” میں نے گریجوایشن کرلی‘ میرے نمبر بھی اچھے ہیں‘ آپ مجھے مشورہ دیجئے میں اب کیا کروں“ نوجوان کے چہرے پرغیر معمولی اعتماد تھا‘ میں اسے تھوڑی دیر غور سے دیکھتا رہا‘ میں اس کے بارے میں مشکوک تھا‘ ہم میڈیا کے لوگ آج کل اسی قسم کے شکوک وشبہات کا شکار ہیں‘ پاکستان میں جب سے میڈیا مقبول ہوا ہے اورلوگوں نے کالموں اور ٹیلی ویژن شوز کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا ہے اس وقت سے ضرورت مندوں نے میڈیا پرسنز کو گھیر لیا ہے‘ پولیس کا مسئلہ ہو‘ لوگوں کو عدالتوں سے انصاف نہ مل رہا ہو‘ کوئی شخص کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو یا کسی بچے کو کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہ مل رہا ہو تو وہ یونیورسٹی ‘ ہسپتال‘ عدالت یا ڈی پی او کی بجائے کالم نگاروں اور اینکروں سے رابطے شروع کردیتا ہے اور اگر کوئی ایک آدھ کالم نگار یا اینکر اس کے خط‘ ٹیلی فون یا ملاقات سے جذباتی ہو جائے تو اس کا کام بھی ہو جاتا ہے چنانچہ لوگوں نے میڈیا کو تیر بہدف نسخہ یا اپنے مسائل کا آسان حل سمجھ لیا ہے‘ ہم لوگ بھی اس اپروچ کو برا نہیں سمجھتے کیونکہ اگر چند سطروں سے کسی کا بھلا ہو سکتا ہے تو اس میں کیا ہرج ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب غلط لوگ میڈیا کے لوگوں کو غلط معاملات میں گھسیٹ لیتے ہیں‘ لوگ جھوٹ بول کر مدد حاصل کرتے ہیں اور آخر میں جب علم ہوتا ہے تولوگوں پر ہمارا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے‘ میرے ساتھ بھی بے شمار ایسی وارداتیں ہو چکی ہیں چنانچہ میں محتاط ہو گیا ہوں اور جب کوئی صاحب ملاقات کےلئے اصرار کرتے ہیں یا تشریف لے آتے ہیں تو میرا رویہ ذرا سا تفتیشی افسروںجیسا ہو جاتا ہے۔
ےہ نو جوان بھی میرا غیر متوقع ملا قاتی تھا اور میں اس کی آمد کا مقصد سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا‘نوجوان کی کہانی لوئر مڈل کلاس کے لاکھوں بچوں سے ملتی جلتی تھی‘والد بچپن میں فوت ہو گیا‘ والدہ نے سلائی کڑھائی ‘دھلائی اور لوگوں کے گھروں میں کام کرکے پڑھایا‘بچہ دل لگا کر پڑھتا رہا‘پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کر تا رہا‘میٹرک کے بعد اس نے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کےلئے ٹیوشنز پڑھائےں‘وظیفے لئے اور ہائی فرسٹ ڈویژن میں بی ایس سی کر لی وغیرہ وغیرہ‘وہ جب اپنی داستان سنا رہا تھا تو میرا خیال تھا وہ آخر میںآنکھوں میں آنسو بھر کر درخواست کرے گا ”میں گریجویشن کر چکا ہوں‘میں اب یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتا ہوںاور میرے پاس فیس اور ہاسٹل کے اخراجات کےلئے رقم نہیں ‘اگر کوئی صاحب یا ادارہ مجھے قرض حسنہ دے دے تو میں نوکری کر کے ےہ رقم لو ٹا دوں گا یا وہ کہے گا میں اب اپنی ماں کو آرام دینا چاہتا ہوں‘آپ اگر میرے لئے نوکری کا بندوبست کر دیں تومیں آپ کا احسان مند ہوں گا وغیرہ وغیرہ لیکن داستان کے آخر میں نوجوان نے ٹرن لیا اور وہ بولا” آپ مجھے مشورہ دیجئے مجھے کس مضمون میں ایم ایس سی کر نی چاہئے“میں نے پیارسے جواب دیا ”بیٹا اس کا فیصلہ تو آپ نے کرنا ہے‘آپ کو جس مضمون میں انٹرسٹ ہے آپ وہ رکھ لیجئے “نوجوان نے اس کے بعدمضامین کی فہرست میرے سامنے رکھ دی اور تمام مضامین کا ایک ایک کرکے ذکر کرنے لگا‘میں ےہ تفصیل سن کر بور ہو گیااور میں نے اسے پوائنٹ پر لانے کےلئے کہا”بیٹا اگر آپ کو تعلیمی اخراجات کا مسئلہ ہو تو میں ایسے چند اداروں کو جانتا ہوں جو ضرورت مند طالب علموں کو وظائف دیتے ہیں‘میں کوشش کروں گایہ ادارے آپ کی فیس ادا کر دیں “نوجوان نے فوراًانکار میں سر ہلا دیا اور جذباتی آوازمیں بولا ” میں نے پچھلے سال بی ایس سی کی تھی لیکن میں نے یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لیا‘ میں پورا سال ٹیوشن پڑھاتا رہا‘ میں نے ان ٹیوشنز سے فیس‘ ہاسٹل کے ڈیوز‘ کتابوں اور کپڑوں کےلئے پیسے جمع کر لئے ہیں‘ میں تعلیم کے دوران ایک آدھ ٹیوشن لے لوں گا اور اس سے میرے کھانے پینے کے اخراجات بھی نکل آئیں گے چنانچہ پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں‘ میں آپ سے صرف گائیڈ لائین لینا چاہتا ہوں “ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ تھوڑی دیر سوچا اور اس سے پوچھا ” بیٹا اگر آپ فوری طور پر کوئی نوکری کرنا چاہو تو بھی میں آپ کا بندوبست کردیتا ہوں“ نوجوان نے زور زور سے سر ہلایا اور بولا ” نہیں سر ‘میں سرے سے نوکری کے خلاف ہوں‘میں سمجھتا ہوں دنیا میں آج تک کوئی شخص نوکری سے خوش حال نہیں ہوا‘ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنا کاروبار کروں گا اور مجھے امید ہے میں دس بیس برس میں ایک خوش حال زندگی گزارنے لگوں گا“ میری حیرت انتہا کو چھونے لگی‘ میں نے اس سے پوچھا ” لیکن کاروبار کےلئے تو سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے“ نوجوان مسکرایا ” سر بڑے کاروبار کےلئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے‘ ایک چھوٹا سا ٹیوشن سینٹر بنانے‘ ایک سکول کھولنے‘ دہی بھلے یا چارٹ کا سٹال لگانے یا سافٹ ویئر بنانے کےلئے سرمایہ نہیں چاہیے‘ اس کےلئے حوصلہ‘ ہمت اور عزم چاہیے اور یہ میرے پاس بہت ہے‘ آپ بس مجھے سبجیکٹ کے معاملے میں گائیڈ کر دیجئے“ میں نے پوچھا ” آپ نے اگر نوکری نہیں کرنی تو تعلیم کیوں حاصل کر رہے ہو“ نوجوان نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا‘ اب اس کی آنکھوں میں حیرت تھی‘ وہ ناراض لہجے میں بولا ” مجھے آپ سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی‘ میں نے آپ کے خیالات سے متاثر ہو کر فیصلہ کیا تھا‘ میں تعلیم صرف علم اور وژن کےلئے حاصل کروں گا نوکری کےلئے نہیں“۔
میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ” بیٹا آپ نے یہ خود داری‘ یہ انا اور یہ وژن کس سے سیکھا“ نوجوان نے پشت کرسی کے ساتھ لگائی اور شائستہ لہجے میں بولا ” یہ میری ماں نے سکھایا تھا‘ میری ماں جوانی میں بیوہ ہوگئی تھی لیکن اس نے آج تک کسی سے مدد نہیں لی‘ آپ یقین کیجئے میری ماں نے میرے چچاﺅں اور ماموں تک سے ایک روپیہ نہیں لیا‘ یہ بچپن سے مجھے کہتی آ رہی ہے‘ بیٹا انسان جب ایک بار کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے تو پھر اس کا ہاتھ کبھی واپس نہیں آتا‘ انسان ایک بار کسی کی مدد لے لے تو پھر یہ پوری زندگی دوسروں کے آسروں پر پڑا رہتا ہے‘ میری ماں ہر رات اپنے ہاتھوں سے مجھے کھانا کھلاتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے خود داری‘ عزت نفس اور حمیت کا سبق دیتی تھی‘ وہ مجھے کہتی تھی‘ بیٹا دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں‘ ایک وہ جو دوسروں کی مدد لیتے ہیں اور دوم وہ جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں‘ تم نے دوسری قسم کا انسان بننا ہے چنانچہ میں نے جوں ہی میٹرک کیا میں نے اپنا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ‘ اس پورے کرہ ارض پر کوئی ایسا شخص نہیں جس سے میں نے مالی‘ جذباتی یا تعلیمی مدد لی ہو اور یہ وہ چیز ہے جس نے مجھے توانائی بھی دی‘ حوصلہ بھی اور یقین بھی“ میں نوجوان کی بات غور سے سنتا رہا‘ وہ بولا ” سر آپ یقین کیجئے خوداری دنیا کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے‘ یہ وہ قوت ہے جو آپ کو ہارنے نہیں دیتی‘ جو آپ کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتی اور جو آپ کو شکست کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرنے دیتی‘ یہ وہ طاقت‘ یہ وہ قوت ہے جو آپ کی امید کو کبھی بجھنے نہیں دیتی“ نوجوان نے سانس لیا اور دوبارہ بولا ” میری ماں میرے بچپن سے کہتی آ رہی ہے‘ دنیا کی تاریخ میں آج تک کوئی خود دار شخص ناکام نہیں ہوا‘ خودداری اور توکل وہ صفت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے اولیاءاور اپنے نبیوں کو دیتا تھا‘ وہ کہتی تھی‘ تم دنیا کے تمام کامیاب لوگوں کی فہرست نکال کر دیکھو تمہیں ان لوگوں میں خود داری نظر آئے گی‘ وہ کہتی تھی اللہ تعالیٰ ہاتھ پھیلانے ‘ مانگنے اور دوسروں سے مدد طلب کرنے والوں کی روزی سے برکت اٹھا لیتا ہے اور یہی وجہ ہے دنیا میں آج تک کوئی بھکاری خوش حال نہیں ہوا“وہ خاموش ہوا تو میں اپنی کرسی سے اٹھا‘ میں نے اس کا ہاتھ تھاما اور اس پر بوسا دے کر کہا ” بیٹا آپ میری طرف سے اپنی والدہ کو مبارکباد پیش کر دینا“ وہ نوجوان تھوڑی دیر بیٹھ کر رخصت ہو گیا لیکن میں دیر تک اس کی گفتگو کی خوشبو میں لپٹا رہا۔
ہم لوگ اپنی اولاد‘ اپنے بچوں کو ہمیشہ اچھے سے اچھا کپڑا‘ اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا اور بہترین سے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم دلاتے ہیں‘ ہم ان کی صحت اور صحبت کا خیال بھی رکھتے ہیں لیکن ہم انہیں کبھی خود داری اور عزت نفس کا سبق نہیں دیتے‘ ہم انہیں اپنا بوجھ خود اٹھانے کی تربیت نہیں دیتے اور یہ وہ خامی ہے جس کی وجہ سے آج ہم ایک بھکاری قوم بن چکے ہیں اور ہمارے ملک میںگندم ‘ چینی ‘ پٹرول‘ گیس اور پانی کی قلت ہو جائے تو ہم دوسری اقوام کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں‘ ہمارے مالیاتی ذخائر گرنے لگیں تو ہم کشکول لے کر امریکہ روانہ ہو جاتے ہیں ‘ ہم ” فرینڈ آف پاکستان“ کا راستہ دیکھنے لگتے ہیں‘ ہماری کوشش ہوتی ہے ہم اپنا منہ تک امداد کے صابن سے دھوئیں‘ ہماری فطرت کی اس خامی کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں خودداری‘ عزت نفس اور انا کا درس نہیں دیا‘ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھوں کو استعمال کرنے کی تربیت نہیں دی‘ میں نے سوچا کاش ہمارے سیاستدانوں ‘ ہمارے حکمرانوں کی مائیں بھی اس نوجوان کی ماں جیسی ہوتیں تو آج ہمارے ہاتھ میں کشکول نہ ہوتا‘ ہم آج بھیک کا پیالہ لے کر در در نہ گھوم رہے ہوتے آج ہم بھی ایک خود دار قوم ہوتے اور پوری دنیا ہماری خود داری کو سلام کر رہی ہوتی‘ کاش ہمارے حکمرانوں کو خوددار مائیں ملی ہوتیں۔
خود داری اور عزتِ نفس کا سبق
14
جون 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں