آپ اگر دنیا کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو یورپ اور امریکا کے درمیان ایک بڑاسا جزیرہ دکھائی دے گا‘ یہ یورپ کی جانب سے آخری اور امریکا کی طرف سے پہلی انسانی آبادی ہے‘ یہ جزیرہ آئس لینڈ کہلاتا ہے‘ مجھے اس ملک میں سات دن گزارنے کا موقع ملا‘ یہ سات دن میری زندگی کے حیران کن ایام تھے‘ دنیا میں 245 ممالک ہیں‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک تہائی دنیا دیکھنے کا موقع عطا کیا لیکن آئس لینڈ ان تمام ملکوں سے مختلف تھا‘ یہ قطب
شمالی کے قریب ہونے کی وجہ سے موسم سرما میں برف میں دفن رہتا ہے‘ سردیوں کی راتیں لمبی اور گرمیوں کے دن طویل ہوتے ہیں‘ سردیوں میں سورج صرف دو گھنٹوں کےلئے طلوع ہوتا ہے جبکہ گرمیوں کے دن 22 اور 23 گھنٹے لمبے ہوتے ہیں‘ میں جتنے دن آئس لینڈ میں رہا میری صبح ساڑھے دس بجے طلوع ہوتی تھی اور رات پانچ بجے شروع ہو جاتی تھی‘ یہ ملک آتش فشانوں کی سرزمین کہلاتا ہے‘ آپ یہاں زندہ آتش فشاں دیکھ سکتے ہیں‘ ملک میں سینکڑوں آتش فشاں ہیں اور ان میں سے باقاعدہ دھواں نکلتا رہتا ہے‘ میں جہاں بھی گیا وہاں سے زمین سے دھواں نکل رہا تھا‘ یہ دھواں آسمان کے کناروں پر ہلکورے لیتا رہتا ہے‘ رک یاوک آئس لینڈ کا دارالحکومت ہے‘ رک کا مطلب دھواں اور وک کا مطلب ٹاﺅن ہوتا ہے‘ گویا آئس لینڈ کا دارالحکومت دھوئیں کا شہر ہے اور یہ ”خطاب“ سو فیصد درست ہے کیونکہ آپ کھلی آنکھوں سے رک یاوک کی سڑکوں‘ فٹ پاتھوں اور گلیوں سے دھواں اٹھتا دیکھتے ہیں‘ حکومت نے دھوئیں کی نکاسی کےلئے زمین میں پائپ لگا دیئے ہیں‘ یہ پائپ زمین کی چمنیاں ہیں‘ یہ چمنیاں سارا دن دھواں اگلی رہتی ہیں‘ زمین کے اندر آتش فشاں بھی کروٹیں لیتے رہتے ہیں اور زلزلے بھی پروان چڑھتے رہتے ہیں‘ سال میں دو سو سے زائد بڑے زلزلے آتے ہیں‘ اوسطاً چار سال بعد کوئی بڑا آتش فشاں پھٹتا ہے اورآتشیں گرد آدھے سے زائد یورپ کو ڈھانپ لیتی ہے‘ پورے ملک میں سینکڑوں آبشاریں‘
ندیاں‘ نالے اور دریا ہیں‘ میرے قیام کے دوران پورا ملک برف میں دفن تھا‘ میں جہاں بھی گیا‘ میں نے جہاں بھی دیکھا وہاں برف ہی برف تھی‘ پورا ملک سفیدی میں نہایا ہوا تھا‘ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے تھا‘ صبح سے رات تک برف باری ہوتی تھی‘ تیز ہوائیں چلتی تھیں اور سردی ہڈیوں میں اتر جاتی تھی‘ پورے ملک میں دھند‘ سردی اور یخ ہواﺅں کا راج تھا۔آئس لینڈ صرف موسم کے حوالے سے دلچسپ ملک نہیں بلکہ یہ اپنی روایات کی وجہ سے بھی دنیا سے مختلف ہے‘
مثلاً 39 ہزار مربع میل پر پھیلے اس ملک میں صرف تین لاکھ 36ہزارلوگ رہتے ہیں‘ یہ دنیا کا آخری حصہ ہے جس پر انسان آباد ہوا‘ یہ ملک 870 میں ناروے کے بحری قزاقوں نے آباد کیا‘ قبائل آئے‘ آباد ہوئے اور آپس میں لڑائی جھگڑے شروع کر دیئے‘ لوگ کم اور لڑائیاں زیادہ تھیں‘ لوگوں نے سوچا ہم نے اگر یہ جنگ بند نہ کی تو ہم لڑ لڑ کر مر جائیں گے چنانچہ یہ لوگ رک یاوک کے مضافات میں اکٹھے ہوئے اور 930ءمیں دنیا کی پہلی پارلیمنٹ کی بنیاد رکھ دی‘
یہ پارلیمنٹ جھیل کے کنارے سیاہ پہاڑوں کے درمیان کھلے میدان میں قائم ہوئی‘ سپیکر کا تقرر ہوا‘ آئین تیار ہوا اور سپیکر نے آئین زبانی یاد کر لیا‘ قبائل ہر سال آتے‘ پہاڑ کے دامن میں خیمے لگاتے‘ سپیکر اونچی آواز میں آئین پڑھتا‘ آواز پہاڑ سے ٹکرا کر وادی میں گونجتی اور لوگ آئین سن کر اپنے جھگڑے نبٹا لیتے‘ مجھے دنیا کی یہ قدیم پارلیمنٹ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا‘ آئس لینڈ کا آئین ساز پہاڑ برف میں دفن تھا‘ پارلیمنٹ کی دوسری طرف ”یورو امریکن ٹیکٹانک پلیٹ“ تھی‘
یہ پلیٹ یورپ اور شمالی امریکا میں زلزلوں کی وجہ بنتی ہے‘ اس مقام پر زمین دو حصوں میں تقسیم ہے‘ نیچے کھائی ہے اور کھائی میں صاف پانی بھرا ہوا ہے‘ لوگ دنیا کے اس عجوبے کی ”زیارت“ کےلئے پانی میں باقاعدہ غوطہ لگاتے ہیں‘ پلیٹوں کا ایک حصہ یورپ جبکہ دوسرا براعظم امریکا میں آتا ہے یوں یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو بیک وقت یورپ اور امریکا میں شامل ہے‘ پلیٹوں کی کھائی میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے‘ سائنس دانوں کا خیال ہے زمین کی یہ تقسیم اگر بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب آئس لینڈ دو حصوں میں تقسیم جائے گا‘
ایک حصہ یورپ میں رہ جائے گا اور دوسرا براعظم امریکا کے وجود میں شامل ہو جائے گا‘ حکومت نے پارلیمنٹ اور یورو امریکن ٹیکٹانک پلیٹوں کو سیاحت کا مرکز بنا دیا ہے‘ یہاں روزانہ ہزاروں سیاح آتے ہیں‘ آئس لینڈ میں لوگ ہفتے میں ساڑھے 43 گھنٹے کام کرتے ہیں‘ یہ دورانیہ یورپ میں سب سے زیادہ ہے‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں جنگلات نہیں ہیں‘ ملک کے تمام جنگلات ماضی میں آتش فشانوں کا شکار ہو گئے یا پھر بحری قزاقوں نے انہیں جلا کر راکھ بنا دیا‘
حکومت اب جنگلات پر بہت توجہ دے رہی ہے‘ یہ پٹرول میں سے پانچ کراﺅن فی لیٹر وصول کرتی ہے اور یہ رقم شجرکاری پر صرف کردیتی ہے‘ پٹرول کمپنیوں نے ملک میں ایک کروڑ نئے درخت لگائے ہیں‘ یہ درخت آہستہ آہستہ سر اٹھا رہے ہیں‘ ملک کے صرف ایک فیصد رقبے پر کاشتکاری ہوتی ہے‘ وجہ سردی‘ طویل راتیں اور لاوا اگلتے پہاڑ ہیں چنانچہ تمام ضروریات زندگی درآمد کی جاتی ہیں‘ زبان ہزار سال پرانی اور اصل نارویجن ہے‘ لوگوں نے لکھائی اور زبانی دونوں قسم کے الفاظ کو اصل حالت میں محفوظ رکھا‘
یہ یورپ کا واحد ملک ہے جس میں فیملی نیم یا سرنیم نہیں ہوتا‘ لوگ ایک دوسرے کو اصل نام سے مخاطب کرتے ہیں‘ ملک کی پچاس فیصد آبادی دارالحکومت رک یاوک میں آباد ہے‘ باقی 50 فیصد لوگ چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہات میں رہتے ہیں‘ شہر دو تین سو لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ دیہات میں پچاس ساٹھ لوگ رہتے ہیں‘ گرمیوں میں بھی درجہ حرارت 20 سینٹی گریڈ سے اوپر نہیں جاتا‘ ملک کی تاریخ میں 1939ءمیں ایک بار گرمی پڑی تھی لیکن اس دن بھی درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ تک گیا تھا‘
آئس لینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے خاتون کو وزیراعظم بنایا‘ یہ ہم جنس مرد کو وزیراعظم بنانے والا بھی پہلا ملک ہے‘ آئس لینڈ دنیا کے ان چند ملکوں میں شمار ہوتا ہے جس میں فوج‘ نیوی اور فضائیہ نہیں‘ پولیس فورس بھی صرف 9 سو اہلکاروں تک محدود ہے‘ پولیس کے پاس صرف 2 سو گاڑیاں ہیں‘پورے ملک میں اسلحہ نہیں‘ پولیس کے پاس بھی رائفل نہیں ہوتی‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ہفتے اور اتوار کے دن پولیس بھی چھٹی کرتی ہے‘ تھانے بند ہو جاتے ہیں اور یہ سوموار کو دوبارہ کھلتے ہیں‘
ملک میں مچھر بھی نہیں ہیں‘ یہ لوگ دنیا میں فی کس سب سے زیادہ فلمیں دیکھتے ہیں‘ سب سے زیادہ کتابیں پڑھتے اور کتابیں چھاپتے ہیں‘ ملک کی دس فیصد آبادی مصنف ہے‘آئس لینڈ کے مصنف ہلدور لیکس نیس نے 1955ءمیں لٹریچرمیں نوبل پرائز حاصل کیا‘ مجھے شہر سے باہر اس کا گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ گھر ویرانے میں تھا‘ وہ پوری زندگی شہر کے ہنگاموں سے دور کھلی فضا میں رہا‘ ملک کے 97 فیصد لوگ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘
آپ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں آپ کو وہاں انٹرنیٹ کی مفت سہولت ملے گی‘ یہ ملک اپنی ضرورت کےلئے سو فیصد بجلی قدرتی وسائل سے پیدا کرتا ہے‘ آدھی بجلی پانی‘ ہوا اور سورج سے بنتی ہے اورباقی آدھی ”جیو تھرمل“ سے حاصل ہوتی ہے‘ ملک میں گرم پانی کے سینکڑوں چشمے ہیں‘ یہ لوگ زمین میں تین کلو میٹر پائپ ڈالتے ہیں‘ گرم پانی اور بھاپ حاصل کرتے ہیں‘ بھاپ اور پانی 300 سینٹی گریڈ گرم ہوتا ہے‘ یہ اس سے ٹربائن چلا کر بجلی بنا لیتے ہیںاور گرم پانی شہروں کوسپلائی کر دیتے ہیں‘
پورے ملک میں گرم پانی مفت ہے اور یہ حکومت سپلائی کرتی ہے‘ لوگ اس سے نہاتے بھی ہیں اور گھر بھی گرم کرتے ہیں‘ بجلی انتہائی سستی اور ضرورت سے زائد ہے‘ آئس لینڈ میں فی کس کوکا کولا دنیا میں سب سے زیادہ پیا جاتا ہے‘ لوگ پانی سے زیادہ کوکا کولا پیتے ہیں تاہم یہ جدید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں میکڈونلڈ نہیں ہے‘ آبادی صرف تین لاکھ 36ہزار ہے لیکن سال2017ءمیں 22 لاکھ سیاح ملک میں آئے‘ یہ سیاح معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں‘ ہوٹل‘ ریستوران اور ٹرانسپورٹ مہنگی ہے لیکن فضائی کرائے کم ہیں‘
ملک کا ہر شہری اوسطاً دو گاڑیوں کا مالک ہے‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور ریلوے کی سہولت دستیاب نہیں‘ لوگ ذاتی گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں‘ جرائم صفر ہیں‘ لوگ گھر کے دروازے کھلے چھوڑ کر سوتے ہیں‘ گھوڑے اور بھیڑیں خالص ہیں‘ یہ لوگ ہر سال 3 ہزار گھوڑے برآمد کرتے ہیں لیکن کوئی گھوڑا ملک سے باہر جا کر واپس نہیں آ سکتا چنانچہ گھوڑوں کی نسل سو فیصد خالص ہے‘ گھوڑے قد میں چھوٹے لیکن مضبوط کاٹھی کے مالک ہوتے ہیں‘ جسم پر بے تحاشہ لمبے بال بھی ہوتے ہیں‘
تعلیم مفت ہے‘ حکومت بچوں کو کتابیں اور یونیفارم بھی فراہم کرتی ہے جبکہ والدین کو بچے کی نگہداشت کےلئے 18 سال تک سال میں چار بار 60 ہزار کراﺅن بھی دیئے جاتے ہیں‘ یونیورسٹی میں بھی طالب علموں کو تمام مراعات اور سہولتیں دی جاتی ہیں‘ ادویات شروع میں سو فیصد مفت‘ دوسری بار 70 فیصد رعایت اور تیسری بار آدھی قیمت میں دی جاتی ہیں‘ ملک کے تمام شہریوں کو مکان کا کرایہ بھی دیا جاتا ہے‘ گھر بھی حکومت بنا کر دیتی ہے‘ سڑکیں بہت اچھی اور رواں ہیں‘
آپ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں آپ کو وہاں سڑک بھی ملے گی‘ پانی بھی‘ بجلی بھی اور انٹر نیٹ بھی‘ برف باری کے بعد سڑکیں صاف کرنا حکومت کی ذمہ دار ہوتی ہے اور یہ اس ذمہ دار میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی‘ سردیوں میں پورے ملک کی گاڑیوں کے ٹائر بدل دیئے جاتے ہیں‘ یہ لوگ ونٹر ٹائر استعمال کرتے ہیں جن کی وجہ سے گاڑیاں برفباری میں بھی دوڑتی بھاگتی رہتی ہیں۔(آئس لینڈ کا سفر ابھی جاری ہے