امجد اسلام امجد کتاب نما انسان ہیں‘ یہ ادب‘ اداکاری‘ صداکاری‘ صحافت اور بشریات کی ضحیم بائیوگرافی ہیں‘ آپ ان کے پاس بیٹھ جائیں تو وقت کو پہیے لگ جاتے ہیں‘ آپ کو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ جب خاموش ہوتے ہیں یا رخصت ہونے لگتے ہیں تو آپ کو اس وقت اچانک محسوس ہوتا ہے پانچ چھ گھنٹے گزر چکے ہیں‘ یہ ان کا کمال ہے‘ میں انسانوں کو صرف دو کیٹیگریز میں تقسیم کرتا ہوں‘ دلچسپ لوگ اور بور لوگ۔ آپ دنیا کے نیک سے نیک ترین شخص کے پاس چلے جائیں اور اگر وہ بور نکلے تو آپ اس کی نیکی سے زیادہ دیر تک لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے جبکہ آپ اس کے مقابلے میں کسی دلچسپ سلطانہ ڈاکو کی محفل میں بیٹھ جائیں تو آپ کا وہاں سے اٹھنے کو دل نہیں چاہے گا‘ یہ انسانی نفسیات کی وہ مجبوری تھی جسے ہمارے اولیاءکرام سمجھتے تھے چنانچہ وہ انسانی دلچسپی کو قائم رکھنے کےلئے خود بھی شاعری کرتے تھے‘ شاعروں کو اپنے پاس بھی بٹھاتے تھے اور انہوں نے موسیقی اور سماع کو بھی اپنی بیٹھک میں داخل ہونے کی اجازت دے دی‘ امجد صاحب دلچسپ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں‘ آپ دس سال کے بچے ہیں یا پھر 90 سال کے بزرگ آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر بور نہیں ہو تے‘ یہ ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن سے ملاقات کے بعد آپ یہ ضرور کہتے ہیں ”آپ دوبارہ کب آئیں گے“ جبکہ ہمارے اردگرد بے شمار ایسے لوگ بھی موجود ہیں آپ جن کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہتے ہیں ”آپ دوبارہ کب جائیں گے“۔
امجد اسلام امجد صاحب نے کل مہربانی فرمائی‘ یہ میرے گھر تشریف لائے اور مجھے ان کی صحبت میں اڑھائی گھنٹے گزارنے کا موقع ملا‘یہ اڑھائی گھنٹے میری زندگی کے 25 دلچسپ سالوں کے برابر ہیں‘ یہ جب رخصت ہوئے تو مجھے محسوس ہوا مرد دانا کی صحبت لائبریری کی طرح ہوتی ہے‘ آپ ہمیشہ اس سے سیکھتے ہیں‘ امجد صاحب وقت کی آٹو بائیو گرافی ہیں‘ میں نے پچھلے 20 برسوں میں ان سے بے شمار چیزیں سیکھیں‘ امجد صاحب نے کل بھی کئی نئی چیزیں سکھائیں‘یہ میرے ساتھ اپنی زندگی کے واقعات شیئر کرتے رہے مثلاً انہوں نے حبیب جالب سے اپنی آخری ملاقات کا واقعہ سنایا‘ امجد صاحب نے بتایا ”میں ایک دوست کے ساتھ حبیب جالب سے ملاقات کےلئے گیا‘ وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے‘ ہم وہاں پہنچے تو ڈاکٹر نے بتایا جالب صاحب کو بولنے میں دقت ہوتی ہے‘ آپ ان سے زیادہ گفتگو نہ کیجئے گا‘ ہم نے وعدہ کر لیا لیکن جب ہم جالب کے سامنے پہنچے تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور ہمارے ساتھ اندھا دھند گفتگو شروع کر دی‘ میں نے ان سے کہا ‘جالب صاحب آپ کو ڈاکٹروں نے گفتگو سے منع کیا ہے‘ آپ کم بولیں‘ جالب نے قہقہہ لگایا اور بولے‘ امجد صاحب میرے پاس دو قسم کے لوگ آتے ہیں‘ ایک وہ جن سے میں بات کرنا چاہتا ہوں اور دوسرے وہ جن سے میں بات نہیں کرنا چاہتا‘ میرے پاس جب میری مرضی کے لوگ آتے ہیں تو میں اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں اور اگر لوگ مجھے پسندنہیں ہیں تو میں آنکھیں بند کر کے بے ہوش ہو جاتا ہوں اور وہ شخص جب تک یہاں موجود رہتا ہے‘ میں بے ہوش رہتا ہوں‘ جالب صاحب نے اس کے بعد بتایا‘ میرے پاس کل اجمل خٹک آئے تھے‘ میں ان کی موجودگی میں ایک گھنٹہ بے ہوش رہا‘ وہ جوں ہی کمرے سے نکلے‘ میں آنکھیں کھول کر بیٹھ گیا‘ امجد صاحب کے بقول میں نے ان سے کہا‘ جالب صاحب اجمل خٹک ہمارے پرانے دوست ہیں‘ ہم نے ان کے ساتھ مل کر ماریں کھائی ہیں‘ آپ کو ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا‘ حبیب جالب نے قہقہہ لگایا اور بولے‘ امجد بھائی مجھے اے این پی کی ایک بات سمجھ نہیں آتی‘ یہ قائداعظم کو نہیں مانتے لیکن میاں نواز شریف کو مان لیتے ہیں‘ کیوں؟ امجد صاحب نے میڈم نورجہاں کی زندگی کے بے شمار واقعات بھی سنائے‘ ان کا کہنا تھا‘ نورجہاں جن لوگوں کو پسند کرتی تھیں وہ ان کے نام کے ساتھ جی ضرور لگاتی تھیں‘ وہ ایک دن مجھ سے کہنے لگیں‘ امجد جی میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کے لاکھوں روپے کھائے ہیں لیکن میں نے جس کو پسند کیا‘ میں اسے پوری زندگی کھلاتی رہی‘ میں نے اس کا ایک روپیہ نہیں کھایا‘ امجد صاحب کا کہنا تھا‘ میڈم نورجہاں فقرہ بازی کی ماہر تھیں‘ وہ سیدھا انسان کے دل پر وار کرتی تھیں‘ وہ اپنے خاوندوں کی بے وفائیوں کا شکار بھی تھیں‘ وہ بتاتی تھیں‘ میں نے سات سال کی عمر میں شدید سردی میں چار چار گھنٹے تھیٹر کے تختے پر گانا گایا‘ سردی سے میرے ہاتھ پاﺅں جم جاتے تھے‘ میں بے ہوش ہونے کے قریب پہنچ جاتی تھی لیکن میں گاتی تھی کیونکہ میرے خاندان کو پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی‘ مجھے اس مشقت کا دو روپے معاوضہ ملتا تھا‘ وہ اپنے پہلے خاوند شوکت رضوی کے بارے میں بتاتی تھیں‘ وہ میرے سامنے ایکسٹرا لڑکیوں کو کمرے میں لے جاتے تھے‘ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی‘ میں اپنی وہ انسلٹ آج تک نہیں بھول سکی‘ امجد صاحب نے دلدار پرویز بھٹی کا ذکر بڑی محبت سے کیا‘ ان کا کہنا تھا‘ وہ شاندار انسان تھے‘ درد دل سے لبریز‘ لوگوں سے محبت کرنے والے شخص‘ انہوں نے بتایا‘ ہمارے ایک ڈپٹی کمشنر دوست نے عابدہ پروین کا فنکشن کرایا‘ فنکشن کی کمپیئرنگ دلدار پرویز بھٹی کے ذمے تھی‘ ان سے 20 ہزار روپے معاوضہ طے ہوا‘ بھٹی صاحب فنکشن سے پہلے ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے‘ انہیں عابدہ پروین کے طائفے میں شامل ایک سازندہ دکھایا اور کہا‘ آپ اسے میرے معاوضے میں سے دس ہزار روپے بطور انعام دے دیں‘ ڈپٹی کمشنر نے عرض کیا‘ جناب میں آپ کو پیسے دے دیتا ہوں آپ اسے خود دے دیں‘ دلدار پرویز بھٹی مرحوم نے جواب دیا ”میں نہیں دے سکتا‘ میں اس سے ناراض ہوں“ ڈپٹی کمشنر نے وجہ پوچھی تو دلدار پرویز بھٹی بولے” یہ نشہ کرتا ہے‘ یہ سارے پیسے نشے میں برباد کر دیتا ہے‘ خاندان کے حالات خراب ہیں‘ میں اس وجہ سے اس کے ساتھ ناراض ہوں“ ڈپٹی کمشنر نے پوچھا ”آپ پھر اسے پیسے کیوں دے رہے ہیں“ بھٹی صاحب نے جواب دیا ”میں جانتا ہوں اس کی بہن کی شادی ہے‘ یہ مجبور ہے‘ یہ مجھ سے پیسے نہیں مانگے گا‘ آپ اسے اپنی طرف سے دے دیں‘ اس کے خاندان کو ریلیف مل جائے گا“ یہ واقعہ سناتے وقت امجد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ یہ صبیحہ خانم اور عابد علی کی سابق اہلیہ حمیرا کے بارے میں بتاتے ہوئے بھی جذباتی ہو گئے‘ ان کا کہنا تھا‘ مجھے ایک بار کراچی میں صبیحہ خانم کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا‘ میں نے ان سے عرض کیا‘ آپ اور سنتوش صاحب کی جوڑی کمال تھی‘ آپ نے ان کے ساتھ نبھا کر کے دکھایا‘ میں دل سے آپ کا احترام کرتا ہوں‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے یہ بات دوسری اور تیسری باری دہرائی تو وہ اداس لہجے میں بولیں ”ہاں آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن ہر شام جب سنتوش صاحب ہوش و حواس میں نہیں ہوتے تھے تو وہ مجھے میرا ماضی ضرور یاد کراتے تھے‘ وہ مجھے طوائف کی بیٹی کہتے تھے اور یہ وہ زخم ہے جو میں آج تک نہیں بھلا سکی“ اسی طرح امجد صاحب نے بتایا عابد علی کی سابق بیوی حمیرا نے ایک دن مجھ سے پوچھا ”کیا عابد شادی سے پہلے میرے ماضی سے واقف تھا‘ کیا یہ میرے پس منظر‘ میرے خاندانی کام سے آگاہ نہیں تھا‘ میں نے اس کےلئے سب کچھ چھوڑ دیا‘ میں نے شادی کے بعد کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا‘ میں نے عورت بن کر گھر میں زندگی گزارنے کی کوشش کی لیکن پھر اس نے مجھے طلاق دے دی‘ کیوں؟“ امجد صاحب کے بقول میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا‘ امجد صاحب کا کہنا تھا میں آج تک انسانی فطرت کو نہیں سمجھ سکا‘ میں حیران ہوں لوگ عورتوں کا ماضی جانتے ہوئے بھی ان کے ساتھ شادی کیسے کر لیتے ہیں اور یہ عورتیں جب اپنے آپ کو ماضی سے جدا کر لیتی ہیں‘ یہ جب گھریلو خواتین بن کر زندگی گزارنے لگتی ہیں تو مرد ان کے ماضی کو کیوں زندہ رکھتے ہیں‘ میں آج تک اپنے چند دوستوں کے رویوں پر بھی حیران ہوں‘ یہ غربت کے دور کو ہنس کر گزار گئے‘ دنیا کی کوئی تکلیف انہیں ان کے موقف سے نہ ہٹا سکی لیکن زندگی کے آخری حصے میں جب اللہ تعالیٰ نے انہیں سب کچھ دے دیا‘ یہ خوش حال زندگی گزارنے لگے تو انہوں نے ”کمپرومائز“ کر لیا‘ کیوں؟ میں حیران ہوں آپ اس وقت ڈٹے رہے جب آپ کے پاس کچھ نہیں تھا اور آپ اس وقت لیٹ گئے جب آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا سب کچھ تھا‘ کیوں؟ امجد صاحب کا کہنا تھا‘ میری زندگی کا نچوڑ ہے ”جو رب سے نہیں مانگتا وہ سب سے مانگتا ہے“ ہمیں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے‘ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے زیادہ دینے والا کوئی نہیں‘ دنیا کا کوئی شخص اس کی ہمسری نہیں کر سکتا‘ میں جب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات کی بجائے ان لوگوں کے قدموں میں جھکے دیکھتا ہوں جو ہم سے زیادہ محتاج ہیں تو مجھے عجیب لگتا ہے‘ میں توبہ پر مجبور ہو جاتا ہوں۔
امجد اسلام امجد نے رخصت ہوتے وقت بڑے دکھ سے کہا ”میں جب آپ کے گھر کی طرف آ رہا تھا تو مجھے احمد فراز روڈ کا بورڈ نظر آیا‘ احمد فراز بلاشبہ عظیم انسان اور شاندار شاعر تھے‘ لوگ دہائیوں تک ان کا متبادل تلاش کرتے رہیں گے‘ یہ اس سے بڑے سلوک کے مستحق تھے لیکن افسوس کا مقام ہے اسلام آباد وفاقی دارالحکومت ہے‘ اس وفاقی دارالحکومت میں احمد فراز روڈ موجود ہے لیکن احمد ندیم قاسمی سے کوئی سڑک منسوب نہیں‘ کیا یہ زیادتی نہیں؟ احمد ندیم قاسمی احمد فراز سمیت ہم سب کے استاد تھے‘ وہ نہ ہوتے تو شاید ہم لوگ بھی نہ ہوتے لہٰذا حکومت کو فوری طور پر اسلام آباد کی کسی مرکزی شاہراہ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کے نام منسوب کرنا چاہیے‘ یہ قاسمی صاحب جیسے عظیم انسان کےلئے ہمارا کم ترین نذرانہ ہو گا‘ امجد اسلام امجد کی یہ بات میرے دل پر لگی‘ ہمارے دوست پرویز رشید اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر ہیں‘ عطاءالحق قاسمی چیئرمین پی ٹی وی ہیں‘ یہ میاں نواز شریف کے دوستوں کی فہرست میں بھی شامل ہیں جبکہ عرفان صدیقی وزیراعظم کے مشیر ہیں‘ یہ تینوں حضرات احمد ندیم قاسمی صاحب کے نیاز مندوں میں شمار ہوتے ہیں‘ احمد ندیم قاسمی عطاءالحق قاسمی کے نہ صرف استاد تھے بلکہ محسن بھی تھے چنانچہ میری تینوں حضرات سے درخواست ہے‘ آپ مہربانی فرما کر اسلام آباد کی کوئی ایک سڑک ادیبوں کے ادیب اور شاعروں کے شاعر احمد ندیم قاسمی سے منسوب کر دیں‘ یہ ہمارافرض ہے اور قاسمی صاحب کا حق اور جو معاشرہ دانشوروں کو ان کا حق نہیں دیتا اس معاشرے سے دانش روٹھ جاتی ہے‘ ہمیں دانش کے روٹھنے سے پہلے پہلے احمد ندیم قاسمی صاحب کو ان کا حق دے دینا چاہیے۔
احمد ندیم قاسمی روڈ
7
جون 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں