قبر کھلی تھی‘ میں چلتے چلتے رک گیا اور اندر جھانکنے لگا‘ اندر کا منظرانتہائی وحشت ناک تھا‘ کفن کو دیمک چاٹ گئی تھی ‘ گوشت کو کیڑے کھا گئے جبکہ ہڈیاں آدھی آدھی مٹی میں دفن تھیں۔ میں نے گورکن کی تلاش میں نظر دوڑائی‘ دور بیری کے نیچے چارپائی تھی اور چارپائی پر بوڑھا گورکن حقہ پی رہاتھا۔ میں اس کے پاس چلا گیا اور قبر کی خستہ حالی کا شکوہ کیا‘ اس نے سر ہلایا‘ اپنی پگڑی کی گرہیں کھولیں‘ پگڑی دوبارہ باندھی اور کپکپاتی آواز میں بولا ’’جناب قبر کی سلیں ٹوٹ گئی ہیں‘ ہم مٹی ڈالتے رہتے ہیں لیکن بارش ہوتی ہے توقبر دوبارہ کھل جاتی ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’تم قبر پر سلیں کیوں نہیں ڈال دیتے‘‘ بوڑھے نے حقے کا لمبا کش لیا اور مزدوروں کی عاجزی سے بولا ’’قبر کے لواحقین نہیں ہیں‘ سلیں مول ملتی ہیں‘ میں کہاں سے خرید کر لاؤں گا‘‘ میں نے پوچھا ’’لواحقین کہاں چلے گئے‘‘ بوڑھے نے گنوار عورتوں کی طرح ہوا میں ہاتھ نچایا اور کھوئے ہوئے انداز میں بولا ’’پتہ نہیں‘ پچھلے تیس سال سے اس قبر پر کوئی نہیں آیا‘‘ میں نے پوچھا ’’اور تیس سال پہلے‘‘ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھا‘ سوچنے والی شکل بنائی اور بولا ’’مجھے تیس سال پہلے کا علم نہیں کیونکہ میں یہاں تیس سال پہلے آیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’سلیں کتنے کی آتی ہیں‘‘ اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور تھوڑا سا سوچ کر بولا ’’میں سلوں‘ قبر کی مرمت اور ایک سال تک مٹی ڈالنے کے بارہ سو روپے لوں گا‘‘ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ پندرہ سو روپے نکالے‘ اس کے ہاتھ میں پکڑائے اور اس سے کہا ’’تم آج ہی اس قبر کی مرمت کر دو‘‘ اس نے نوٹ فوراً مٹھی میں دبا لئے اور میری طرف دیکھ کر بولا ’’آپ کی اس مردے کے ساتھ کوئی عزیزداری ہے‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور اس سے کہا ’’ہاں ہر قبر اور ہر قبر کا مردہ تمام زندہ لوگوں کا عزیز ہوتا ہے‘‘ اس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا لیکن میں قبرستان سے باہر آ گیا۔
میں جوں جوں قبرستان سے دور ہوتا جا رہا تھا مجھے پمپمئی کے آثار قدیمہ یاد آر ہے تھے۔ پمپمئی نیپلز کے قریب حضرت داؤدؑ کے دور کا جدید ترین شہر تھا‘ یہ شہر سمندر کے کنارے آباد تھا اور اپنے دور کی جنت کہلاتا تھا۔ میں 2005ء میں پمپمئی گیا اور اس کے آثار میں پانی کے تالاب‘ کلب‘ بیکریاں‘ سڑکیں‘ واٹر سپلائی کی سکیم‘ لائبریری‘ کمیونٹی سنٹر‘ ہسپتال‘ گھوڑے باندھنے کے پارکنگ ایریاز‘ دو منزلہ مکان اور مکانوں کے پیچھے چھوٹے چھوٹے لان اورلانوں میں فوارے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پمپمئی شہر کی تمام گلیوں میں گھوڑوں کو پانی پلانے کیلئے چھوٹے چھوٹے ’’پانڈ‘‘ تھے اور یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں زبیرا کراسنگ شروع ہوئی تھی‘ جس میں کریم کیک ایجاد ہوا تھا اورجس میں اجتماعی غسل خانوں کے تصورنے جنم لیا تھا‘ یہ میلوں تک پھیلا شہر تھا جس میں ہم ’’جنس پرستی‘‘ کی اجازت تھی لیکن پھر سن 87ء میں آتش فشاں پھٹا اور یہ پورا شہرلاوے میں دفن ہو گیا۔ میں جب پمپمئی کی سیڑھیاں اتر رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا قدرت قدیم تہذیبوں کے آثارکیوں ظاہر کرتی ہے؟ موہنجودڑو ہو‘ ہڑپہ ہو‘ ٹیکسلا ہو‘ اہرام مصر ہوں‘ ڈیلفی کا مندر ہو‘ اولمپک سٹی ہو‘ روم کے قدیم شہر کے آثار ہوں یا پھر الور کے غار ہوں قدرت ہزاروں‘ لاکھوں برس پرانی بستیاں کیوں ظاہر کر دیتی ہے؟ ہمیں زمین سے دس ہزار‘ 20لاکھ سال پرانی نعشیں کیوں ملتی ہیں‘ ہمیں ڈائنو سارس کے ڈھانچے کیوں ملتے ہیں اور ہمیں پہاڑوں کے غار میں اجنبی اور ناقابل فہم تحریریں کیوں ملتی ہیں؟ میں بچپن سے یہ سوال کتابوں میں کھوج رہا تھا لیکن اس کا جواب مجھے پمپمئی کی سیڑھیاں اترتے ہوئے ملا‘ مجھے پمپمئی کی اجڑی گلیوں نے بتایا یہ آثار قدرت کی عبرت گاہیں ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان ٹوٹی پھوٹی گلیوں‘ گری چھتوں‘ اجڑے گھروں اور بے گور نعشوں کے ذریعے زندہ انسانوں کو سمجھاتی ہے یہ دنیا عارضی ہے‘ ان گلیوں‘ ان گھروں‘ ان مکانوں‘ ان پوشاکوں‘ ان زیوروں‘ ان بینکوں‘ ان اکاؤنٹوں اور ان کسرتی جسموں کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ تنور کے کنارے رکھے موم کے پتلے ہیں جنہیں پگھلتے دیر نہیں لگتی۔ آپ غور کیجئے انسان کا سارا جسم قبر میں فنا ہوجاتا ہے لیکن اس کی ہڈیاں سینکڑوں ہزاروں سال تک باقی رہتی ہیں کیوں؟
کیونکہ یہ بے نام اور بے شناخت ہڈیاں دیکھ کرزندہ انسان عبرت پکڑ سکیں۔ یہ جان سکیں ان پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب ان کی شناخت‘ ان کے تمام شناختی نشان‘ ان کا چہرہ مہرہ‘ ان کی حرکات و سکنات‘ ان کا تکبر‘ ان کاغرور سب کچھ مٹی لے جائے گی اور باقی صرف ہڈیاں بچ جائیں گی اور اللہ کی ذات کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت اسے ان ہڈیوں سے شناخت نہیں کر سکے گی۔ قدرت اینٹوں اور گارے کی گلیوں اور انسان کی ہڈیوں کو اس لئے محفوظ رکھتی ہے کہ آنے والے لوگ قدرت سے یہ شکوہ نہ کر سکیں کہ تم نے ہمیں ہدایت کا موقع فراہم نہیں کیا تھالہٰذا یہ کھنڈر اور یہ کھلی ہوئی قبریں آسمانی کتابوں کی عملی تفسیرہیں اور ہم ان تفسیروں کا نوٹس لئے بغیر ان کے قریب سے گزر جاتے ہیں۔ میں جوں جوں قبرستان سے دور ہو رہا تھا میں سوچ رہا تھااس قبر کا مالک بھی ہزاروں‘ لاکھوں روپے کا مالک ہوتا ہو گا لیکن آج اس کی ہڈیاں مٹی کی چند مٹھیوں کیلئے دوسروں کی محتاج تھی‘ آج اس کی ہڈیوں کو بارہ سو روپے کی خیرات دینے کیلئے کوئی شخص موجود نہیں۔ یہ ہے ہمارے تکبر‘ ہمارے فخر‘ ہماری ذہانت اور ہماری چالاکی کی اوقات۔
قدرت صرف مکانوں اور ہڈیوں کو عبرت نہیں بناتی‘ ہماری گردوپیش میں قدرت کی سینکڑوں ہزاروں زندہ تفسیریں بھی موجود ہوتی ہیں‘ آپ انٹرنیٹ پر جا کر دیکھیں‘ آپ کو کمپیوٹر سکرین پر پرویز مشرف جیسے سینکڑوں سابق بادشاہ‘ سابق صدور‘ سابق وزیر اعظم اور سابق حکمران ملیں گے اور آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کل کے فرعون آج دو وقت کی روٹی اور زندگی کی پناہ کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ میں نے پچھلے دنوں صدر پرویز مشرف کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا‘ پرویز مشرف اس کلپ میں استاد حامد علی خان کی سنگت میں ’’سیاں نظر توسے لگی رے‘‘ گا رہے تھے اور ان کے’’یوسف رضا گیلانی‘‘ شوکت عزیز دھیمی سروں میں گنگنا رہے تھے۔ گانا گانا بری بات نہیں لیکن روم کو آگ لگا کر‘ عدلیہ کے ججوں کو گرفتار کر کے اور لال مسجد پر فاسفورس کے بم گرا کر گانا جرم ہے۔ میں نے استاد حامد علی خان کی سنگت میں گاتے پرویز مشرف کا یہ کلپ بھی دیکھا اور 14اگست کو اس پرویز مشرف کو برطانیہ کو خوش کرنے کیلئے گوجرہ میں مرنے والے عیسائی باشندوں کیلئے ’’کلمہ حق‘‘ کہتے بھی سنا اورحیران رہ گیا یہ وہی مشرف تھا جس کی محفل میں عبداللہ یوسف دیوانہ وار ناچتا تھا۔ میں نے آج ہی خبر پڑھی‘ پاکستان مسلم لیگ ق کے متنازعہ سربراہ چودھری شجاعت حسین اور غیر متنازعہ سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید کوئٹہ کے دورے پر گئے اور
پاکستان مسلم لیگ ق کا کوئی رکن ان کے استقبال کیلئے ائر پورٹ آیا‘ نہ ہی کسی نے ان سے ملاقات کی اور نہ ہی کوئی انہیں رخصت کرنے کیلئے ائرپورٹ آیا اور یہ وہی شجاعت حسین ہیں جن کے اعزاز میں دو سال پہلے تک پورے کوئٹہ میں خیر مقدمی بینرز لگتے تھے اور لوگ انہیں کندھوں پر اٹھا کر شہر میں لاتے تھے لیکن آج یہ چودھری شجاعت حسین کھلی قبر کی نعش بن چکے ہیں اور ان کی قریبی ساتھی بھی ’’ہم خیالی‘‘ کا شکار ہو گئے ہیں۔ میں جب شیخ رشید‘ محمد علی درانی‘ وصی ظفر اور شیرافگن نیازی جیسے کرداروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے پمپمئی کے آثار اور کھلی قبر کی ہڈیاں یاد آ جاتی ہیں۔ یہ لوگ کیاتھے؟۔ یہ غرور اور تکبر کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ ان کی گردن میں دو دو فٹ کا سریا ہوتا تھا اور یہ اپنے بھائی کے ساتھ ہاتھ ملانے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے تھے لیکن آج یہ اپنی سیاسی قبر کے مجاور بن کر بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہے؟ یہ لوگ ان تمام موجودہ حکمرانوں کیلئے سامان عبرت ہیں جن کے گلے میں بھی اس وقت فرعون کی زبان نصب ہو گئی ہے‘ جن کی گردنیں ٹیڑھی ہیں‘ جو آسمان کی طرف تھوکنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے‘ جو کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں ناف ناف تک دھنس گئے ہیں‘ جنہوں نے چینی میں کروڑوں روپے بنا لئے اور جو رینٹل پاور پلانٹس میں اب کروڑوں روپے کمائیں گے‘ جنہوں نے گلف کی ایک ائر لائن تک سے تین ملین ڈالرز لے لئے تھے اور جو مستقبل میں احتساب سے بچنے کیلئے نئی قانون سازی میں بھی جتے ہوئے ہیں۔ ہم پتہ نہیں کیوں بھول جاتے ہیں ہمارا ٹھکانہ چھ بائی دو فٹ کی ایک قبر ہوتی ہے اور تیس برس بعد ہماری ننگی ہڈیوں کو ڈھانپنے کیلئے بارہ سو روپے کی خیرات درکار ہوتی ہے اور ہمارے لواحقین میں کوئی ایسا شخص نہیں بچتا جو ہماری قبر پر بارہ سو روپے خرچ کر سکے۔