آپ پھر ایک بارآدھے گھنٹے کیلئے برآمدے میں بیٹھئے‘ ایک بار پھر جوتے اتاریئے‘ ٹانگیں سیدھی کیجئے‘ اپنی پشت سیٹ کے ساتھ لگائیے‘ لمبی سانس لیجئے اور آپ ایک بار پھر وقت کو 10 اپریل سے 10 اگست تک پیچھے لے جائیے اور نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کا تجزیہ کیجئے‘ آپ بھی میری طرح اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے میاں نواز شریف کو اب قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کی بات نہیں کرنی چاہیے‘ آپ بھی مان جائیں گے میاں نواز شریف کے منہ سے اب قانون اور آئین کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھئے اور جواب دیجئے‘ آٹھ ماہ میں پاکستان کی کون سی گلی‘ کون سا مقام اور کون سا ایوان تھا جس میں قانون اور آئین کو بوٹوں تلے نہیں روندا گیا‘قانون اور آئین کی کہاں کہاں تذلیل نہیں ہوئی؟ یہ آئین ایک بدنصیب آئین ہے‘ جنرل ضیاء الحق آئیں تو یہ اسے کاغذ کے چند ٹکڑے قرار دیتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف آئیں تو یہ اس میں اپنی خواہش کے تمام پودے لگادیتے ہیں‘ آئین کے ساتھ یہ ظلم افسوس ناک تھا لیکن قوم کو میاں نواز شریف سے آئین شکنی اور قانون سے مذاق کی توقع نہیں تھی‘ پارلیمنٹ ملک کا مقدس ترین ایوان اور آئین مقدس ترین دستاویز ہوتی ہے لیکن پچھلے آٹھ ماہ میں پارلیمنٹ اور آئین دونوں کو جتنا ذلیل کیا گیا یہ ذلت ماضی کی ذلت سے مختلف تھی‘ ماضی میں آئین کو صرف طالع آزما روندتے تھے لیکن اس بار یہ قبلہ اپنے متولیوں کے ہاتھوں پامال ہوا‘ ہم عمران خان کو چند لمحوں کیلئے سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں‘ پاکستان تحریک انصاف نے جو کیا آپ چند لمحوں کیلئے بھول جائیے ‘ آپ آٹھ ماہ میں صرف حکومت کی قانون شکنیاں اور آئین کی پامالیاں ملاحظہ کیجئے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ ماڈل ٹاؤن میں کیا ہوا؟ کیا 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں گولی نہیں چلی‘ کیا یہ گولی 12 گھنٹے نہیں چلتی رہی‘ کیا میڈیا عوام کو فائرنگ اور پولیس آپریشن نہیں دکھاتا رہا‘ کیا وزیراعلیٰ اس فائرنگ اور پولیس آپریشن سے واقعی ناواقف تھے؟ کیا پولیس ان کی اجازت کے بغیر فائرنگ کرتی رہی‘ کیا اس فائرنگ میں14 بے گناہ عورتیں اور مرد نہیں مارے گئے اور کیا 100 لوگ زخمی نہیں ہوئے؟ آپ دل پر ہاتھ رکھئے اور جواب دیجئے حکومت نے اس سانحے پر اب تک کیا کیا؟ کیا وزیراعظم نے اپنے بھائی سے استعفیٰ لیا؟ اور کیا یہ واقعہ اگر کسی دوسرے صوبے میں ہوتا یا پنجاب میں کسی دوسری جماعت کی حکومت ہوتی یا میاں نواز شریف اپوزیشن میں ہوتے تو کیا ان کا رویہ یہی ہوتا؟ کیا یہ حکومت سے استعفیٰ نہ مانگتے‘ کیا یہ عدالتی کمیشن کا مطالبہ نہ کرتے اور کیا یہ ملزموں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ نہ کرتے؟ آپ دل پر ہاتھ رکھئے اور جواب دیجئے سیشن کورٹ نے 16 اگست 2014ء کو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت 21 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی‘ حکومت نے آج تک اس ایف آئی آر کا کیا کیا؟ کیا ملک میں قتل کی ایف آئی آر کے بعد ملزموں کو گرفتار نہیں کیا جاتا؟ اگر ہاں تو یہ21 لوگ گرفتار کیوں نہیں ہوئے؟ وزیراعظم اور وفاقی وزراء کو تھانوں اور عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا گیا؟یقیناًحکومت کا جواب ہوگا ملزموں کو مجرم ثابت کرنا علامہ طاہر القادری کا کام تھا اور علامہ صاحب ملک سے باہر ہیں‘ یہ جواز اگر درست ہے تو پھر حکومت عام مقدموں میں عام لوگوں کو یہ سہولت کیوں نہیں دیتی؟ ہماری پولیس عام ملزموں کو ایف آئی آر کے ساتھ ہی گرفتار کر لیتی ہے‘ چالان پیش ہوتے ہیں اور مدعی خواہ ملک میں ہوں یا ملک سے باہر ملزم بہرحال جیل میں رہتے ہیں پھر وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور باقی 19ملزموں کو کیوں رعایت دی گئی؟ کیا یہ قانون کی خلاف ورزی اور قانون کا سیدھا سادا مذاق نہیں۔ آپ یہ بھی چھوڑ دیجئے‘ آپ قانون شکنی کا ایک اور ثبوت ملاحظہ کیجئے‘ حکومت نے آٹھ ماہ کے دوران علامہ طاہر القادری اور عمران خان پردرجن بھر پرچے درج کرائے‘ ان پرچوں میں غداری‘ ریاست سے بغاوت‘دہشت گردی‘ قتل‘ اقدام قتل اور کارسرکار میں مداخلت جیسے سنگین الزامات بھی شامل ہیں‘ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے بھی عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے خلاف قومی اسمبلی پر حملے کی ایف آئی آر کٹوائی ‘ یہ پاکستان کی تاریخ میں اس نوعیت کی پہلی ایف آئی آر تھی لیکن علامہ صاحب کی گرفتاری تو دور حکومت نے ان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کئے‘ خفیہ معاہدہ کیا اور انہیں باعزت طریقے سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی‘ کیوں؟ حکومت نے عمران خان کے خلاف بھی آدھا درجن پرچے درج کرا رکھے ہیں لیکن عمران خان 6 اپریل کو اسی قومی اسمبلی میں آئے جس پر حملے کے خلاف ایاز صادق نے ایف آئی آر درج کرائی تھی‘ ایاز صادق نے اپنے ملزم کو گرفتار کرایا اور نہ ہی حکومت نے جسارت کی‘ کیوں؟ آپ جواب دیجئے! وزیراعظم سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر پر بھی خاموش رہتے ہیں اور یہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے خلاف ہونے والے پرچوں پر بھی زبان نہیں کھولتے؟ کیوں؟ کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا پھر علامہ صاحب اور خان صاحب کے خلاف ایف آئی آرز ہوں وزیراعظم کیلئے خاموشی فائدہ مند ہے‘ یہ انہیں سوٹ کرتی ہے چنانچہ حکومت قانون کی کھلی خلاف ورزی پر خاموش بیٹھی ہے اور یہ ہمیشہ خاموش بیٹھی رہے گی۔ آپ آئین کی بالادستی کا مذاق بھی ملاحظہ کیجئے‘ عمران خان نے 18 اگست کو 30 ایم این ایز کے ساتھ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا‘ استعفے باقاعدہ سپیکر کے چیمبر میں جمع کرائے گئے‘ عمران خان اور ان کے ساتھی کنٹینر اور ٹیلی ویژن چینلز پر8ماہ اپنے استعفوں کی تصدیق کرتے رہے‘ یہ لوگ 29 اکتوبر کو سپیکر کے چیمبر بھی گئے لیکن سپیکر نے غیر آئینی جواز پر یہ استعفے مسترد کر دیئے‘ آئین کے آرٹیکل 64 کی شق ٹو کے مطابق قومی اسمبلی کا کوئی رکن چالیس دن ایوان سے غیر حاضر رہے تو یہ مستعفی سمجھا جاتا ہے ‘پاکستان تحریک انصاف کے ارکان سات ماہ تین دن ایوان سے غائب رہے لیکن سپیکر صاحب نہ صرف خاموش رہے بلکہ جب عمران خان اپنے ارکان کے ساتھ 6 اپریل کو قومی اسمبلی میں داخل ہو ئے تو سپیکر نے انہیں رکن اسمبلی بھی تسلیم کر لیا‘ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں انہیں قومی اسمبلی کا رکن ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں مگر حکومت اور اسپیکر دونوں انھیں ایوان میں خوش آمدید کہہ رہے ہیں‘ کیوں؟ میاں صاحب آئین کی اس خلاف ورزی پربھی خاموش ہیں؟ کیوں؟ کیونکہ یہ خاموشی بھی وزیراعظم‘ حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن کو سوٹ کرتی ہے۔آپ یہ رویہ دیکھئے اور اس کے بعد آپ دوسرا رویہ دیکھئے‘ حکومت نے حکومتی احکامات نہ ماننے‘ ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے اور حلف سے بے وفائی کرنے پر ایس ایس پی محمد علی نیکوکارا کو نوکری سے برخاست کر دیا‘ ان پر الزام تھا یہ 30 اگست کی رات مظاہرین پر لاٹھی چارج‘ فائرنگ اور آنسو گیس کے بعد چارج چھوڑ گئے‘ انہوں نے موبائل بند کیا اور یہ چنیوٹ میں اپنے گاؤں چلے گئے‘ یہ یقیناًجرم ہو گا لیکن کیا قانون صرف نیکوکارا کے لیے ہے‘ کیا ڈسپلن کی خلاف ورزی پر صرف نیکوکارا کو فارغ ہونا چاہیے؟ وہ لوگ جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزم گرفتار نہیں کئے ‘وہ آج تک نوکریوں سے کیوں برخاست نہیں ہوئے‘ وہ لوگ جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل رپورٹ باہر نہیں آنے دی‘ وہ جنہوں نے ایف آئی آرز کے باوجود علامہ طاہر القادری کو باہر جانے دیا‘ وہ جو آج تک ان تین پولیس اہلکاروں کے قاتل گرفتار نہیں کر سکے جنہیں احتجاج کے دوران کیلوں والے ڈنڈوں سے شہید کر دیا گیا تھا‘ وہ جنہوں نے اسلام آباد میں ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کو سڑک پر ڈنڈے اور ٹھڈے مارے تھے اوروہ جنہوں نے پارلیمنٹ کی عمارت‘ ایوان صدر اور پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا‘ وہ مجرم کہاں ہیں اور ان مجرموں کو گرفتار نہ کرنے والے آج تک آزاد کیوں پھر رہے ہیں؟ کیا یہ حکومت کا کھلا تضاد نہیں ؟ کیا یہ زیادتی نہیں؟کیا یہ حقیقت نہیں حکومت عمران خان پر 6 مہینے پرچے کراتی رہی لیکن جب پی ٹی آئی مذاکرات کی میز پر آگئی تو حکومت نے پارلیمنٹ ہاؤس پرحملہ تک معاف کر دیا‘ کیا وزیراعظم نے آج تک سپیکر ایاز صادق سے پوچھا ’’آپ نے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے قبول کیوں نہیں کئے؟‘‘ کیا آپ نے پوچھا ’’سپیکر نے مستعفی ارکان کو قومی اسمبلی میں کیوں آنے دیا‘‘ نہیں! ہرگز نہیں‘ آپ پوچھیں گے بھی نہیں کیونکہ یہ خاموشی آپ کو سوٹ کرتی ہے۔ میاں صاحب آپ پوری زندگی قانون‘ قانون اور آئین آئین کا راگ الاپتے رہے لیکن جب اپنی باری آئی تو آپ میں اور جنرل پرویز مشرف میں اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل یحییٰ خان میں کوئی فرق نہیں تھا‘ وہ بھی آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے تھے اور آپ نے بھی قانون اور آئین کو روندنے میں چند سیکنڈ لگائے‘ میاں صاحب ثابت ہوگیا آپ کو اگر سوٹ کرتا ہو تو قانون کی کوئی خلاف ورزی‘ خلاف ورزی نہیں ہوتی اور آئین کی کوئی پامالی‘ پامالی نہیں ہوتی اور اگر آپ کو سوٹ نہ کرتا ہو تو آپ قانون اور آئین کی طرف اٹھنے والی کوئی ٹیڑھی آنکھ برداشت نہیں کرتے‘ یہ ثابت ہو گیا آپ کی نظر میں اگر کوئی یونیفارم میں آئین میں تبدیلی کرے تو وہ قانون شکن اور طالع آزما ہے اور اگر آپ آئین اور قانون کا تماشہ بنا دیں تو یہ جمہوریت ہوتی ہے‘ چنانچہ معاف کیجئے گا‘ آپ میں اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں‘ وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر قانون اور آئین کا مذاق اڑاتے رہے اور آپ پارلیمنٹ ہاؤس میں بیٹھ کر یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے ‘ آئین اور قانون آپ کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ ہی عمران خان کا‘ اگر بگڑا تو صرف محمد علی نیکوکارا جیسے لوگوں کا بگڑا کیونکہ اگر آپ قانون اور آئین توڑ یں تو یہ جمہوریت ہوتی ہے اور اگر نیکو کارا اپنی گردن بچانے کی کوشش کرے تو یہ جرم ہوتا ہے۔ واہ سبحان اللہ! آپ کو آئین اور قانون کی بالا دستی مبارک ہو۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں