرام ”بیسویں صدی کی اردو غزل“ کے 80 پروگرام نشر ہوئے‘ امجد صاحب کی نظموں کے پانچ آڈیو البم آ چکے ہیں‘ یہ 20برسوں سے اخبارات کےلئے کالم بھی لکھ رہے ہیں‘ یہ ملک کے اندر اور باہر دورے بھی کرتے رہتے ہیں اور مشاعرے بھی پڑھ رہے ہیں‘ یہ سات مختلف سرکاری اداروں کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں‘ ان پر ایم اے‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے 30 مقالے لکھے جا چکے ہیں‘
یہ 11بڑے اداروں کے بورڈ آف گورنرز میں بھی شامل ہیں اور یہ 36 ملکی اور غیر ملکی ایوارڈز بھی حاصل کر چکے ہیں‘ یہ تمام کارنامے معمولی نہیں ہیں‘ آپ امجد اسلام امجد کا کام دیکھئے‘ آپ کو اندازہ ہو گا انسان اگر کام کرنا چاہے تو ایک زندگی کافی ہوتی ہے‘ ہم 75 برسوں میں بھی وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جس کےلئے 475 سال چاہیے ہوتے ہیں اور امجد صاحب دنیا کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جو دنیا میں آتے ہیں اور پانچ نسلوں کا کام کر جاتے ہیں۔
میں رات دیر تک ”امجد فہمی“ پڑھتا رہا اور امجد اسلام امجد کی شخصیت اور شعروں کی خوشبو میں سو گیا‘ اگلی صبح اٹھا تو پتہ چلا رات بھارتی طیاروں نے پاکستان کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی بھی کی اور واپسی پر بالاکوٹ کے قریب جبہ کے مقام پر 4 بم بھی گرائے‘ ہمارے شاہین پہنچے تو بھارتی طیارے واپس بھاگ گئے‘ یہ بھارت کی طرف سے سیدھا سادا اعلان جنگ تھا‘ بھارت کی اس جارحیت پر یقین کیجئے دل غصے سے بھر گیا‘ میں ”اینٹی وار“ ہوں‘
میں سمجھتا ہوں انسان جب تک جنگیں بند نہیں کرے گا زمین پر اس وقت تک انسانیت قتل ہوتی رہے گی‘ ہم اس وقت تک اشرف المخلوقات کے ٹائٹل سے محروم رہیں گے‘ برصغیر دس ہزار سال سے میدان جنگ چلا آ رہا ہے‘ ہندوستان آریائی دور سے لے کر ہن قبائل اور سکندر اعظم‘ چنگیز خان‘ افغان اور ایرانی حملہ آوروں‘ مغل جنگجوﺅں‘ نادر شاہ درانی اور آخر میں انگریز راج تک یہ خطہ ہر دور میں میدان جنگ رہا‘ آپ کو برصغیر کے ہر شہر کے اندر اور باہر زمین میں انسانی ہڈیاں ملیں گی‘
یہ ہڈیاں ہمارے جنگجو ماضی کا ثبوت ہیں‘ لڑائی ہمارے خون اور ہمارے جینز میں شامل ہے‘ ہم دشمن کے بغیر اور جنگ کے بغیر نہیں رہ سکتے‘ آپ کو روز پاکستان اور ہندوستان کی ہر گلی‘ ہر محلے اور ہر خاندان کے اندر لڑائی نظر آئے گی‘ آپ کو برصغیر کے لوگ مذہب‘ نسل‘ فرقے اور قبیلوں میں تقسیم بھی ملیں گے‘ یہ تقسیم‘ یہ لڑائی اور یہ شدت ہمارے ماضی کی نشانی ہے‘ ہم نے ہزاروں سال جنگیں دیکھی ہیں چنانچہ یہ جنگیں ہمارے جینز‘ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہیں‘
ہم پاکستانی ہوں یا بھارتی ہم امن میں رہ ہی نہیں سکتے‘ یہ ایک حقیقت ہے جبکہ دوسری حقیقت اس سے زیادہ بھیانک ہے‘ یہ درست ہے ہندوستان دس ہزار سال تک میدان جنگ رہا لیکن اس نے تاریخ کے کسی بھی دور میں کوئی بڑی جنگ نہیں دیکھی‘ ہماری تمام جنگیں محدود تھیں اور یہ زیادہ سے زیادہ برصغیر کے دسویں حصے تک رہیں‘ ہندوستان کے باقی علاقے ہر جنگ کے دوران محفوظ رہے‘ ہم نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی ہولناکی بھی نہیں دیکھی لہٰذا ہم جنگ کے اصل نقصانات سے واقف نہیں ہیں‘
جنگوں کی ہولناکی اور نقصانات صرف یورپ‘ سنٹرل ایشیا اور جاپان نے دیکھے‘ پہلی جنگ عظیم میں یورپ کے 4کروڑ لوگ ہلاک اوراڑھائی کروڑ لوگ زخمی ہوئے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے 7 کروڑتھی جبکہ 13 کروڑ لوگ زخمی ہوئے‘ پورے یورپ میں لاشوں اور ملبے کے سوا کچھ نہیں بچا تھا ‘لوگ بجلی‘ پانی‘ گیس‘ خوراک اور ادویات تک سے محروم ہو گئے تھے‘ سڑکیں‘ پل اور ریلوے ٹریک ختم ہو گئے تھے‘آپ جنگ کی ہولناکی ملاحظہ کیجئے‘
یورپ میں مردوں کی تعداد اتنی کم ہوگئی کہ 28 ملکوں نے شادی کا تکلف ہی ختم کر دیا‘ خواتین اور مرد کلبوں میں ملتے تھے اور صاحب اولاد ہو جاتے تھے‘ جنگ عظیم دوم 2 ستمبر 1945ءکو ختم ہوئی لیکن 1965ءتک لوگوں کی ہنسی واپس نہیں آئی تھی‘ پورا پورا شہر قہقہوں کو ترستا رہتا تھا‘ جاپان میں6 اگست 1945ءکوہیروشیما پر پہلا اور9 اگست 1945ءکوناگاساکی پردوسرا نیوکلیئر حملہ ہوا‘ جاپان کے لوگ آج چوتھی نسل کے باوجود ان جوہری حملوں کے اثر سے نہیں نکل سکے چنانچہ جنگ اور اس کی تباہی کیا ہوتی ہے؟
یہ آپ یورپ اور جاپان سے پوچھیں یا پھر امریکا کی ان ماﺅں سے پوچھیں جن کے لاکھوں بچے برطانیہ‘ فرانس اور ویتنام میں دفن ہیں اور یہ ان کی قبروں کی مٹی تک کو نہیں چھو سکتیں‘ ہم جب بھی جنگ کی بات کرتے ہیں تو یورپ‘ جاپان اور امریکاکیوں تڑپ اٹھتا ہے؟یہ ملک جانتے ہیں جنگ ہوتی کیا ہے اور اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں؟ میں دل سے جنگ کے خلاف ہوں‘ میں سمجھتا ہوں کسی جاندار پر گولی چلانا انسانی فعل نہیں‘ انسانیت اس وقت دم توڑ دیتی ہے جب انسان ہاتھ میں رائفل اٹھا کر گولی چلاتا ہے اور دوسری طرف کوئی جاندار زخمی ہو کر زمین پر جا گرتا ہے
مگر اتنا اینٹی وار ہونے کے باوجود میں نے بھی جب سنا بھارت کے طیاروں نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تو میرا خون بھی کھول اٹھا اور میں بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہمیں اس کا جواب بھی دینا چاہیے اور بھارت کو یہ بھی بتانا چاہیے پاکستان اتنا بھی کمزور نہیں‘ ہم لڑ بھی سکتے ہیں اور بدلہ بھی لے سکتے ہیں اور پاکستان نے کل یہ بدلہ لے لیا‘ ہم نے بھارت کے دو طیارے گرا دیئے‘ قوم کل سے خوش ہے‘ قوم کو خوش ہونابھی چاہیے‘ پاکستان کے بچے بچے کو اپنی فوج پر فخر تھا‘ فخر ہے اور یہ فخر ہمیشہ رہے گا‘پاکستانی سب کچھ کر لیتے ہیں مگر یہ پاکستان کی سلامتی پر کمپرومائز نہیں کرتے‘
پاکستان پاکستانیوں کے لہو کا حصہ ہے‘ یہ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیںپاکستان ان کی رگوں میں گردش کرتا رہتا ہے‘ یہ پاکستان پر آنچ آتے نہیں دیکھ سکتے چنانچہ پاکستانی کل سے خوش ہیں لیکن ہمیں اس خوشی کے دوران یہ بھی یاد رکھنا چاہیے ہم جوہری مواد کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی چنگاری اڑ کر اس ڈھیر پر گر گئی تو اس کے بعد انڈیا اور پاکستان دونوں نہیں بچیں گے اور یہ بھی عین ممکن ہے پھر شاید پوری دنیا ہی ختم ہو جائے اور یہاں جلے ہوئے پتھروں کے سوا کچھ نہ ہو اور یہ بھی حقیقت ہے دنیا کی ہر جنگ بالآخر ختم ہو جاتی ہے لیکن شاعری چلتی رہتی ہے اور امجد اسلام امجد کی شاعری ایک ایسی ہی حقیقت ہے۔