جمعرات‬‮ ، 14 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

گڈ بائی شجاعت عظیم

datetime 18  دسمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شجاعت عظیم بے وقوف آدمی ہے اور یہ بے وقوف آدمی بالآخر اس انجام کو پہنچ گیا جس انجام تک ہمارے جیسے ملکوں کے بے وقوف پہنچا کرتے ہیں‘ یہ 35 سال قبل ائیر فورس میں تھے‘ یہ امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے‘ نوکری سے استعفیٰ دیا لیکن استعفیٰ منظور نہ ہوا‘ یہ باز نہ آئے‘ یہ بار بار درخواست کرتے رہے‘ اعلیٰ افسروں کو یہ گستاخی پسند نہ آئی‘ ان پر اجازت کے بغیر چھٹی کرنے کا کیس بنا‘ کورٹ مارشل ہوا اور یہ ائیر فورس سے فارغ کر دیئے گئے‘ انہوںنے کیس کا مناسب دفاع نہیں کیا تھا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ائیر فورس چھوڑنا چاہتے تھے اور کورٹ مارشل کے ذریعے انہیں یہ موقع مل رہا تھا‘ یہ ان کی پہلی بے وقوفی تھی‘ انہیں چاہیے تھا‘یہ اعلیٰ تعلیم کا خبط نہ پالتے‘ یہ چپ چاپ یس سر بن جاتے‘ سلیوٹ کرتے‘ سلام کرتے‘ سینئرز کی بیگمات کو شاپنگ کرواتے‘ باسز کی خوشامدیں کرتے اور سرکاری خزانے سے بیرون ملک کورسز کرتے کرتے فورس کی آخری سیڑھی تک پہنچ جاتے‘ ان کی دوسری بے وقوفی کورٹ مارشل تھی‘ ان کو چاہیے تھا‘ یہ کیس کو ”مینج“ کر لیتے‘ معافی مانگ لیتے‘ کوئی تگڑی سفارش کرا لیتے اور ملک سے چپ چاپ نکل جاتے‘ بات ختم ہو جاتی لیکن یہ حماقت پر حماقت کرتے چلے گئے۔
شجاعت عظیم ائیر فورس سے فارغ ہونے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے‘ ملک سے باہر تعلیم بھی حاصل کی‘ کاروبار بھی کیا اور لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے خاندانی پائلٹ بھی رہے‘ یہ الحریری فیملی کا تقریباً حصہ تھے‘ یہ رفیق الحریری اور ان کے صاحبزادے سعد الحریری کو دنیا جہاں میں لے کر گئے‘ شجاعت عظیم نے جنرل پرویز مشرف کے الحریری فیملی اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ تعلقات بھی استوار کروائے‘ انہوں نے کینیڈا میں بزنس کیا اور اربوں روپے کمائے‘ لاہور میں ”سکھ چین“ کے نام سے ایک ہاﺅسنگ سکیم بھی بنائی‘ یہ ایک بھرپور اور شاندار زندگی گزار رہے تھے‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور لبنان کے شاہی خاندانوں کےخ ساتھ گھریلو مراسم تھے‘ کینیڈا اور امریکا میں بزنس تھا‘ شاندار گھر تھے‘ کینیڈین نیشنلٹی تھی‘ لاہور میں خوبصورت ہاﺅسنگ سکیم تھی‘ اسلام آباد میں پانچ ایکڑ کا شاہی فارم ہاﺅس تھا اور پوری دنیا میں دوست احباب تھے‘ زندگی میں سکون ہی سکون تھا لیکن پھر ان سے تیسری بے وقوفی ہو گئی‘ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کےلئے درخواستیں طلب کیں‘ 131 امیدواروں نے اپلائی کی‘ شجاعت عظیم بھی ان امیدواروں میں شامل تھے‘ پاکستان کے سب سے معتبر ادارے نے 131 میں سے 15 لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا‘ چار امیدواروں کو فائنل کیا گیا‘ سمری وزیراعظم کے پاس گئی اور وزیراعظم نے شجاعت عظیم کو سلیکٹ کر لیا‘ یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا‘ جولائی 2013ءمیں شجاعت عظیم نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا‘ وزیراعظم نے جنوری 2014ءمیں انہیںمعاون خصوصی برائے ہوا بازی تعینات کر دیا‘ یہ تقرری بھی عدالت میں چیلنج ہو گئی‘ شجاعت عظیم کو ان تقرریوں میں نہیں پڑنا چاہیے تھا‘ یہ آرام سے زندگی گزارتے‘ یہ کینیڈا‘ دوبئی‘ بیروت اور اسلام آباد میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی ملک کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو خوشحالی اور کامیابی کا خاص لیول اچیو کرنے کے بعد قوم کی خدمت کے خبط میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس خبط میں اپنی اور اپنے خاندان کی مت مار لیتے ہیں۔
سول ایوی ایشن کا ڈی جی اور بعد ازاں وزیراعظم کا مشیر بننا شجاعت عظیم کی تیسری بے وقوفی تھی‘ یہ اس کے بعد مسلسل بے وقوفیاں کرتے چلے گئے‘ مثلاً یہ 18 گھنٹے کام کرتے تھے اور اس کے بدلے ریاست سے کوئی تنخواہ‘ کوئی مراعات وصول نہیں کرتے تھے‘ یہ ملک کے اندر اور بیرون ملک تمام سفروں کے اخراجات‘ ائیر ٹکٹ‘ ہوٹلز‘ گاڑیوں اور کھانوں کے بل ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے‘ یہ اپنے سٹاف کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے تھے‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ شجاعت عظیم کے آنے سے پہلے پی آئی اے صرف 18 جہازوں تک محدود تھی‘ یہ انہیں 38 جہازوں تک لے گئے‘ اگلے ہفتے مزید دو جہازوں کا اضافہ ہو جائے گا‘ جون 2013ءتک پی آئی اے کی 31 فیصد فلائیٹس لیٹ ہوتی تھیں‘ یہ شرح اب 18 فیصد پر آ گئی ہے یعنی 82فیصد فلائیٹس وقت پر ہیں‘ پی آئی اے دس سال سے خسارے میں تھی‘ 2013ءتک اس کا خسارہ 44 ارب روپے سالانہ تھا‘ یہ خسارہ 2014ءمیں 28 ارب اور جون 2015ءمیں 18 ارب ہو گیا جبکہ 2015ءکی آخری سہ ماہی میں پی آئی اے نے دس سال بعد پہلی بار دو ارب 85 کروڑ روپے منافع کمایا‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ شجاعت عظیم نے ملک کے سات کامیاب ترین بزنس مینوں کو اعزازی ڈائریکٹر بھی بنا دیا‘ یہ لوگ ادارے سے ایک روپیہ نہیں لیتے لیکن یہ پی آئی اے کو کامیابی کے درجنوں مشورے دیتے ہیں‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ ملک میں پندرہ سال سے سول ایوی ایشن کی کوئی پالیسی نہیں تھی‘ شجاعت عظیم نے چھ ماہ میں پالیسی بنا دی‘ اس پالیسی کے نتیجے میں چارٹر ائیر لائنز اور پرائیویٹ ائیر لائنز پاکستان آنے لگیں‘ کوئٹہ‘ پشاور اور فیصل آباد کے ائیرٹرمینلز کو سٹیٹ آف دی آرٹ بنا دیا‘ میں ”عادی مسافر“ ہوں‘ میں مہینے میں دو تین بار ملک کے اندر اور کم از کم ایک بار بیرون ملک سفر کرتا ہوں‘ میں نے تین سال پی آئی اے سے انٹرنیشنل سفر نہیں کیا‘ میں چھ ماہ پہلے قومی ائیر لائین سے پیرس گیا تو مجھے یہ پی آئی اے پرانی پی آئی اے سے بہتر لگی‘ ائیر پورٹس کا ماحول بھی سو درجے تبدیل ہو چکا ہے‘ اسلام آباد ائیر پورٹ اب قدرے محفوظ بھی ہے‘ صاف ستھرا بھی اور آسان بھی۔ دنیا میں دستی سامان کے ”ٹیگس“ کو ختم ہوئے بیس سال ہو چکے تھے لیکن پاکستان میں یہ پچھلے سال تک چلتے رہے‘ آپ سامان پر ٹیگ لگاتے تھے‘ ان ٹیگس پر پھر مہر لگتی تھی‘ پھر انہیں پنچ کیاجاتا تھا اور پھر جہاز تک ان کا معائنہ ہوتا تھا‘ کسی نے اس فضول حرکت کا نوٹس نہیں لیا مگر شجاعت عظیم نے آتے ہی حماقت کا یہ سلسلہ بند کر دیا اور ائیر پورٹس پر نئے کاﺅنٹر بھی بنے‘ واش روم بھی ٹھیک ہوئے‘ کافی شاپس بھی بنیں اور عملے کا رویہ بھی تبدیل ہوا‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ اسلام آباد کے نئے ائیر پورٹ کا افتتاح اپریل 2007ءمیں ہوا تھا‘ یہ ائیر پورٹ سات برسوں میں صرف 65 فیصد مکمل ہوا‘ اس شخص نے اڑھائی سال میں اسے تکمیل کے قریب پہنچا دیا‘ یہ اگلے سال کے آخر تک کھول دیا جائے گا‘ ملک میں سول ایوی ایشن کا صرف ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تھا‘ اس شخص نے 9 بنا دیئے‘ یہاں سے اب دو سال میں 12 سو ائیروناٹیکل انجینئر نکلیں گے‘ پاکستان میں 68 سال سے دھند کے دوران فلائیٹس بند ہو جاتی ہیں‘ اس شخص نے ذاتی تعلقات استعمال کر کے لاہور ائیرپورٹ پر آئی ایل ایس سسٹم لگوا دیا‘ یہ اربوں روپے کا سسٹم قطر کی حکومت نے پاکستان کو گفٹ کیا‘ پی آئی اے دوبئی کی عام سی دوکانوں سے جہازوں کے پرزے خریدتی تھی‘ یہ پرزے خطرناک ہوتے تھے‘ اس شخص نے یہ پریکٹس بند کرا دی‘ پی آئی اے اب بوئنگ کارپوریشن سے اصلی پرزے خرید رہی ہے اور اس شخص نے پی آئی اے سے 302 جعلی ڈگری ہولڈر بھی نکال دیئے‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں تھی اور کیا شجاعت عظیم بے وقوفیوں کے اس طویل پروفائل کے ساتھ بے وقوف ثابت نہیں ہو جاتے؟۔
شجاعت عظیم کے دو جرائم ہیں‘ یہ بے وقوف ہیں اور یہ انسان ہیں اور ہمیں اس ملک میں انسان چاہئیں اور نہ ہی مفت ڈیلیور کرنے والے بے وقوف۔ ہمیں یہاں صرف فرشتے چاہئیں‘ ایسے فرشتے جن کے گیلے دامن سے ہم وضو کر سکیں یا پھر ہمیں جنرل یحییٰ خان جیسے عظیم حکمران چاہئیں جو ملک کو حمود الرحمن رپورٹ دے کر قومی اعزازات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائیں لیکن شاید کبھی کبھی یہ مرحوم جنرل یحییٰ خان بھی فرشتوں سے یہ پوچھتے ہوں‘ وہ قوم جو مجھے سلام کرتی رہی‘ اس نے شجاعت عظیم کو کام کیوں نہیں کرنے دیا؟ یہ درست ہے‘ شجاعت عظیم کا کورٹ مارشل ہوا تھا لیکن کیا کورٹ مارشل سیکورٹی رسک‘ کوٹیکنا‘ ہائی جیکنگ اور آئین توڑنے سے بڑا جرم تھا؟ یہ وہ ملک ہے جس میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو دوبار سیکورٹی رسک‘ کرپٹ اور نااہل قرار دے کر حکومت سے فارغ کیا گیا تھا‘ آصف علی زرداری کرپشن کے سنگین جرائم میں گیارہ سال جیل میں رہے لیکن پھر اسی ریاست نے اس سیکورٹی رسک اور اس کرپٹ شخص کو اس عالم میں صدر تسلیم کر لیا کہ ان کے خلاف سوئٹرز لینڈ میں مقدمے چل رہے تھے‘ میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے کیس میں جیلوں میں بند رہے اور جنرل پرویز مشرف وہ آئین توڑ کرچھ سال اور پانچ ماہ تک ملک کے باوردی صدر رہے جسے توڑنے کی سزا موت ہے لیکن ہم نے آصف علی زرداری کو صدر اور میاں نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بھی بنایا اور جنرل پرویز مشرف آرٹیکل چھ کے ملزم ہونے کے باوجود گھر میں بیٹھ کر سابق صدر اور سابق آرمی چیف کی تمام مراعات انجوائے کر رہے ہیں‘ ہمارے ملک میں ایسے ایسے لوگ بھی حکومت کر گئے جنہیں پاکستان کا پہلا پاسپورٹ جہاز میں اس وقت دیا گیا تھا جب وہ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کےلئے تشریف لا رہے تھے‘ وہ آئے‘ حکومت کی‘ ملک کا بیڑا غرق کیا‘ پاسپورٹ پھاڑ کر پھینکا اور واپس چلے گئے لیکن ریاست‘ ریاست کے اعلیٰ ادارے اور محترم عدلیہ سب خاموش رہے‘ جس ملک میں آصف علی زرداری سنگین جرائم کے بعد صدر‘ میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے چارجز کے بعد وزیراعظم اور جنرل پرویز مشرف آئین توڑنے‘ ملک میں دو بار مارشل لاءلگانے کے باوجود صدر بن سکتے ہیں‘ اس ملک میں شجاعت عظیم معاوضے کے بغیر کام کیوں نہیں کر سکتا؟ ہم نے جب معین قریشی اور شوکت عزیز کو غیر ملکی پاسپورٹس کے باوجود وزراءاعظم مان لیا تھا‘ ہم نے جب ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کو یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا تھا اور ہم جب ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے داخل ہونے پر خاموش رہے تھے تو پھر شجاعت عظیم کے ”جرائم“ پر اتنا شور کیوں ہے؟ قانون اور آئین ان کو عبرت کی نشانی کیوں بنانا چاہتا ہے؟ ہم نے آج تک جنرل پرویز مشرف کے ”پی سی او“ پر حلف اٹھانے والوں کا احتساب نہیں کیا‘ ہم نے ان لوگوں کو کورٹ میں بلا کر نہیں پوچھا جنہوں نے پی آئی اے کو خسارے کا قبرستان بنا دیا تھا‘ جن کی وجہ سے یہ ادارہ ہر سال 44 ارب روپے کا نقصان کرتا تھا‘ جو جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تیس تیس سال ملازمتیں کرتے رہے اور جو بل امریکا کے بناتے تھے اور سپیئر پارٹس دوبئی سے خریدتے تھے لیکن ہم نے بلااجازت چھٹی کرنے کے جرم میں ائیرفورس سے فارغ ہونے والے شجاعت عظیم پر پورا قانون نافذ کر دیا‘ کیوں؟ کیوں؟ ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم مارشل لاءوالوں کو ملک تک توڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن ہم کورٹ مارشل والوں کو مفت کام نہیں کرنے دیتے‘ ہاتھی خواہ ہماری پوری فصل اجاڑ دیں لیکن ہم بکری کو مفت دودھ نہیں دینے دیں گے‘ واہ‘ سبحان اللہ۔
شجاعت عظیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں‘ یہ چالیس بے وقوفیوں کے بعد ان کی پہلی عقل مندی ہے‘ میں انہیں اس عقل مندی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں‘ گڈ بائی شجاعت عظیم۔ آپ اگر اگلی بار آئیں تو معین قریشی بن کر آئیں‘ قوم آپ کا والہانہ استقبال کرے گی‘ چیف جسٹس آپ سے حلف لیں گے اور ملک کے تمام آئینی ادارے آپ کو سلیوٹ کریں گے‘ ہر بار بے وقوفی اچھی نہیں ہوتی‘ انسان کو میچور بھی ہونا چاہیے۔



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…