سول ایوی ایشن کی ہسٹری میں 2010ء میں ایک حیران کن واقعہ پیش آیا اور یہ واقعہ بعد ازاں انسانوں کے اجتماعی رویوں اور بھیڑ چال کے نقصانات کی مثال بن گیا‘ 25اگست کی صبح افریقہ کے ملک کانگو کے دارالحکومت کنشاسا سے ایک چھوٹا طیارہ اڑا‘ یہ طیارہ بندودو جا رہا تھا‘ طیارے میں 18 مسافر‘ دو پائلٹ اور دو ائیر ہوسٹس سوار تھیں‘ موسم بہت اچھا تھا‘ طیارہ چیک ری پبلک کا دو انجن کا ایل 410 تھا‘ یہ بھی مکمل فٹ
تھا‘ پائلٹ چارلس ولسن برطانیہ اور کو پائلٹ ڈینی فلی موٹ کا تعلق بیلجیئم سے تھا‘ یہ دونوں کوالیفائیڈ اور تجربہ کار پائلٹس تھے‘ طیارے کا کنٹرول روم سے بھی رابطہ استوار تھا‘ طیارے نے پرواز مکمل کی‘ لینڈنگ شروع کی اور پھر نہ جانے کیا ہوا طیارہ براہ راست زمین سے ٹکرایا اور پرزے پرزے ہو کر بکھر گیا‘ یہ ایک حیران کن حادثہ تھا‘ حادثے میں دونوں پائلٹس‘ ائیر ہوسٹسز اور17مسافر ہلاک ہو گئے‘ صرف ایک مسافر بچا لیکن وہ بھی شدید زخمی تھا‘حادثے کی تحقیقات شروع ہو گئیں‘ ملبے کا تجزیہ ہوا‘ پتہ چلا حادثے کے بعد بھی طیارے کے دونوں انجن کام کر رہے ہیں‘ نیوی گیشن کا نظام بھی ٹھیک تھا‘ طیارے کا ٹاور سے رابطہ بھی قائم تھا اور موسم اور زمین کو دیکھنے کا نظام بھی سو فیصد درست تھا‘ طیارے کو اغواء کرنے کی کوشش بھی نہیں ہوئی اور طیارے کے ملبے سے کسی قسم کے بارود یا میزائل کے آثار بھی نہیں ملے‘پھر طیارہ کیسے تباہ ہوا؟ اس سوال نے دنیا جہاں کے سول ایوی ایشن ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا‘ ماہرین کے پاس اب سچائی جاننے کیلئے زندہ بچ جانے والے مسافر کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ لوگ زندہ بچ جانے والے مسافر کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگے‘ وہ 27اگست کو ہوش میں آیا اور اس نے ایک محیرالعقول بات بتائی‘ اس نے بتایا مسافروں میں شامل ایک مسافر نے اپنے بیگ میں مگر مچھ کا بچہ چھپا رکھا تھا‘ کانگو میں مگرمچھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل
کرنے پر پابندی تھی‘ وہ مسافر مگر مچھوں کا سمگلر تھا‘ وہ عموماً مگرمچھ کے بچے اپنے دستی سامان میں چھپا کر دوسری جگہ منتقل کر لیتا تھا‘ وہ اس دن بھی اپنے بیگ میں مگر مچھ کا بچہ چھپا کر جہاز میں لے آیا‘ عملے نے اس کا بیگ جہاز کے پچھلے حصے میں رکھ دیا‘ جہاز نے جب لینڈنگ شروع کی تو بیگ کھل گیا اور مگرمچھ کا بچہ باہر نکل آیا‘ ائیر ہوسٹس نے دیکھا تو وہ پائلٹس کو اطلاع دینے کیلئے کاک پٹ کی طرف دوڑپڑی‘ مگر مچھ کا بچہ بھی ائیر ہوسٹس کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا‘
مسافروں نے یہ منظر دیکھا تو وہ خوفزدہ ہو گئے اور وہ بھی خوف کے عالم میں اپنی نشستوں سے اٹھ کر کاک پٹ کی طرف دوڑ پڑے‘ طیارہ اتر رہا تھا‘ مسافروں کا سارا وزن کاک پٹ کی طرف شفٹ ہو گیا اور طیارہ تیزی سے نیچے گرنے لگا‘ پائلٹوں نے طیارے کو اوپر اٹھانے کی بے شمار کوششیں کیں لیکن مسافروں کے وزن نے طیارہ سیدھا نہ ہونے دیا اور یوں یہ چند سیکنڈ میں زمین پر آ گرا‘ حادثے میں مگر مچھ اور ایک مسافر کے علاوہ تمام لوگ مارے گئے‘
مگرمچھ کا بچہ حادثے کے بعد ملبے سے نکلا اور گھاس میں جا کر بیٹھ گیا‘ ریسکیو ورکرز نے مگرمچھ دیکھا تو وہ سمجھے یہ لاشیں کھانے کیلئے جنگل سے نکل آیا ہے چنانچہ انہوں نے اسے لوہے کے ڈنڈوں سے مار دیا‘ تفتیشی ٹیم نے آخر میں مسافر پوچھا ”لیکن تم کیسے بچ گئے“ مسافرنے جواب دیا‘ میں نے چند لمحوں میں صورت حال کا اندازہ کر لیا تھا‘ میں نے دیکھا مگرمچھ کا بچہ بہت چھوٹا ہے‘ یہ کسی کو کاٹ تک نہیں سکتا‘ لوگ بلاوجہ خوفزدہ ہیں چنانچہ میں اپنی نشست پر بیٹھا رہا اور یوں میں بچ گیا۔
جہاز کی تباہی اور ایک مسافرکے بچ جانے کی داستان نے ثابت کر دیا خطرہ اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا خطرناک خطرے کا خوف ہوتا ہے‘ لوگ مسئلوں اور مشکلوں سے اتنے نہیں مرتے جتنا یہ مشکلوں اور مسئلوں کے خوف کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں‘ دنیا کے ہر مسئلے‘ ہر مشکل اور ہر خطرے کا کوئی نہ کوئی علاج موجود ہے لیکن آج تک خوف کا کوئی علاج دریافت ہوا اور نہ ہی کوئی حل سامنے آ سکا اور ہم پاکستانی خوفزدہ ہونے کے ماہر ہیں‘ پاکستان میں ہر سال پاکپتن کے بہشتی دروازے میں بھگدڑ مچتی ہے اور اس میں سو پچاس لوگ مر جاتے ہیں‘
حج کے دوران کنکریاں بھی درجنوں پاکستانیوں کی جان لے جاتی ہیں اور پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹ سے بھی ہر سال ہزاروں لوگ مرتے ہیں‘ یہ ہلاکتیں کیوں ہوتی ہیں؟ ان ہلاکتوں کی واحد وجہ خوف ہے اور یہ خوف پینک سے جنم لیتا ہے اور پینک ہماری فطرت میں شامل ہے‘ ہم میں سے بے شمار لوگ ناکامی کے خوف کی وجہ سے کوشش نہیں کرتے‘ ہم میں سے ہر شخص نے خود سے فیصلہ کر لیا ہے یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا‘ پارلیمانی جمہوریت پاکستان کو سوٹ نہیں کرتی‘
یہ سسٹم اسی طرح چلتا رہے گا اور ہم لوگوں کی حالت نہیں بدل سکتے وغیرہ غیرہ چنانچہ ہم ناکامی کے خوف کی وجہ سے سسٹم کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ خود کو بہتر بنانے کی سعی کرتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کو جمہوریت کی طرح تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں نتیجتاً ہم گہرائی سے گہرائی تر میں اترتے چلے جا رہے ہیں‘ ہم کانگو کی فلائیٹ کی ائیرہوسٹس کی طرح مگر مچھ کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور یوں پورے جہاز کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں‘
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جہاز کے زندہ بچ جانے والے مسافر کی طرح مگرمچھ کا سائز دیکھتے ہیں‘ خطرے کو خطرناک نہیں سمجھتے اور پھر اطمینان سے اپنی نشست پر بیٹھے رہتے ہیں‘آپ کو بہت کم ایسے لوگ ملیں گے‘ میں بے تحاشہ سفر کرتا ہوں‘ میں نے پاکستان کے ہر ائیرپورٹ پر لوگوں کو افراتفری کا شکار دیکھا‘ یہ ائیرپورٹ پر جلدی پہنچنا چاہتے ہیں‘ یہ سب سے پہلے بورڈنگ پاس لینا چاہتے ہیں‘ یہ لاؤنج میں بھی سب سے پہلے جانا چاہتے ہیں‘
یہ بس اور ٹنل میں بھی جلدی پہنچنا چاہتے ہیں‘ یہ جہاز کو بھی جلد سے جلد اڑتا دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ لینڈنگ کے بعد بھی دوڑ کر باہر نکلنا چاہتے ہیں‘ میں آج تک حیران ہوں یہ لوگ اتنی جلدی میں کیوں ہیں؟یہ ہماری طبیعت کے پینک کو ظاہر کرتا ہے‘ہم فطرتاً پینکی ہیں‘ میں نے زندگی میں صرف ایک بار لاہور کے ایک بزنس مین کو اطمینان میں دیکھا‘ وہ لاؤنج میں بھی چپ چاپ بیٹھے تھے‘ وہ بس پر بھی سب سے آخر میں سوار ہوئے اور وہ بس سے بھی آخر میں اترے‘
میں نے ان کے ساتھ ہاتھ ملایا اور پوچھا ”جناب آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں“ وہ ہنس کر بولے ”لاہوریا ہوں اورٹیکسٹائل کی انڈسٹری سے وابستہ ہوں“ میں نے پوچھا ”آپ نے یہ اطمینان کہاں سے سیکھا“ وہ بولے ”میں نے عملی زندگی کے شروع میں سیکھ لیا تھاجلد بازی شیطان کا کام ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ ہمیشہ ہلاکت نکلتا ہے چنانچہ میں کسی کام میں جلدی نہیں کرتا“ مجھے وہ بہت اچھے لگے‘ میں نے ان کا ہاتھ چومااور فلائیٹ میں آ گیا‘
میں اس کے بعد ہمیشہ جلد بازوں کو جلدبازی کا موقع دیتا ہوں اور اطمینان سے قطار کے آخر میں کھڑا ہو جاتا ہوں‘ میں ائیرپورٹ کی بس میں بیٹھنے کی بجائے کھڑا رہتا ہوں اور لوگوں کو تیس سیکنڈ کے سفر کیلئے بھی سیٹ پر ڈھیر ہوتے ہوئے دیکھتا رہتا ہوں‘ میں نے زندگی میں سیکھا آپ اگر اپنا پینک کنٹرول کر لیں‘ آپ اگر مسئلے کو صرف مسئلے اور مشکل کو صرف مشکل تک محدود کر دیں اور آپ اگر اسے پریشانی یا خوف نہ بننے دیں تو آپ کو ان مشکلوں اور ان مسئلوں کے چار ہزار حل مل جائیں گے
لیکن اگر مشکل اور مسئلے کو دیکھ کر آپ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے یا آپ پینک کا شکار ہو گئے تو پھر آپ کانگو کے جہاز کی طرح باقی دس بیس لوگوں کو بھی لے کر بیٹھ جائیں گے‘ آپ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈال دیں گے۔میں نے سیکھا عام انسان زندگی میں صرف ایک بار مرتا ہے لیکن پینکی شخص روزانہ مرتا اور روزانہ جیتا ہے‘ مجھے چند دن پہلے انڈین فلم 102 ناٹ آؤٹ دیکھنے کا موقع ملا‘ کیا شاندار فلم اور کیا شاندار موضوع تھا‘ امیتابھ بچن کی عمر 102سال ہے
اور اس کے بیٹے رشی کپور 75 سال کے ہیں‘ 102 سال کا باپ صحت مند‘ خوش اور زندگی سے بھرپور ہے جبکہ 75 سال کا بیٹا اداس‘ ڈپریس‘ بیمار اور بور ہے‘ 102 سال کا بوڑھا باپ ایک دن اپنے 75 سال کے بیٹے کو کہتا ہے ”مجھے مرنا اچھا نہیں لگتا‘ میں 102 سال میں ایک بار بھی نہیں مرا‘ تم بھی جب تک مرتے نہیں ہو اس وقت تک زندہ رہو“ آپ یہ طلسماتی لائنیں پڑھیں اور سوچیں آپ کتنے زندہ ہیں؟ آپ نے اپنے آپ کو مرنے سے کتنا بچا رکھا ہے!
آپ سوچیں گے تو آپ کو اپنے اردگرد ایسے ہزاروں مردے ملیں گے جو اپنی لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر تدفین کیلئے مناسب قبرستان تلاش کر رہے ہیں‘ یہ لوگ انسان نہیں ہیں یہ زندہ لاشیں ہیں بس ان کی تدفین باقی ہے‘ ان کو جس دن اپنی مرضی کی کوئی قبر مل گئی یہ اپنی لاش اس میں دفن کر دیں گے اور پھر دوسروں سے پوچھتے رہیں گے کیا یہ تھی زندگی!چنانچہ آپ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں توآپ زندہ رہنا سیکھیں اور زندہ رہنے کے تین اصول ہیں‘ خطرے کو صرف خطرہ‘ مشکل کو صرف مشکل اور مسئلے کو صرف مسئلہ رہنے دیں‘
اسے خوف نہ بننے دیں‘ پینک کبھی نہ کریں‘ دوسرا اپنی زندگی سے جلدبازی کو کاٹ کر پھینک دیں‘ جلد بازی وہ موت ہے جو آپ کو جیتے جی زندہ نہیں رہنے دیتی اور تیسری بات‘ یہ بات بھی پلے باندھ لیں آج کے دن کا کل بھی ہو گا اور آنے والا کل ہمیشہ‘ ہمیشہ اور ہمیشہ گزرے دن سے بہتر ہوتا ہے چنانچہ اگر آپ کا آج برا ہے تو آپ زندگی کوآج پر نہ روکیں‘ آپ اسے اگلے دن میں جانے دیں‘ آپ کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے اور آخری بات آپ جب بھی خوفزدہ ہوں یا پینک کرنے لگیں تو آپ کانگو کے طیارے کے زندہ بچ جانے والے واحد مسافر کی شکل ذہن میں لائیں اور یہ سوچنا شروع کر دیں ہو سکتا ہے خطرے کا مگرمچھ پورا مگرمچھ نہ ہو اور یہ مجھ سے خوفزدہ ہو کر بھاگ رہا ہو‘ آپ یقین کیجئے آپ کی صورت حال بدل جائے گی‘ آپ اور آپ کا جہاز دونوں بچ جائیں گے۔