وہ تقریباً میرے گلے پڑ گیا‘ وہ بار بار پوچھ رہا تھا ”آپ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی حمایت کیوں نہیں کر رہے؟“ میں نے عرض کیا ”بیٹا میں نے آج تک آپریشن کی مخالفت میں ایک لفظ نہیں بولا“ وہ چیخا ”لیکن آپ حمایت بھی نہیں کر رہے“ میں نے نوجوان کو بٹھایا‘ کافی کا آرڈرکیا اور اس سے پوچھا ”بیٹا آپ کی عمر کتنی ہے“ وہ غصے میں تھا‘ اس کی آواز شدت جذبات سے تھرتھرا رہی تھی‘ میں نے پانی کی بوتل کھولی اور اس کے ہاتھ میں پکڑا دی‘ وہ ایک سانس میں پوری بوتل پی گیا‘ اس نے پانی پینے کے بعد لمبا سانس لیا اور ٹھہر ٹھہر کر بولا ” میں اس سال 25 برس کا ہو جاﺅں گا“ میں نے آہستہ سے عرض کیا” بیٹا میں بھی جوانی میں معلومات‘ جذبے اور علم کو تجربے سے زیادہ اہمیت دیتا تھا لیکن پھر وقت نے سمجھایا تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا‘ آپ ہزار کتابیں پڑھ لیں‘ آپ انٹر نیٹ کے کیڑے بن جائیں مگر تجربے کا ایک دن ان تمام کتابوں پر بھاری ہو تا ہے‘ میں اس سے قبل کراچی کے تین آپریشن دیکھ چکا ہوں چنانچہ میرا دل گھبراتا ہے‘ ‘ وہ نوجوان خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگا‘ میں نے پچھلے دس برسوں میں معاشرے میں جو تین بڑی تبدیلیاں دیکھیں‘ ان میں ایک تبدیلی غصہ بھی ہے‘ ہمارے اردگرد موجود لوگ غصے سے بھرے ہوئے ہیں‘ یہ پورا دن پھٹنا چاہتے ہیں اور آپ اگر کسی شخص کو سمجھانے کی غلطی کر بیٹھیں تو وہ آپ کا گریبان پھاڑ دیتا ہے‘ لوگ دوسروں سے بلاوجہ ناراض رہتے ہیں‘ یہ ناراضگی‘ یہ غصہ معاشرے کو نا قابل رہائش بنا رہا ہے‘ آپ کیلئے باہر نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے‘ میں روز ہزاروں گالیاں پڑھتا اور سنتا ہوں‘ مجھے آج تک کسی ایک گالی کی وجہ سمجھ نہیں آئی؟۔ کیا مجھے گالیوں سے بچنے کیلئے لوگوں کی خواہشوں کے مطابق لکھنا اور بولنا چاہیے؟ میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں اور پھر سوچتا ہوں ”میں کس کس کی خواہش پوری کروں گا؟“ اور جس دن سوچنے‘ بولنے اور لکھنے والے حقائق کی بجائے عوامی خواہشات کے تابع ہو جائیں‘ کیا اس دن لکھنے‘ بولنے اور سوچنے والے لوگوں کو کام کرنا چاہیے؟ کیا اس دن کے بعد معاشرہ آگے بڑھ سکے گا؟ مجھے ہمیشہ اس کا جواب ناں میں ملتا ہے چنانچہ میں گالیوں اور لوگوں کے غصے کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتا ہوں‘ میں لوگوں کے غصے اور بدتمیزی کے باوجود روزانہ باہر بھی نکلتا ہوں‘میں شہر کے مختلف بک سٹورز میں جاتا ہوں‘ سی ڈیز اور فلموں کی دکانوں پر جاتا ہوں اور کافی شاپس اور چائے خانوں کا چکر لگاتا ہوں اورمجھے ان چکروں کے دوران کوئی نہ کوئی جذباتی نوجوان بھی ٹکر جاتا ہے‘ وہ نوجوان بھی ان نوجوانوں میں شمار ہوتا تھا جوروز کسی نہ کسی کے گلے پڑنے کیلئے گھر سے نکلتے ہیں‘ یہ نوجوان سوشل میڈیا جنریشن ہیں‘ یہ صرف لائیک کرنا جانتے ہیں یا پھر ڈس لائیک‘ یہ میاں نواز شریف کے نعرے بھی لگاتے ہیں اور عمران خان کے دھرنے میں بھی شامل ہوتے ہیں‘ یہ فیس بک اورٹویٹر کے ایک سٹیٹس سے رائے بناتے ہیں اور دوسرے سٹیٹس سے رائے کی پوری عمارت زمین بوس کر دیتے ہیں‘ میں ان نوجوانوں کے ہاتھوں مار کھا کھا کر سمجھدار ہو چکا ہوں چنانچہ میں انھیں دور سے پہچان لیتا ہوں اور اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لیتا ہوں‘ وہ نوجوان بھی غصے میں تھا۔
میں نے عرض کیا ”بیٹا کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن حال ہے‘ اس حال کا یقینا کوئی نہ کوئی مستقبل بھی ہو گا لیکن ہمیں مستقبل کی طرف جانے سے قبل اس کا ماضی بھی دیکھنا چاہیے‘ ہم جب بھی ماضی کی تلاشی لیں گے‘ ہمارا آپریشن پر اعتماد ڈانواں ڈول ہو جائے گا“ میں خاموش ہو گیا‘ نوجوان نے پوچھا ”مثلاً“ میں نے عرض کیا ”مثلاً آپ 1992ءکے آپریشن کو دیکھو‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف تھے‘ وہ کراچی کو دہشت گردوں‘ بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلرز سے آزاد کرانا چاہتے تھے‘ جون1991ءلانڈھی میں ایک واقعہ پیش آیا‘ایم کیو ایم کے نوجوانوں نے فوج کے ایک افسر میجر کلیم کو اغواءکرلیا‘ میجر کلیم پر تشدد کیاگیا‘ فوج نے اس واقعے کے بعد کراچی میں آپریشن شروع کر دیا‘ وہ خوفناک آپریشن تھا‘ فوج کراچی کے نو گو ایریاز میں داخل ہو گئی‘ ٹارچر سیل کھول دیے گئے‘ قاتل گرفتار کر لئے گئے یا مار دیئے گئے‘ میڈیا نے آپریشن کا بھرپور ساتھ دیا‘ ایم کیو ایم کی ساری قیادت ملک سے باہر چلی گئی‘کراچی کے حالات نارمل ہو گئے‘ یہ آپریشن کامیابی کے قریب تھا کہ صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور صدر کو مختلف سیاسی گروپوں کی ضرورت پڑ گئی‘ صدر افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی تھے‘ صدر نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن رکوایا اور ایوان صدر کے دروازے ایم کیو ایم پر کھول دیے‘ یوں پہلا آپریشن نہ صرف سیاسی مصلحت کا شکار ہو گیا بلکہ اس کی ناکامی کے بعد کراچی کی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی عسکری ونگ بنا لئے‘ وہ لوگ بھی آہستہ آہستہ ما ردیے گئے جنہوں نے 1992ءکے آپریشن کی حمایت کی تھی“ میں نے سانس لیا اور دوبارہ عرض کیا ” کراچی میں دوسرا آپریشن 1995-96ءمیں جنرل نصیر اللہ بابر نے کیا‘ یہ آپریشن بھی شاندار اور غیر جانبدار تھا‘ کراچی میں نصیر اللہ بابر‘ ڈاکٹر شعیب سڈل اور مسعود شریف کا ٹرائیکا بنا‘ آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی نے معلومات دیں اور کراچی کلین ہونے لگا‘ 1996ءمیں بھی ٹارچر سیل ختم ہوئے‘ نو گو ایریاز کھولے گئے‘ ٹارگٹ کلرز گرفتار ہوئے اور بھتہ اور قبضہ مافیاز کو عدالتوں میں پیش کیا گیا‘ یہ آپریشن بھی کامیاب چل رہا تھا لیکن پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر فاروق لغاری کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور صدر کو سیاسی حمایت کی ضرورت پڑ گئی چنانچہ صدر فاروق لغاری نے کراچی آپریشن رکوایا اور ایم کیو ایم پر ایوان صدر کے دروازے کھول دیے یوں 1996ءکے آپریشن کے بھی وہی نتائج نکلے جو 1992ءمیں نکلے تھے‘ پولیس کے اہلکاروں کی ریکی ہوئی اور 495 پولیس اہلکاروں کو ایک ایک کر کے گولی مار دی گئی‘ سول انتظامیہ کے لوگ بھی غائب کر دیے گئے اور میڈیا کے لوگوں کو بھی ہدف بنایا گیا‘ 1996ءکے آپریشن کے بعد کراچی کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسلحے کے انبار لگا دیئے‘ شہر چار حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ ایک ڈیفنس‘ دوسرا مہاجر‘ تیسرا پشتون علاقہ اور چوتھا مذہبی جماعتوں کا علاقہ۔ کراچی مزید خراب ہو گیا‘ کراچی میں تیسرا آپریشن 1998ءمیں شروع ہوا‘ وہ ٹارگٹ کلنگ کا دور تھا‘ حکیم سعید جیسی شخصیت کو شہید کر دیا گیا‘ کے ای ایس ای سی کے چیئر مین شاہد حامد کو مار دیا گیا اور شہر کے چوٹی کے بزنس مینوں‘ سرمایہ کاروں اور زمینداروں کو دھمکیوں بھرے خطوط ملنے لگے‘ میاں نواز شریف کی حکومت تھی‘ حکومت نے اگست 1998ءکو کراچی میں آپریشن شروع کر دیا وہ آپریشن بھی کامیاب چل رہا تھا لیکن پھر 1999ءمیں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے تعلقات خراب ہو گئے‘ اسلام آباد میں آج بھی وہ صحافی موجود ہیں جن کے سامنے جنرل پرویز مشرف نے الطاف حسین کو غدار قرار دیا تھا‘ وہ لوگ بھی آج تک زندہ ہیں جنہوں نے اپنے کانوں سے جنرل مشرف کو یہ کہتے سنا تھا ”آپ مجھے اجازت دیں‘ میں لندن میں اپنے پستول سے الطاف حسین کو قتل کر آﺅں “ لیکن پھر جنرل پرویز مشرف کو بھی ایم کیو ایم کی ضرورت پڑ گئی‘ 12 اکتوبر 1999ءکو میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے ساتھ ہی کراچی آپریشن بھی رک گیا‘ جنرل پرویز مشرف نے تاریخ کے پہئے کو واپس دھکیلا اورایم کیو ایم کی سرپرستی شروع کر دی ‘وہ ایک وقت میں ایم کیو ایم کا چیئر مین بننے کا خواب دیکھنے لگے‘ ایم کیوایم نے بھی جنرل پرویز مشرف سے خوب وفاداری نبھائی‘ آپ 12 مئی 2007ءکے واقعات نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو اس وقت صرف ایم کیو ایم جنرل مشرف کیلئے میدان میں کھڑی نظر آئے گی‘ یوں تیسرا آپریشن بھی حالات کو مزید گھمبیر بنا گیااور کراچی میدان جنگ بن گیا‘ جنرل پرویز مشرف کی لبرل پالیسیوں نے طالبان کو کراچی کا راستہ دکھا دیا‘ کراچی میں مذہبی عسکری جماعتوں نے جڑ پکڑی اورکراچی طالبان کا دوسرا شمالی وزیرستان بن گیا“۔
میں خاموش ہو گیا‘ نوجوان نے کرسی پر پہلو بدلا اور بولا ”آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں“ میں نے عرض کیا ” 2008ءمیں آصف علی زرداری کی حکومت آئی‘ زرداری صاحب کو بھی ایم کیو ایم کی ضرورت تھی چنانچہ انہوں نے این آر او کے ذریعے تمام مقدمے ختم کرا دیئے‘ یہ اپنے قدموں پر چل کر نائین زیرو بھی گئے اور انہوں نے ایم کیو ایم کی وزارتیں بھی بحال رکھیں‘ 2013ءمیں میاں نواز شریف نے حکومت بنائی‘ میاں صاحب کو مارچ 2015ءمیں سینٹ کے الیکشنز میں ایم کیو ایم کی ضرورت پڑ گئی چنانچہ وہ میاں نواز شریف جس نے7 جولائی 2007ءکو لندن میں آل پارٹیز کانفرنس کے دوران یہ قرار داد پاس کرائی تھی ” کوئی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ انتخابی اتحاد کرے گی اور نہ اسے حکومت میں شامل کیا جائے گا“ اسی میاں نواز شریف نے 17 سال بعد9 مارچ کو میاں شہباز شریف کے ذریعے الطاف حسین سے رابطہ کیا اور ماضی کے تمام گلے شکوے ختم کر دیئے لہٰذا مجھے خطرہ ہے کہیں کراچی کے اس آپریشن کے خاتمے سے پہلے بھی کسی کو ایم کیو ایم کی ضرورت نہ پڑ جائے اور اگر ایسا ہوا تو پھر کراچی کی علیحدگی نوشتہ دیوار بن جائے گی کیونکہ اس آپریشن کی ناکامی کے بعد کراچی کی آدھی آبادی مسلح ہو جائے گی‘ یہ اپنا حساب خود شروع کر دے گی‘ یہ وجہ ہے میرا دل گھبراتا ہے‘ میں خاموش ہو گیا‘ نوجوان نے مجھے گھور کر دیکھا‘ قہقہہ لگایا‘ اٹھا اور یہ کہہ کر چلا گیا ” آپ نے بہت اچھا فلسفہ بے شرمی پیش کیا ہے“۔