جاوید چودھری
مسلم دنیا کا المیہ کیا ہے؟ یہ ہم مسلمانوں کیلئے آج کا سب سے بڑا سوال ہے اور اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں تھوڑی سی ڈیٹیل میں جانا پڑے گا‘ فوزیہ علی آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کی ملازم ہے‘ یہ کینیا میں پیدا ہوئی اور آج کل صومالیہ میں کام کر رہی ہے‘ یہ ’’ ہاف کاسٹ‘‘ ہے یعنی اس کا والد سیاہ فام اور والدہ سفید تھی لہٰذا یہ سفیدی اور سیاہی کا خوبصورت امتزاج ہے‘ فوزیہ الحمد اللہ مسلمان ہے اور یہ ٹیورن کے کورس میں ہماری ساتھی تھی‘ انٹرنیشنل ٹریننگ سنٹر کے اس کورس میں 16 مسلمان تھے لیکن فوزیہ علی ان میں واحد خاتون تھی جو اسلام کے اصولوں پر مکمل طور پرکاربند تھی‘ یہ پورا لباس پہن کر آتی تھی‘ سر پر حجاب لیتی تھی‘ بلاوجہ گفتگو نہیں کرتی تھی اور نماز کی پابندی کرتی تھی لیکن ان تمام تر اسلامی احتیاط کے باوجود میں نے اس میں ایک عجیب عادت دیکھی‘ وہ جب بھی شاپنگ یا سیر کیلئے باہر جانے لگتی تھی تو وہ ہمیشہ غیر مسلم لڑکوں یا حضرات کے گروپ کا انتخاب کرتی تھی‘ وہ ہفتہ بھر کے کورس کے دوران کبھی کسی مسلمان لڑکے کے ساتھ سنٹر سے باہر نہیں گئی‘ میں نے ایک دن اس کی وجہ پوچھی تو وہ ہنس کر ٹال گئی لیکن جب میں نے اصرار کیا تو اس نے ایک ایسا جواب دیا جس میں اسلامی دنیا کے تمام المیے دفن ہیں‘ فوزیہ علی کا جواب تھا ’’ میں غیر مسلموں میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہوں‘‘ میں نے وضاحت چاہی تو وہ بولی ’’ میں جانتی ہوں کوئی غیر مسلم میری اجازت کے بغیر میری طرف دیکھنے تک کی جرأت نہیں کرے گا جبکہ میرا مسلمان بھائی میرے اکیلے پن کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا‘‘ فوزیہ علی کا جواب تلخ ضرور تھا لیکن حقیقت پر مبنی تھا‘ ہم مسلمان اخلاقی طور پراس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری اپنی بہو ‘ بیٹیاں اور بہنیں ہم پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ ہماری اسلامی دنیا میں کیا کیا گھناؤنے جرائم نہیں ہوتے‘ 11 جولائی 2009ء کو کراچی میں کیا ہوا‘ ساڑھے تین سال کی بچی ثناء کو کس طرح درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا‘ یہ اس نوعیت کا پہلا جرم نہیں‘ پاکستان میں ہر دوسرے روز اس قسم کا کوئی نہ کوئی
واقعہ پیش آتا ہے اور ہمارے چہرے پر دنیا بھر کی کالک مل جاتا ہے‘ لاہور میں 8اگست 2009ء کوپانچ سال کی بچی ماہم مٹھائی لینے کیلئے گئی لیکن 8 گھنٹوں بعد شہر کے پوش علاقے سے اس کی نعش ملی‘ اس بچی کو بھی درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا‘ اسی طرح 25 اپریل 2009ء کو کراچی میں ایک سات سالہ بچی کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیاتھا جبکہ اس مقابلے میں پورے یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور غیر مسلم مشرق بعید میں دس دس سال تک اس نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتاوہاں خواتین رات رات بھر نیم برہنہ حالت میں گلیوں میں پھرتی رہتی ہیں‘ ویک اینڈ پرلڑکیاں شراب پی کر کلبوں میں ناچتی رہتی ہیں لیکن نشے کی انتہا تک پہنچ کر بھی کسی لڑکے کو کسی لڑکی کو چھونے کی جرأت نہیں ہوتی‘ عورتیں راتوں کو پورے یورپ میں سفر کرتی ہیں اور کسی کے ساتھ زیادتی یا چھیڑ چھاڑ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا لیکن کیا ہم اس کے مقابلے میں 58 یا 62 اسلامی ملکوں میں ایسی توقع کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہماری خواتین دن کی روشنی میں پردے میں باہر نکلتی ہیں اور غیر محفوظ ہوتی ہیں اور ہم انہیں اسلامی ملکوں میں اپنے گھر میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔
میں اپنے دوستوں کو جب بھی اسلام کے سنہرے دنوں کی باتیں سناتا ہوں تو یہ لوگ ہنس کر جواب دیتے ہیں تم تہذیبی نرگسیت کا شکار ہو‘ تمہارا تعلق مسلمانوں کے اس گروہ کے ساتھ ہے جس کی سوچ نو سو عیسوی پر پہنچ کر رک گئی تھی اور جس نے کبھی زندگی‘ معاشرے اور تہذیب کو خلافت راشدہ یا اندلس کی مسلم ریاست سے باہر رکھ کر نہیں دیکھا‘ میں بعض اوقات اپنے دوستوں سے اتفاق بھی کرتا ہوں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہم لوگ تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں‘ ہم بل گیٹس کا تقابل 510 ہجری کے شام کے تاجروں کے ساتھ کرتے ہیں اور ابن رشد کو آئین سٹائن کا روحانی استاد ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے حال اور مستقبل کی تشکیل کیلئے ماضی ضروری ہوتا ہے کیونکہ شاندار ماضی ہمیں ہماری نالائقیوں اور بے وقوفیوں کا احساس دلاتا ہے‘ یہ ہمیں بتاتا ہے تم کیا تھے اور اب تم کیا بن گئے ہو اور اگر تم ماضی کی تابناک روایات کی طرف واپس نہ گئے تو تمہاراکیا حشر ہو گا؟ لہٰذا یہ نرگسیت نہیں حقیقت ہے کیونکہ اسلامی
دنیا پرکبھی ایسا وقت بھی تھا جب غیر مسلموں کی خواتین تو بڑی بات بھیڑ بکریاں تک اسلامی سلطنت میں خود کو محفوظ محسوس کرتی تھیں‘ تجارتی قافلے جوں ہی یورپ سے اسلامی سلطنت میں داخل ہوتے تھے تویہ اپنے مال‘ جان اور آبرو کے خوف سے آزاد ہو جاتے تھے‘ مسلمانوں کی کریڈیبلٹی کا یہ عالم تھا کہ ہسپانیہ کا عیسائی بادشاہ اپنے وزیر کی نوجوان بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو وہ مدد کیلئے موسیٰ بن نصیر کو درخواست کرتا ہے اور موسیٰ بن نصیر اپنے غلام طارق بن زیاد کو سپین روانہ کر دیتا ہے اور وہ چند ہزار لوگوں کے ساتھ سپین پہنچ جاتا ہے‘ طارق بن زیاد کا یہ جذبہ آج بھی برننگ ڈیزائر (آتشی خواہش) کے نام سے انگریزی کا محاورہ ہے چنانچہ یہ محض تہذیبی نرگسیت نہیں ‘ یہ اسلامی دنیا کی فراموش کردہ حقیقت ہے‘ ہم اکثر کہتے ہیں علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے‘ میں ہمیشہ اس فقرے کو ادھورا سمجھتا ہوں کیونکہ میرا خیال ہے صرف علم ہماری کھوئی ہوئی میراث نہیں بلکہ کریڈیبلٹی‘ ایمانداری‘ صاف گوئی‘صفائی‘ انصاف‘ ٹیکنالوجی‘ کاروبار‘ امن‘ محبت اور ویلفیئر بھی مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے‘ حاملہ خواتین کیلئے وظیفہ ہو‘ دودھ پیتے بچوں کیلئے وظیفہ ہو یالازمی اور مفت تعلیم‘ شہر‘ قصبوں اور دیہات میں سٹریٹ لائیٹس‘ واٹر سپلائی‘ سڑکوں کی تعمیر‘ بازار‘ منڈیاں اور شاپنگ پلیس‘ دنیا کے پہلے باقاعدہ تجارتی ضابطے‘ یونیورسٹی‘ رصد گاہیں‘ آزاد اور خود مختار عدلیہ‘ خواتین کے حقوق‘ غیر مسلموں کو عبادت اور اپنی تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت‘ دنیا کی پہلی منجنیق‘ پہلی نیوی‘ پہلی ریگولر آرمی‘ پولیس کا پہلا دستہ‘ پہلا ڈاک خانہ‘ خواتین کے پہلے تعلیمی ادارے‘ جانوروں کیلئے پہلا شفاخانہ‘ گلیوں اور محلوں کی صفائی کیلئے سینی ٹیشن کا پہلا نظام‘ دنیا کی پہلی پبلک لائبریری‘ سائنس دانوں اور علماء کیلئے وظائف کی پہلی سکیم‘ پہلی پبلک ٹرانسپورٹ‘ خواتین کیلئے پہلا بازار‘ معذوروں کی خدمت کا پہلا ڈیپارٹمنٹ‘ دنیا کا پہلا پاگل خانہ‘ یتیموں‘ بیواؤں اور مسکینوں کی مدد کا پہلا ادارہ یا پھر سرکاری خرچ پر لاوارثوں کی تدفین کی پہلی سکیم ہو یہ کس نے شروع کی تھی؟ آپ کو حیرت ہو گی یہ ساری سکیمیں‘ یہ سارے ادارے‘ یہ سارے ڈیپارٹمنٹس اور یہ ساری
معاشرتی روایات مومنوں کی کھوئی ہوئی میراث ہیں۔ دنیا کا پہلا ہسپتال اور اس ہسپتال میں مفت علاج کی روایت بھی ہم مسلمانوں نے شروع کی تھی اور اونٹوں‘ گدھوں اور خچروں کے حقوق بھی ہم نے ہی طے کئے تھے اور دنیا کی پہلی واکنگ سٹریٹ‘ دنیا کا پہلا پبلک پارک اور ملازمین کیلئے دنیا کا پہلا کوڈ آف کنڈکٹ بھی ہم نے تشکیل دیا تھا لیکن پھر ہماری یہ میراث وقت کی گرد میں کھو گئی اور ہم وہاں پہنچ گئے جہاں کبھی ہمارے دشمن ہوتے تھے اور ہمارے دشمن وہاں آ گئے جہاں کبھی ہم ہوتے تھے چنانچہ آج ہم نے تعلیم حاصل کرنی ہو‘ علاج کرانا ہو‘ شاپنگ کرنا ہو حتیٰ کہ ہم نے امن کے ساتھ زندگی گزارنی ہو تو ہم مکہ ‘ مدینہ اور قم کی بجائے کیلی فورنیا‘ واشنگٹن‘ نیویارک‘ لندن‘ پیرس‘ فرینکفرٹ اور ٹوکیو جاتے ہیں‘ ہم اور ہماری بچیاں مسجدوں میں محفوظ نہیں ہیں لیکن یہ لندن‘ پیرس اور واشنگٹن میں آزادانہ گھوم سکتی ہیں‘ روم کی سڑک‘ لندن کی پکاڈلی سرکس اور نیویارک کی موٹروے پر کوئی غیر مسلم صدر‘ وزیراعظم اور آرمی چیف زیادہ سپیڈ میں گاڑی چلانے کا رسک نہیں لے سکتا جبکہ اسلامی دنیا میں بڑے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ملازمین بھی بڑے بڑے قانون توڑ دیتے ہیں اور کوئی ان کی طرف آنکھ تک اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ یورپ کے بادشاہ‘ صدر اور وزیراعظم اپنے لان کی گھاس خود کاٹتے ہیں جبکہ اسلامی دنیا کے حکمرانوں نے جرابیں پہنانے کیلئے بھی ملازم رکھے ہوئے ہیں‘ ہمارے خانہ کعبہ میں طواف کے دوران لوگوں کی جیبیں کٹ جاتی ہیں‘ لوگ احرام باندھ کر دوسرے مسلمان بھائیوں کے بیگ چوری کر لیتے ہیں اور احراموں میں ہیروئن چھپا کر سعودی عرب لے جاتے ہیں‘ پوری اسلامی دنیا میں خواتین اور بچوں پر تشدد ہوتا ہے‘ ہماری مسجدوں کے استنجا خانوں کے قریب سے گزرنا محال ہوتا ہے‘ پوری اسلامی دنیا میں خالص دوا نہیں ملتی‘ ہم لوگ آب زم زم میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتے‘ ہم جنازوں کے دوران دوسروں کی جیبیں کاٹ لیتے ہیں اور ہماری تعلیمی حالت یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں بین الاقوامی معیار کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں‘ ہم غلاف کعبہ کیلئے دھاگہ اور رنگ بھی یہودی کمپنیوں سے خریدتے ہیں‘ ہمارے لئے تسبیحاں اور جائے نماز چین بناتا ہے اور ہم نمازوں کے اوقات تک طے کرنے کیلئے یہودیوں کے تشکیل کردہ نظاموں کے محتاج ہیں۔
یہ کیا ہے؟ یہ ہماری کھوئی ہوئی میراث ہیں‘ اسلام نے ہمیں برداشت‘ رواداری‘ کرٹسی‘ تحمل اور شائستگی بھی دی تھی لیکن ہم نے یہ میراث بھی کھو دی چنانچہ آج پاکستان جیسے اسلامی ملک میں غیر مسلم شہریوں کو جلایا جا رہا ہے اور شیعہ سنی ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں‘ آج مسلمان مسلمان پر خودکش حملے کر رہا ہے‘ مسجدوں اور قبرستانوں میں بم دھماکے ہو رہے ہیں‘ آج دنیا کا ہر اسلامی ملک غیر محفوظ اور بے امن ہو چکا ہے اور دنیا کا کوئی مہذب شخص کسی مسلمان ملک میں پاؤں تک رکھنے کیلئے تیار نہیں ہے‘ ہم علم سے لے کر انصاف تک دنیا کی بدترین قوم ثابت ہو رہے ہیں‘ یہ ہماری وہ کھوئی ہوئی میراثیں ہیں جو جب تک ہمیں واپس نہیں ملیں گی ہم اس وقت تک اقوام عالم کی دہلیز پر گداگری کرتے رہیں گے۔