جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

شاید ہم بھی

datetime 17  ‬‮نومبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ 2008ءکی جنوری تھی‘ میں نے نیا نیا ٹیلی ویژن شو شروع کیا تھا‘ ہمارے تیسرے پروگرام میں جہانگیر بدر مہمان تھے‘ کامل علی آغا ان کے ساتھ مدعو تھے‘ پاکستان مسلم لیگ ق کی حکومت تازہ تازہ ختم ہوئی تھی‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی تازہ تھی‘ الیکشن 18 فروری 2008ءکو ہونا تھے‘ پیپلز پارٹی کی کامیابی یقینی تھی‘ جہانگیر بدر آئے‘ کامل علی آغا کو دیکھا اور ان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا‘ ہم لوگ اس صورتحال کےلئے تیار نہیں تھے‘ ہم پریشان ہو گئے‘ میری ٹیم انہیں راضی کرتی رہی لیکن جہانگیر بدر کسی قیمت پر کامل علی آغا کے ساتھ بیٹھنے کےلئے تیار نہیں تھے‘

میں سیٹ سے اٹھ کر ڈائریکٹر کے کمرے میں گیا‘ جہانگیر بدر وہاں ناراض بیٹھے تھے اور ہمارا سارا سٹاف انہیں سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا‘ مجھے دیکھتے ہی جہانگیر بدر اونچی آواز میں بولے ”دیکھ جاوید چودھری تمہیں فیصلہ کرنا ہوگا تمہارے پروگرام میں جہانگیر بدر بیٹھے گا یا پھر وہ …. کامل علی آغا“ میں نے فوراً جواب دیا ”پھر بدر صاحب کامل علی آغا ہی بیٹھے گا“ جہانگیر بدر کے غصے میں اضافہ ہو گیا‘ وہ بولے ”کیوں؟“ میں نے عرض کیا ”بدر صاحب وہ ہماری عزت کر رہے ہیں‘ وہ آپ کی تمام تر نفرت کے باوجود ابھی تک سیٹ پر بیٹھے ہیں جبکہ آپ نے پورا دفتر سر پر اٹھا رکھا ہے‘ میں عزت کرنے والے شخص کو اٹھا کر بے عزتی کرنے والے کو کیسے بٹھا لوں“ جہانگیر بدر خاموش ہو گئے‘ ہم نے وہ پروگرام جہانگیر بدر کے بغیر ریکارڈ کیا‘ یہ جہانگیر بدر کے ساتھ میرا پہلا ٹاکرا تھا۔

الیکشن کے بعد ملکی صورتحال بدل گئی‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے برتری حاصل کر لی‘ پاکستان مسلم لیگ ن دوسرے اور ق لیگ تیسرے نمبر پرآئی‘ پاکستان پیپلز پارٹی مکمل طور پر آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھی‘ الیکشن میں کامیابی کے بعد زرداری صاحب نے تین ناقابل یقین کام کئے‘ یہ میاں نواز شریف سے ملے‘ قرآن مجید پر معاہدہ ہوا اور ملک کی دونوں بڑی جماعتوں نے مشترکہ حکومت بنا لی لیکن یہ سیاسی نکاح زیادہ دن تک نہ چل سکا‘ دوسرا‘ زرداری صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ٹیم کو کارنر کر دیا‘ ناہید خان اور ڈاکٹر صفدر عباسی پہلا نشانہ تھے‘ مخدوم امین فہیم‘ رضا ربانی‘ جہانگیر بدر‘ چودھری اعتزاز احسن اور شاہ محمود قریشی دوسرا نشانہ بنے‘ چودھری اعتزاز احسن پر بلاول ہاﺅس کے دروازے تک بند ہو گئے‘ یہ دروازے2012ءمیں سوئس کیسز کی وجہ سے کھلے‘ ناہید خان اور صفدر عباسی مکمل طور پر الگ ہو گئے جبکہ باقی حضرات پارٹی میں رہے لیکن آصف علی زرداری ان کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں تھے‘

ان حضرات میں رضا ربانی اور جہانگیر بدر دو زیادہ اہم تھے‘ رضا ربانی ایماندار‘ ذہین اور پارٹی کے مخلص کارکن ہیں چنانچہ قیادت انہیں پارٹی سے نکال نہیں سکی تاہم انہیں رگڑا خوب لگایا گیا‘ اس زمانے میں دو واقعات بہت مشہور ہوئے‘ ایک واقعے میں قائد نے بھری میٹنگ میں رضا ربانی کو بے اولاد ہونے کا طنعہ دے دیا‘ یہ طعنہ ناقابل بیان انداز سے دیا گیا تھا‘ دوسرے واقعے میں رضا ربانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کےلئے گئے‘ یہ جب وزیراعظم کے دفتر پہنچے تو ایوان صدر سے گیلانی صاحب کو فون آگیا ‘ آصف علی زرداری نے وزیراعظم کو حکم دے دیا آپ رضا ربانی سے ملاقات نہیں کریںگے‘ آپ انہیں باہر سے ہی واپس بھجوا دیں‘ رضا ربانی اس وقت ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں بیٹھے تھے‘ وزیراعظم نے ملٹری سیکرٹری کوفون کر کے صدر کے احکامات بتا دیئے لیکن ایم ایس کو رضا ربانی کو بتانے کی جرا¿ت نہیں ہوئی چنانچہ رضا ربانی دیر تک ملاقات کا انتظار کرتے رہے لیکن انہیں بہرحال ملاقات کے بغیر واپس جانا پڑا‘

جہانگیر بدر سینیٹر بنا دیئے گئے لیکن انہیں وزارت ملی اور نہ ہی قرب شاہی‘ تاہم ان کے برادر نسبتی توقیر صادق کو اوگرا کا چیئرمین بنا دیا گیا‘ وہ خوفناک حد تک کرپٹ ثابت ہوئے‘ انہوں نے سی این جی سٹیشنز کی لوٹ سیل لگا دی‘ یہ بیس سے پچاس لاکھ روپے وصول کر کے سی این جی سٹیشن کی اجازت دے دیتے تھے‘ یہ اجازتیں آگے چل کر گیس کا خوفناک بحران بن گئیں‘ توقیر صادق کی تقرری کا ایشو سپریم کورٹ میں گیا اور عدالت نے یہ تقرری کالعدم قرار دے دی ‘ نیب کے مطابق توقیر صادق نے اوگرا کو 82ارب روپے کا نقصان پہنچایا تھا‘ توقیر صادق بعد ازاں ملک سے فرار ہو گئے‘ یہ انٹرپول کی مدد سے 29 جنوری 2013ءکوابوظہبی سے گرفتار ہوئے لیکن ہمارے سرکاری ادارے بروقت کاغذات مکمل نہ کر سکے اور یوں عدالت نے انہیں رہا کر دیا‘ صدر زرداری کو اس دوران جب بھی جہانگیر بدر کے بارے میں بتایا جاتا تھایہ ہنس کر کہتے تھے ”ہم نے سالے کو اکاموڈیٹ کر دیا ‘ کیا یہ کافی نہیں“ یوں بے نظیر بھٹو کا ساتھی ہونا‘ پارٹی کا پرانا ورکر ہونا اور برادرنسبتی کی اندھا دھند کرپشن یہ تینوں جہانگیر بدر کے راستے کی رکاوٹ بن گئیں اور یہ آہستہ آہستہ سائیڈ پر ہوتے چلے گئے اور آصف علی زرداری کا تیسرا ناقابل یقین کارنامہ ”قاتل لیگ“ کو اقتدار میں شامل کرنا تھا۔

میری ان دنوں جہانگیر بدر سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں‘ یہ میرے شو میں بھی تشریف لاتے تھے لیکن آپ قسمت کا ہیر پھیر ملاحظہ کیجئے‘ وہ پاکستان مسلم لیگ ق جہانگیر بدرنے جس کے ایک ممبر کامل علی آغا کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا وہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی اتحادی بن گئی‘ وہ اقتدار میں ان کے ساتھ شریک ہو گئی اور وہ چودھری پرویز الٰہی جن کا نام بے نظیر بھٹو کے قاتلوں میں شامل تھا وہ بدر صاحب کی پارٹی کے نائب وزیراعظم بن گئے‘ جہانگیر بدر کو اب کامل علی آغا کے ساتھ سرکاری میٹنگز میں بھی بیٹھنا پڑتا تھا اورپروگراموں میں بھی‘ میں انہیں اکثر 2008ءکا واقعہ یاد کراتا تھا اور وہ ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے تھے”یہ ہمارے غرور کانتیجہ ہے“ وہ سمجھ دار انسان تھے‘ سیلف میڈ تھے‘ اندرون لاہور کی گلیوں میں دھکے کھا کر اوپر آئے تھے‘ آپ اندرون شہرجائیں تو آپ کو گائیڈ وہ دکان ضرور دکھائیں گے جس میں ان کے والد پکوڑے سموسے بیچتے تھے‘ جہانگیر بدر نے کبھی اپنے اس ماضی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی‘ وہ ہمیشہ خود کو مزدور کا بیٹا کہتے تھے‘ وہ پوری زندگی بے نظیر بھٹو کے بھائی رہے‘ پارٹی میں جنم لیا اور پارٹی ہی میں فوت ہوئے‘ پارٹی پر بے شمار مشکل وقت آئے اور ان مشکل اوقات میں فیصل صالح حیات جیسے بے شمار رانجھے پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن بدر صاحب مورچے میں ڈٹے رہے‘ وہ دائیں بائیں نہ ہوئے‘ وہ زندگی کے تمام جھٹکے برداشت کر گئے لیکن جب آصف علی زرداری نے فیصل صالح حیات کو حکومت میں شامل کر لیا تو وہ بکھر گئے‘ وہ یہ جھٹکا برداشت نہ کر سکے‘ وہ سمجھ دار تھے‘ وہ منہ سے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن ان کے چہرے کے تاثرات ‘ آنکھوں کی اداسی اور باڈی لینگویج سب کچھ بتا دیتی تھی‘

وہ اکثر فیصل صالح حیات کو عقل مند اور خود کو بے وقوف کہتے تھے‘ وہ کہتے تھے فیصل صالح حیات اِدھر تھے تب بھی کامیاب تھے‘وہ اُدھر گئے تب بھی کامیاب رہے اور یہ اِدھر واپس آ گئے تو بھی کامیاب ہیں جبکہ ہم اِدھر ہی رہے اور ہر دور میں ناکام رہے‘ وہ بے نظیر بھٹو کو کثرت سے یاد کرتے تھے اور جب بھی یاد کرتے تھے ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے‘ قیادت کی سردمہری انہیں اندر ہی اندر کھا رہی تھی‘ میں نے ان سے ایک دن پوچھا ”آپ آصف علی زرداری سے اکیلے میں کیوں نہیں ملتے“ وہ بولے ”مجھ میں اب بے عزتی کی ہمت نہیں رہی“ میں خاموش ہو گیا‘ وہ بلاول بھٹو سے بہت پرامید تھے لیکن ان کا خیال تھا بلاول کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے‘ بلاول جب تک یہ بوجھ نہیں اتاریں گے یہ کھل کر دوڑ نہیں سکیں گے۔

میں اتوار کی رات کتاب پڑھ رہا تھا‘ ٹیلی ویژن کی آواز بند تھی‘ میں نے اچانک سکرین پر جہانگیر بدر کے انتقال کی خبر دیکھی‘ میں نے کتاب بند کر دی اور اداسی سے ٹیلی ویژن کو دیکھنے لگا‘ مجھے نہ جانے کیوں 2008 ءکا واقعہ یاد آ گیا اور مجھے اس کے بعد زندگی کی بے ثباتی نے گھیر لیا‘ ہم کیا ہیں‘ صابن کا بلبلہ‘ ہمیں واقعات کی ہوائیں گدگداتی رہتی ہیں‘ ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں‘ ہم بڑے ہونے کے اس عمل میں خود کو سٹیل کا بت سمجھ لیتے ہیں‘ ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں ہم دنیا میں دائمی ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے ہم یہ تک بھول جاتے تھے یہ دنیا اگر بے نظیر بھٹو کی نہیں ہوئی تو یہ آصف علی زرداری کی کیسے رہے گی‘ ہوا میں ذرا سی تیزی آئے گی اور ہم بھی بلبلے کی طرح پھٹ کر ہوا میں گم ہو جائیںگے ‘ہم بھی ہوا میں ہوا بن جائیں گے‘ کاش ہم دائیں بائیں دیکھتے وقت ایک لمحے کےلئے یہ سوچ لیں کبھی اس دنیا میں فرعون بھی تھے تو شاید ہماری گردن کا سریہ چند انچ نیچے آ جائے‘ ہم بھی زندگی کی حقیقتوں کو جان لیں‘ کاش۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…