جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مئی یا جولائی

datetime 12  مئی‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کمرے میں کافی‘ سگار اور گھوڑے کے چمڑے کی خوشبو تھی‘ اے سی 16 ڈگری سینٹی گریڈ پر تھا‘ شیشے کی دوسری طرف مصنوعی آبشار بہہ رہی تھی‘ آبشار کے نظارے کو مزید جان دار بنانے کےلئے پانی میں ڈٹرجنٹ پاﺅڈر ملا دیا گیا تھا‘ پانی جب بلندی سے حوض میں گرتا تھا تو جھاگ اڑتی تھی‘یہ جھاگ‘ یہ حوض اور بلندی سے گرتا پانی نظروں کو اپنی گرفت میں لے لیتا تھا‘ باہر گرمی تھی‘ درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا تھا لیکن صاحب کے ڈرائنگ روم میں گھوڑے کے چمڑے کے صوفوں پر بیٹھ کر دنیا کو شیشے سے دیکھنا ایک رومانوی تجربہ تھا‘ یوں محسوس ہوتا تھا باہر برف گر رہی ہے۔
دنیا کے خوشبو ساز مہک کو بارہ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں‘ یہ بارہ قسمیں آپس میں مل کر پرفیوم کے سینکڑوں ہزاروں برانڈز بناتی ہیں‘ یہ تمام برانڈز اچھے ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک آپ کی پرسینلٹی کو زیادہ سوٹ کرتا ہے‘ پرفیوم میں تین خصوصیات ہونی چاہئیں‘ یہ سب سے پہلے آپ کے دماغ کومتاثر کرے‘ یہ اس کے بعد آپ کے دل پر دستک دے اور یہ آخر میں آپ کے جسم کی خوشبو میں رچ بس جائے‘ اچھا پرفیوم یا آپ کی شخصیت سے میچ کرنے والا پرفیوم تین سکینڈ میں آپ کے دماغ تک پہنچ جاتا ہے اور یہ 30 سیکنڈ کےلئے آپ کے ذہن کو جکڑ لیتا ہے‘ پرفیوم کا دل پر سات گھنٹے تک اثر رہتا ہے جبکہ اسے تین دن تک آپ کے جسم کی خوشبو میں موجود رہنا چاہیے۔ صاحب پرفیوم کے اس فارمولے سے واقف ہیں‘ یہ پرفیوم کے بارہ نوٹس اور ان نوٹس کی پوری نفسیات سے بھی آگاہ ہیں‘ یہ جانتے ہیں دنیا جہاں کے عطر ساز 13 ویں خوشبو کی تلاش میں ہیں‘ وہ خوشبو روح کی خوشبو ہو گی اور وہ جسم کی حدوں سے نکل کر روح میں اتر جائے گی‘ وہ جنت کی خوشبو ہے‘ ہماری روحیں لاکھوں کروڑوں اربوں سال اس خوشبو میں رہیں چنانچہ یہ خوشبو ہماری روح کے حافظے میں درج ہے‘ ہم جب پیدا ہوتے ہیں تو ہماری روح زندگی بھر اس بچھڑی ہوئی خوشبو کو تلاش کرتی رہتی ہے‘ ہم خوشبو کے اس 13 ویں نوٹ کے کھوج میں دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے ہیں‘ انسان ہزاروں سال سے خوشبو میں خوشبو ملا کر خوشبو کا وہ 13 واں نوٹ بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ تاحال کامیاب نہیں ہو سکا‘ صاحب کیونکہ خوشبو کے ایکسپرٹ ہیں چنانچہ یہ اپنے ڈرائنگ روم میں ہمیشہ کافی‘ سگار اور گھوڑے کے چمڑے کی خوشبو رکھتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں یہ تینوں خوشبوئیں آپس میں مل کر ماحول کو مردانہ بنا دیتی ہیں اور اگر خوشبو کے اس ”کمبی نیشن“ کے ساتھ کمرے کا درجہ حرارت 16 ڈگری سینٹی گریڈ ہو تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے اور میں اس وقت اس خالص مردانہ ماحول میں صاحب کے سامنے بیٹھا تھا‘ وہ کافی کے ایک سپ کے بعد سگار کے دو کش لیتے تھے‘ پھر شیشے کے باہر دیکھتے تھے‘ جھاگ اڑاتی آبشار کو ”فوکس“ کرتے تھے اور پھر شفقت چیمہ کے سٹائل میں ہلکا ہلکا مسکراتے تھے اور آخر میں میری طرف دیکھتے تھے‘ یہ معمول پچھلے ایک گھنٹے سے جاری تھا‘ میں جب بھی صاحب کے پاس آتا ہوں‘یہ احساس کمتری اور حقارت کی ٹوکری میرے سر پر رکھ دیتے ہیں‘ میں اکثر سوچتا ہوں‘ یہ میرے ساتھ یہ رویہ کیوں اختیار کرتے ہیں‘ مجھے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملا‘ میں یہ بھی سوچتا ہوں میں اس سلوک کے باوجود ان کے پاس کیوں آ جاتا ہوں؟ مجھے اس سوال کا جواب بھی آج تک نہیں ملا‘ مجھے شاید بے عزتی کرانے کی عادت ہو چکی ہے! میں اکثر یہ بھی سوچتا ہوں۔
میں اس وقت بھی صاحب کے ڈرائنگ روم میں ڈیڑھ گھنٹے سے بے عزتی کے تکلیف دہ مراحل سے گزر رہا تھا‘ صاحب کو مجھ پر ترس آ گیا‘ وہ شفقت چیمہ کے سٹائل میں مسکرائے اور پھر بولے ”یہ مہینہ نازک ہے‘ میاں نواز شریف اگر اس صورتحال کو کسی طرح کھینچ کر پندرہ جون تک لے جاتے ہیں تو انہیں جولائی تک وقت مل جائے گا اور یہ اگر تھوڑی سی ہمت کر کے وقت کو 15 جولائی سے 15 اگست تک کھینچ لیں تو پھر انہیں کوئی خطرہ نہیں ہو گا“ وہ خاموش ہو گئے‘ کافی کا مگ اٹھایا‘ سپ لیا‘ سگار کے دو کش لئے‘ منہ چھت کی طرف اٹھایا اور آہستہ آہستہ دھواں چھوڑنے لگے‘ فضا میں کیوبا کے تمباکو کی خوشبو پھیل گئی‘ میں نے صوفے پر پہلو بدلا‘ چمڑے سے چی چی کی آواز نکلی اور ہوا کے ساتھ ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئی‘ میں نے عرض کیا ”کیا یہ آسٹرولوجی ہے؟“ صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ”جی نہیں یہ خالص سیاست ہے“ میں نے پوچھا ”کیسے؟“ وہ بولے ”یہ مئی کا مہینہ ہے‘ جون کے شروع میں بجٹ پیش ہو گا‘ بجٹ اجلاس کے دوران حکومت ”ٹاپل“ نہیں ہو سکتی‘ بجٹ کا پاس ہونا ضروری ہوتا ہے‘ جون میں رمضان بھی شروع ہو جائے گا‘ رمضان میں تمام سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں‘ عوام بھی عبادت میں مصروف ہو جاتے ہیں اور جلسے جلوس بھی بند ہو جاتے ہیں اور یہ جون سخت بھی ہو گا‘ درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جائے گا‘ اللہ نہ کرے لیکن کراچی میں اس سال بھی ہلاکتوں کا خدشہ ہے‘ یہ گرمی بھی سیاسی سرگرمیوں کو نقصان پہنچائے گی اور اس کا فائدہ میاں نواز شریف کو ہو گا‘ جولائی کے دوسرے ہفتے میں عید ہو گی‘ یہ عید بھی ایک ہفتہ لے لے گی چنانچہ سیاسی سرگرمیوں کا اگلا فیز 15 جولائی کے بعد شروع ہو گا‘ حکومت کےلئے وہ وقت بھی نازک ہو گا‘ میاں نواز شریف نے جیسے تیسے 15 جولائی سے 15 اگست کا وقت گزارنا ہے‘ یہ اگر یہ دونوں فیز گزار لیتے ہیں تو پھر انہیں کوئی 2018ءتک پہنچنے سے نہیں روک سکے گا“ وہ دوبارہ چپ ہو گئے‘ لمبی سانس لی‘ سگار کے دو کش لئے اور ہوا میں دھوئیں کے دائرے بنانے لگے‘ میں نے پوچھا ”لیکن 15 اگست ہی کیوں؟“ صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ”15 اگست کے بعد بارشیں شروع ہو جائیں گی‘ سیلاب آئیں گے‘ کے پی کے‘ جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقے متاثر ہوں گے اور حکومت متاثرین کی بحالی کا کام شروع کر دے گی‘ آپ اس سال میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھیں گے‘ یہ اس بار اپنے ہاتھوں سے لوگوں کی مدد کریںگے‘ یہ سیلاب بھی حکومت کو سیاسی ریلیف دیں گے اور حکومت اس وقت ایک اور پتہ بھی کھیلے گی‘ یہ اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں نئے آرمی چیف کا اعلان کر دے گی اور یوں میاں نواز شریف بحران سے نکل جائیں گے“۔ وہ ایک بار پھر خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ”لیکن میاں نواز شریف کی مصیبتوں کا آرمی چیف کے ساتھ کیا تعلق ہے“۔ صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ”کوئی تعلق نہیں‘ آصف علی زرداری کو جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بہتر آرمی چیف نہیں مل سکتا تھا اور میاں نواز شریف کو جنرل راحیل شریف جتنا دھیما اور کوآپریٹو جنرل نہیں مل سکتا‘ میں سمجھتا ہوں اگر اشفاق پرویز کیانی کی جگہ کوئی دوسرا آرمی چیف ہوتا تو وہ آصف علی زرداری کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیتا اور اگر جنرل راحیل شریف کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یہ حکومت اب تک ختم ہو چکی ہوتی چنانچہ ایشو آرمی چیف نہیں‘ ایشو ملک کے مجموعی حالات اور میاں برادران کی بدنصیبی ہے‘ یہ بدنصیبی انہیں کسی نہ کسی کونے‘ کسی نہ کسی کھدرے سے دوبارہ فوج کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور یوں ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی ہے‘ یہ کھچاﺅ اس وقت بھی موجود ہے اور حکومت کا خیال ہے یہ کھچاﺅ نئے آرمی چیف کی تعیناتی تک رہے گا“ وہ پھر خاموش ہو گئے۔
میں نے پوچھا ”لیکن آرمی چیف حکومت کےلئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کر رہے‘ حکومت انہیں ایک سال کی ایکسٹینشن دینا چاہتی تھی لیکن جنرل نے انکار کر دیا‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کراچی میں امن کا کریڈٹ جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے‘ جنرل راحیل شریف نے 2014ءمیں عمران خان کے دھرنے کے دوران بھی مثبت کردار ادا کیا تھا‘ یہ اگر اس وقت عمران خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتے تو آج ملکی سیاست مختلف ہوتی“ وہ مسکرائے اور بولے ”ہاںآپ کی بات درست ہے لیکن حکومت اور فوج کے درمیان کھچاﺅ بہرحال موجود ہے“ میں نے پوچھا ”کیوں؟“ وہ بولے ”سیاسی مصلحتیں‘ فوج ملک سے دہشت گردی اور کرپشن ختم کرنا چاہتی ہے لیکن حکومت کی سیاسی مصلحتیں سامنے آ جاتی ہیں‘ حکومت ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ناراض نہیں کر سکتی‘ یہ فوج کو پنجاب میں آپریشن کی اجازت بھی نہیں دے سکتی اور یہ بڑے پیمانے پر مذہبی رہنماﺅں کی پکڑ دھکڑ بھی افورڈ نہیں کر سکتی چنانچہ پھر فوج اور حکومت میں ٹکراﺅ فطری بات ہے“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ”اور پانامہ لیکس کا کیا ہوگا“ صاحب نے قہقہہ لگایا‘ سگار کا آخری کش لیا‘ کافی کی آخری چسکی بھری اور اونچی آواز میں بولے ” حمام کے ننگوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لہٰذا تمام ننگے فارغ ہوں گے یا پھر کسی کو کچھ نہیں ہو گا‘ میرا خیال ہے پانامہ لیکس کی اگلی قسط کے بعد یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا‘ دھول اڑتی رہے گی‘ سر آلودہ ہوتے رہیں گے‘ سوال پوچھے جاتے رہیں گے اور کمیشن کمیشن کا شور مچتا رہے گا لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلے گا“ صاحب خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ”کیوں؟“ وہ اٹھے‘ اے سی بند کیا‘ لائیٹس آف کیں اور باہر کا دروازہ کھول دیا‘ میں اٹھ کر ڈرائنگ روم سے باہر آ گیا‘ وہ بولے ”کیونکہ مسئلہ پانامہ لیکس نہیں‘ مسئلہ نواز شریف کو 2018ءتک پہنچنے سے روکنا ہے‘ یہ لوگ جانتے ہیں‘ نواز شریف اگر اگلے الیکشن تک پہنچ گیا تو پھر اسے روکنا مشکل ہو جائے گا چنانچہ یہ لوگ مئی اور جولائی کو ضائع نہیں کرنا چاہتے‘ یہ رمضان اور سیلاب سے پہلے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں“۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…