ہم اب آتے ہیں ”کیوں“ کی طرف‘ دنیا کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری میں فوجی اور مذہبی ریاستیں کامیاب کیوں نہیں ہوئیں‘ وجہ کیا ہے‘ وجہ ”گرے ایریا“ ہے‘ فوج اور مذہب دونوں میں ”گرے ایریاز“ نہیں ہوتے‘ فوجی انسانوں کو صرف دو حصوں میں تقسیم کرتے ہےں‘ دوست یا دشمن‘ یہ ساتھ کھڑے لوگوں کو دوست سمجھتے ہےں اور سامنے موجود لوگوں کو دشمن۔ فوجی کی زندگی مرنا یا مارنا ہوتی ہے اور ریاستیں اس رویئے سے نہیں چل سکتیں‘ ریاستیں گرے ایریا میں رہتی ہیں‘ یہ انسانوں کو صرف انسان سمجھتی ہیں‘ یہ اچھے انسانوں سے مزید اچھائی کی توقع رکھتی ہیں اور برے انسانوں کی اصلاح کی کوشش کرتی ہیں‘ مذہب میں بھی گرے ایریا نہیں ہوتا‘ دنیا کا ہر مذہب خود کو برحق اور دوسرے مذہب کو باطل سمجھتا ہے‘ یہودی خود کو سچا اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو گمراہ سمجھتے ہیں‘ عیسائیوں کی نظر میں عیسائی ٹھیک اور باقی لوگ غلط ہیں‘ بودھ خود کو سچا اور دنیا کو جھوٹا سمجھتے ہیں‘ ہندو اپنے بتوں کو خدا اور دوسرے مذاہب کے خداﺅں کو بت سمجھتے ہیں اور مسلمان بھی اپنے مذہب کو حق اور باقی دنیا کو کافر سمجھتے ہیں‘ مذہب کی یہ تقسیم صرف یہاں تک نہیں رہتی‘ یہودیوں کے پانچ فرقے ہیں‘ یہ فرقے ایک دوسرے کو نہیں مانتے‘ عیسائیوں کی بے شمار بائبلز ہیں‘ یہ بائبل دو ہزار سال سے آپس میں ٹکرا رہی ہیں‘ عیسائی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دو فرقوں میں بھی تقسیم ہیں اور یہ دونوں فرقے چھ سو سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں‘ یورپ میں ان دونوں کے درمیان تین سو سال مسلسل جنگ رہی‘ اس میں ایک جنگ ایک سو 16 سال مسلسل چلی اور اس میں لاکھوں لوگ مارے گئے‘یہ لوگ ایک دوسرے کے چرچ کو عبادت کرتے لوگوں سمیت جلا دیتے تھے‘ ہندوﺅں کی چار کلاسیں ہیں اور یہ کلاسیں آج تک ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ نہیں ملا سکیں‘ برہمن آج بھی اچھوتوں کو اپنے مندر میں قدم نہیں رکھنے دیتے اور پیچھے رہ گئے مسلمان تو ہم چودہ سو سال سے تقسیم ہیں‘ شیعہ کا اسلام سنیوں سے مختلف ہے اور سنی شیعہ کے اسلام کو نہیں مانتے‘ شیعہ مزید قسموں میں تقسیم ہیں‘ سنی بھی بریلوی‘ اہل حدیث‘ دیوبندی اور وہابی ہیں اور یہ ایک دوسرے کی مسجد میں نماز تک نہیں پڑھتے‘ یہ لوگ چودہ سو سال سے داڑھی‘ مسواک‘ پائنچے اور پاﺅں کے درمیان فاصلے کا فیصلہ نہیں کر سکے‘ یہ احادیث اور قرآنی آیات کے مفہوم پر بھی ایک دوسرے برسر پیکار ہیںچنانچہ آپ خود فیصلہ کیجئے‘ ملک جب کسی ایک مذہب یا فرقے کو قبول کر لے گا اور وہ مذہب یا فرقہ سرکاری ہو جائے گا تو باقی مذاہب کے لوگ کہاں جائیں گے؟ ان کا کیا بنے گا؟۔
آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ سے صرف اس سوال کا جواب تلاش کیجئے گا‘ امریکا‘ یورپ‘ جاپان اور چین میں تمام مذاہب کے لوگ اطمینان سے کیوں زندگی گزار رہے ہیں‘ امریکا میں یہودی بھی ہیں‘ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک عیسائی بھی‘ بودھ بھی‘ ہندو بھی‘ سنی اور شیعہ مسلمان بھی اور کمیونسٹ بھی اور یہ تمام لوگ اطمینان سے اکٹھے زندگی گزار رہے ہیں‘ کیوں؟ اور شیعہ مسلمان سعودی عرب میں پریشان ہیں اور سنی ایران میں‘ کیوں؟ لبنان شیعہ سنی لڑائی کی وجہ سے تین بار دوزخ بنا‘ کیوں؟ عراق‘ شام اور یمن میں شیعہ سنی جنگ جاری ہے‘ کیوں؟ اسرائیل میں مسلمان اور یہودی دونوں فلسطینی خون ہیں لیکن یہ دونوں دہائیوں سے ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں‘ کیوں؟ اور افغانستان میں بھی یہ جنگ 25 سال سے چل رہی ہے‘ شمالی اتحاد کے مسلمان جنوبی اتحاد کے مسلمان کے گلے کاٹ کر شہ رگ میں پٹرول بھرتے تھے‘ آگ لگاتے تھے اور رقص بسمل دیکھتے تھے‘ کیوں؟ اور یہ بھی حقیقت ہے افغانستان کے مجاہدین کی لڑائیوں نے افغانستان کو روسیوں سے زیادہ نقصان پہنچایا اور آج بھی طالبان مسلمان حکومتی مسلمان کو قتل کرنا عبادت سمجھتے ہیں‘ کیوں؟ برما میں بودھ پجاری مسلمانوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں‘ بھارت میں ہندوﺅں کے ہاتھوں مسلمان‘ سکھ اور عیسائی کیوں قتل ہو رہے ہیں اور پاکستان میں محرم اور بارہ ربیع الاول کیوں مشکل ہوتے ہیں؟ یہ سب مذہب اور فرقے کی لڑائیاں ہیں‘ یہ ”ہمارا خدا سچا ہے اور تمہارا رب جھوٹا“ کی جنگ ہے اور اس جنگ میں تاریخ کے ہر اس دور میں ہزار گنا اضافہ ہو گیا جب کسی ریاست نے کسی ایک مذہب یا فرقے کو ”اون“ کر لیا‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ سعودی عرب اور قطر کا شام‘ یمن اور ایران کے ساتھ تنازعات کی وجہ پڑھ لیں‘ کیا یہ تنازعات فرقہ وارانہ نہیں ہیں؟ آپ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان لڑائی بھی دیکھ لیجئے‘ کیا یہ مذہب کی جنگ نہیں؟ اور آپ یہودی‘ عیسیائیوں اور مسلمانوں کے اختلافات بھی دیکھ لیجئے‘ کیا یہ تینوں ایک خدا کو نہیں مانتے لیکن یہ تینوں اس کے باوجود ہزاروں سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں‘ کیوں؟کیا یہ اپنے نبی کو دوسروں کے نبی پر فوقیت نہیں دیتے اور کیا تاریخ میں جب بھی اس فوقیت کو کسی ریاست کی طاقت مل گئی‘ملک میں خون خرابہ شروع نہیں ہوا؟ اور کیا اس خون خرابے کے آخر میں ریاست اور لوگ دونوں ختم نہیں ہوئے؟ آپ میری بات پر یقین نہ کریں‘ میں اپنی جہالت سرے عام تسلیم کرتا ہوں‘ آپ بس تاریخ کا مطالعہ کر لیں‘ آپ کو یہ سچائی سمجھ آ جائے گی۔
تاریخ کا ایک تیسرا سبق بھی ہے‘ ہمیں وہ سبق بھی سمجھنا ہو گا‘ تاریخ بتاتی ہے ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘ مذہب فرد اور معاشرے کا ہوتا ہے اور نبی اکرم نے کوئی اسلامی ریاست نہیں بنائی تھی‘ آپ نے اسلامی معاشرہ تشکیل دیا تھا‘ ریاست کےلئے سرحد‘ کرنسی‘ آئین‘ حکمران اور بیورو کریسی ضروری ہوتی ہے‘ یہ پانچوں ادارے خلفاءراشدین کے دور میں شروع ہوئے‘ اسلامی ریاست کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب صحابہؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنا حکمران تسلیم کیا‘ آپؓ کے بعد لوگ حضرت عمر فاروقؓ‘ ‘حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کو خلیفہ چنتے گئے اور ریاست بنتی چلی گئی‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا پہلا خطاب اسلامی ریاست کا پہلا باقاعدہ آئین تھا‘ آپ وہ تقریر پڑھ لیں‘ آپ کو آج دنیا کی تمام کامیاب ریاستوں کے آئین میں اس کی جھلک ملے گی‘ حضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی ریاست میں حکمرانی کا باقاعدہ ادارہ متعارف کرایا‘ آپؓ نے کرنسی بھی بنائی‘ مملکت کی سرحدیں بھی طے کیں اور بیورو کریسی بھی تشکیل دی‘ حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ نے ان اداروں کو مزید مضبوط بنایا‘ حضرت علیؓ کے بعد بنو امیہ نے ملوکیت کی بنیاد رکھی اوراس کے بعد بادشاہت سرپٹ دوڑنے لگی‘ یہ سلسلہ پہلی جنگ عظیم تک جاری رہا‘ پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلمان دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی‘ شاہی مسلم ریاستیں اور جمہوری مسلم ریاستیں‘ آپ سو سال کی تاریخ دیکھ لیجئے‘ آپ کو گزشتہ سو سال میں شاہی مسلم ریاستیں کمزور اور ختم ہوتی نظر آئیں گی اور آپ جمہوری مسلم ریاستوں کو مضبوط ہوتا دیکھیں گے‘ کیوں؟ آپ یہ فیصلہ خود کیجئے۔
ہم اب آتے ہیں اسلامی معاشرے کی طرف‘ میرا ایمان ہے اللہ اور رسول کی قائم کردہ کوئی چیز زوال پذیر نہیں ہو سکتی‘ ہمارے رسول نے چودہ سو سال پہلے جو بھی کام سرانجام دیا وہ سنت بن کر آج تک زندہ ہے‘ آپ نے جس رنگ کی دستار باندھی تھی چودہ سو سال کی سازشیں مل کر بھی اس کا رنگ پھیکا نہیں کر سکیں‘ وہ رنگ اور وہ دستار آج بھی زندہ ہے چنانچہ میرا ایمان ہے ہمارے رسول نے اگر کوئی ریاست بنائی ہوتی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس ریاست کو ختم نہیں کر سکتی تھی‘ آپ کسی دن تجزیہ کر لیجئے‘ یہودی حضرت موسیٰ ؑ کا عصا نہیں بچا سکے‘ عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کی لاش (عیسائی عقیدے کے مطابق) نہیں سنبھال سکے اور ہندو رام کی اصل جنم بھومی کا فیصلہ نہیں کر سکے لیکن ہمارے رسول کے موئے مبارک تک موجود ہیں‘آپ کی تلواریں‘ کمانیں ‘ تیر اور دندان مبارک بھی موجود ہیں چنانچہ میں کیسے مان لوں میرے رسول نے ایک ریاست بنائی ہو اور وہ ریاست آپ کے وصال کے صرف 29سال بعد ختم ہو گئی‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ میں یہ نہیں مان سکتا‘ حقیقت یہ ہے میرے رسول نے اسلامی ریاست نہیں بنائی تھی‘ آپ نے اسلامی معاشرہ بنایا تھا اور دنیا چودہ سو سال گزرنے کے باوجود تلواروں‘ کمانوں اور ایٹم بموں سے بھی وہ معاشرہ ختم نہیں کر سکی اوریہ معاشرہ ختم بھی نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس کی بنیاد ہمارے رسول نے رکھی تھی اور جس چیز کی بنیاد ہمارے رسول نے رکھ دی وہ کبھی ختم نہیں ہو سکے گی‘ آپ سوویت یونین کو لے لیں‘ یورپ اور امریکا کو لے لیجئے اور آپ اسرائیل اور بھارت کو بھی لے لیجئے‘ یہ طاقتیں سو سو سال کوششیں کرتی رہیں لیکن یہ مسلمانوں سے پردہ‘ داڑھی‘ عجز‘ گواہی‘ توبہ‘ شکر اور ظلم کے خلاف آواز جیسی روایتیں نہیں چھین سکیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اسلامی معاشرے کی وہ روایتیں ہیں جن کی بنیاد رسول اللہ ﷺ نے رکھی تھی چنانچہ مسلمان اگر ایٹم بم کی آگ میں بھی جل رہا ہو تو یہ اس وقت بھی ظلم کو ظلم ضرور کہے گا‘ یہ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہو تو بھی یہ توبہ اور شکر ضرور ادا کرے گا اور یہ مدہوشی کی آخری حد پر بھی کھڑا ہو گا تو بھی اس کی مذہبی غیرت ضرور جوش مارے گی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ بھی اسلامی معاشرے کی روایتیں ہیں چنانچہ تاریخ کا تیسرا سبق یہ ہے‘ آپ ریاست کو مسلمان بنانے کی بجائے فرد کومسلمان بنائیں‘ آپ مملکت کو اسلامی شناخت دینے کی بجائے معاشرے کو اسلامی بنائیں اور آپ ملک میں مذہبی انقلاب لانے کی بجائے انسانوں کے اندر انقلاب لائیں‘ ہم سب فلاح پا جائیں گے‘ ہم سب کامیاب ہو جائیں گے اور اسلامی معاشرہ کیا تھا‘ آپ یہ بھی سن لیجئے‘ اسلامی معاشرہ حضرت ابوسفیانؓ کا وہ گھر تھا جسے نبی اکرم نے فتح مکہ کے بعد دارالامان قرار دے دیا تھا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابئی کا وہ جنازہ تھا جس کی امامت رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی اور جب اللہ تعالیٰ نے وحی اتاری ‘آپ اگر اس شخص کےلئے 70 بار بھی مغفرت کی دعا کریں گے تو ہم اسے معاف نہیں کریں گے تو آپ نے فرمایا‘ میں اس کےلئے 70 بار سے زیادہ مرتبہ دعا کروں گا۔
تاریخ کا تیسرا سبق
31
مئی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں