صادق خان دوسری ہجرت کی پیداوار ہیں‘ پہلی ہجرت دادا نے 1947ءمیں کی‘ یہ لوگ بھارت سے کراچی آئے اور ”سیٹل منٹ“ کی کوشش شروع کر دی‘ کراچی مسائل کا گڑھ تھا‘ آبادی دو لاکھ تھی‘ رقبہ پانچ کلو میٹر تھا‘ انگریز اپنا کلچر سمیٹ کر برطانیہ چلے گئے تھے‘ اوپر سے مہاجرین کی یلغار چنانچہ شہر رہنے کے قابل نہیں تھا‘ یہ وہ حالات تھے جن کی وجہ سے صادق خان کے والد امان اللہ خان نے اپنی بیگم کو ساتھ لیا اور یہ لندن چلے گئے‘ لندن بھی اس وقت کراچی کی طرح تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا تھا‘ دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے آثار ابھی موجود تھے‘ عمارتیں‘ سڑکیں اور دفتر جنگ زدہ تھے‘ معیشت کی حالت پتلی تھی‘ نوکریاں نہ ہونے کے برابر تھیں‘ رہائش گاہوں کی قلت تھی اور شہر میں کھانے پینے کا سامان بھی نہیں ملتا تھا لیکن امان اللہ خان اور ان کی اہلیہ واپسی کے تمام راستے بند کر آئے تھے‘ یہ لندن کو اپنا سب کچھ مان چکے تھے لہٰذا یہ میدان میں کود پڑے‘ امان صاحب کو بس ڈرائیور کی نوکری مل گئی جبکہ ان کی بیگم نے کپڑے سینے شروع کر دیئے‘ ان کو جلد ہی سرکاری گھر بھی مل گیا یوں زندگی کی گاڑی چل پڑی‘ امان اللہ خان کے ہاں آٹھ بچے پیدا ہوئے‘ سات بیٹے اور ایک بیٹی‘ صادق خان ان کا پانچواں بچہ تھا‘ یہ شروع سے حساس اور ذمہ دار تھا‘ یہ بہت جلد خاندان کے مسائل سمجھ گیا‘ یہ جان گیا بس ڈرائیور کی تنخواہ میں آٹھ بچے پالنا اور ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا مشکل ہے چنانچہ یہ والدین کا ہاتھ بٹانے لگا‘ یہ خاندان ”ارل فیلڈ“ کے تین کمروں کے فلیٹ میں رہتا تھا‘ صادق خان نے اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کی‘ یہ سکول بھی جاتا تھا اور لوگوں کے گھروں میں اخبار بھی پھینکتا تھا‘ مزدوروں کے ساتھ مل کر مزدوری بھی کرتا تھا اور دکانوں پر بھی کام کرتا تھا‘ یہ ڈینٹیسٹ بننا چاہتا تھا لیکن ایک استاد نے اس کی ”کمیونی کیشن سکل“ اور دلائل کے ساتھ بات کرنے کی مہارت دیکھ کر اسے وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا‘ یہ مشورہ اس کے دل کو لگا لہٰذا یہ یونیورسٹی آف نارتھ لندن کے لاءکالج میں داخل ہوگیا‘ صادق خان نے پوری زندگی وظیفے کی رقم سے تعلیم حاصل کی‘ یہ لاءکی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گیا‘ انسانی حقوق ”ایریا آف انٹرسٹ“ تھا‘یہ نسلی امتیاز کے کیس مفت لڑتا تھا‘ صادق خان کو ان مقدمات کے دوران محسوس ہوا لندن میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے‘ یہ لندن جیسے شہر کاپوشیدہ زاویہ تھا اور اس زاویئے نے صادق خان کو بہت متاثر کیا‘ یہ اسی دوران اپنی ساتھی وکیل سعدیہ خان سے رشتہ ازدواج میں بھی بندھ گیا‘ اللہ تعالیٰ نے دو بچے بھی دے دیئے‘ لاءکی پریکٹس کے دوران یہ بھی معلوم ہوا اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا سیاست کے ساتھ تعلق ہے‘ حکومتیں جب تک مضبوط قانون نہیں بنائیں گی یہ سلسلہ جاری رہے گا چنانچہ صادق خان نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا‘ 1994ءمیں کونسلر کا الیکشن لڑا اور یہ ٹوٹنگ کے علاقے سے کونسلر منتخب ہو گئے‘ یہ 2003ءمیں لیبر پارٹی میں شامل ہوئے اور 2005ءمیں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بن ہو گئے‘ وزیراعظم گورڈن براﺅن نے انہیں 2008ءمیں کمیونٹیز کا سٹیٹ منسٹر بنا دیا‘ یہ بعد ازاں ٹرانسپورٹ کے وزیر بھی بنا دیئے گئے‘ یہ برطانیہ کی تاریخ میں پارلیمنٹ کی پہلی لائین میں بیٹھنے والے پہلے مسلمان رکن اور پہلے مسلمان وزیر تھے‘ 2010ء کے الیکشنوں میں لیبر پارٹی کو شکست ہوئی‘ کنزرویٹو پارٹی حکومت میں آئی تو لیبر پارٹی نے انہیں ”شیڈو کیبنٹ“ میں وزیر نامزد کر دیا‘ یہ رکن اسمبلی کی حیثیت سے بے شمار تنازعوں کے شکار بھی رہے‘ یہ 2013ءمیں ”گے میرج بل“ کی حمایت کرنے والے پانچ مسلمان ارکان میں شامل تھے‘ یہ حمایت انہیں فتوﺅں تک لے گئی‘ امام نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ‘ پاکستانی کمیونٹی نے بھی ان کا بائیکاٹ کر دیا‘ یہ عراق جنگ کے بھی مخالف تھے‘ یہ اس مخالفت کی وجہ سے طویل عرصے برطانوی میڈیا کا ہدف رہے‘ یہ ”نیشن آف اسلام“ نامی تنظیم پر پابندی کے بھی خلاف تھے‘ یہ اختلاف بھی برطانوی میڈیا کو پسند نہ آیا چنانچہ انہیں شدت پسندوں کا دوست قرار دے دیا گیا‘ صادق خان نے 2005ءمیں 90 دن کی ”پری ٹرائل“ قید کی شدید مخالفت کی‘ یہ ان کی مخالفت تھی جس کے نتیجے میں یہ مدت 90 سے 42 دن ہوگئی اور میڈیامخالفت کے باوجود ان کی خدمات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا۔
صادق خان نے 2015ءمیں لندن کے میئر کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا‘ یہ فیصلہ ”احمقانہ“ تھا‘ کیوں؟ کیونکہ لندن دنیا کے تین بڑے اور اہم ترین دارالحکومتوں میں شمار ہوتا ہے اور لندن کی 827سالہ تاریخ میں آج تک کوئی مسلمان اور غیر ملکی نژاد برطانوی شہری اس شہر کا میئر نہیں بن سکا چنانچہ صادق خان کی ناکامی لازم تھی لیکن انہوں نے نئی تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ ڈٹ گئے‘ برطانیہ میں میئر کےلئے پہلے پارٹی کے اندر الیکشن ہوتے ہیں‘ صادق خان کو پانچ انگریز امیدواروں کا سامنا کرنا پڑا‘ ان کی قریب ترین حریف ٹیسا جوویل تھی‘ یہ 2001ءسے 2007ءتک سیکرٹری آف سٹیٹ فار کلچر‘ میڈیا اور سپورٹس رہیں‘ یہ 2005ءسے 2010ءتک منسٹرفار اولمپکس اور2010ءسے 2013ءتک شیڈو منسٹرفارلندن بھی تعینات رہیں‘ یہ تگڑی امیدوار تھیں لیکن آپ کمال دیکھئے صادق خان ان سب کو ہرا کر لیبر پارٹی کی طرف سے لندن کی میئر شپ کےلئے امیدوار بن گئے‘ الیکشن کا وقت آیا تو ان کا مقابلہ کھرب پتی گولڈ سمتھ کے صاحبزادے زیک گولڈ سمتھ سے تھا‘ یہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے امیدوار تھے‘ آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں‘ برطانیہ میں اس وقت کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے‘ ڈیوڈ کیمرون وزیراعظم ہیں‘ زیک گولڈ سمتھ کھرب پتی ہیں اور یہ سفید فام بھی ہیں جبکہ صادق خان پاکستانی نژاد ہیں‘ یہ براﺅن بھی ہیں‘ یہ مسلمان بھی ہیں‘یہ سیلف میڈ بھی ہیں اور یہ بس ڈرائیور کے بیٹے بھی ہیں چنانچہ یہ مقابلہ کسی بھی طرح متوازن نہیں تھا‘ آپ پچھلے 16برسوں کے دوران مغربی میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف جار ی پروپیگنڈا بھی دیکھیں اور آپ اس کے بعد صادق خان کا الیکشن دیکھیں‘ آپ کو صادق خان کی شکست صاف نظر آئے گی چنانچہ میڈیا کے تمام بڑے تجزیہ کاروں نے شروع میں صادق خان کو ناکام امیدوار قرار دیا مگر یہ آہستہ آہستہ طاقت پکڑتے رہے یہاں تک کہ یہ لندن کے پہلے مسلمان میئر منتخب ہو گئے‘ کیوں؟ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ان کی اقلیتوں کےلئے خدمات تھیں‘ یہ 20 برسوں تک مذہب سے بالاتر ہو کر لوگوں کی خدمت کرتے رہے‘ یہ ہندوﺅں‘ بودھوں‘ یہودیوں اور افریقہ کے عیسائیوں کےلئے بھی اتنے ہی معاون ثابت ہوئے جتنے یہ مسلمانوں اور پاکستانیوں کےلئے تھے اور یہ خدمات بالآخر میئرشپ کی شکل میں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں‘ دوسری وجہ لندن کے غیر ملکی شہری اور لوئر مڈل کلاس تھی‘ لندن دنیا کے ان چند شہروں میں شمار ہوتا ہے جس کی40فیصد آبادی نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئی‘ یہ40 فیصد آبادی صادق خان جیسے لوگ ہیں‘ لندن لوئر مڈل کلاس کا شہر بھی ہے‘ لندن میں 20 لاکھ لوگ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں‘ ان میں 7 لاکھ بچے بھی شامل ہیں‘ یہ لوگ عمر بھر مکان نہیں خرید سکیں گے‘ لندن میں درمیانے سائز کے مکان کی قیمت ساڑھے پانچ لاکھ پاﺅنڈ ہوتی ہے اور یہ درمیانی آمدنی کے لوگوں کے بس کی بات نہیں‘صادق خان عام آدمی کے اس ایشو سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے غربت کو اپنا انتخابی نعرہ بنالیا‘ ان کا کہنا تھا‘ میں عام آدمی ہوں ‘ میں عام آدمی کی مشکلات سمجھتا ہوں‘ یہ ٹرانسپورٹ کے وزیر بھی رہے تھے‘ یہ طویل عرصہ تک پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر بھی کرتے رہے اور ان کے والد نے بھی پوری زندگی بس چلائی چنانچہ یہ عام شہری کی ٹرانسپورٹ کی ضروریات سے بھی واقف تھے ‘ انہوں نے اس ضرورت کو بھی اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا‘ لوگوں نے ووٹ دیئے اور یوں یہ لندن کے میئر بن گئے اور تیسری اور آخری وجہ نائین الیون کے بعد مغرب میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف خوفناک پروپیگنڈا تھی‘ مسلمانوں کو اس پروپیگنڈے کے دو فائدے ہوئے‘ صادق خان جیسے لوگوں نے اپنے عمل کے ذریعے مغربی معاشرے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی اور دوم مغرب کے شہریوں کے دلوں میں اسلامی دنیا پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے مسلمانوں کےلئے نیک جذبات پیدا ہو گئے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ مغربی ممالک کی پارلیمنٹس میں نائین الیون سے پہلے مسلم ارکان کی تعداد دیکھ لیجئے اور آپ آج دیکھ لیجئے‘ آپ کو زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ یہ فرق مغرب کے نئے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے‘ صادق خان کو ان رجحانات کا فائدہ بھی ہوا۔
صادق خان لندن کے پہلے مسلمان اور پاکستانی میئر کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں‘ یہ ان کے بزرگوں کی محنت اور ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن یہ ان کا امتحان نہیں تھا‘ ان کا اصل امتحان آگے ہے‘ دنیا میں کسی عہدے پر پہنچ جانا کمال نہیں ہوتا‘ اس عہدے کو یادگار بنا دینا اور اپنے آپ کو اس مقام کا اہل ثابت کرنا کمال ہوتا ہے اور صادق خان اگر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے میرے ووٹروں نے درست فیصلہ کیا تھا تو یہ صادق کے ساتھ ساتھ امین بھی ثابت ہو جائیں گے اور یہ نقطہ مغرب میں نئے انقلاب اور نئی سوچ کا آغاز ہوگا اور یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
صادق خان
18
مئی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں