میں ایلومینیم کے فریم میں شیشے لگاتا ہوں‘ میں قصور کا رہنے والا ہوں‘ میں روزی روٹی کی تلاش میں لاہور آ گیا‘ لاہور میں میرے دو کام تھے‘ میں شام تک کام کرتا تھا اور شام کے بعد تبلیغ میں مصروف ہو جاتا تھا‘ میں یوحنا آباد کے قریب رہتا تھا‘ میری دکان بھی مسیحی بھائیوں کی بستی کے قریب تھی‘ میں اتوار 15 مارچ کی صبح یوحنا آباد چلا گیا‘ میں اکثر اوقات اس آبادی میں چلا جاتا تھا‘ میرے وہاں جاننے والے بھی تھے اور دوست بھی‘ میں 15 مارچ کو کیتھولک چرچ کے قریب تھا‘ اچانک خوفناک دھماکہ ہوا‘ پور ا علاقہ لرز گیا‘ شیشے ٹوٹ گئے‘ چھتیں گر گئیں‘ سائن بورڈ اکھڑ گئے‘ دکانوں کے سائبان جوڑوں سے نکل گئے‘ میرے کان بند ہو گئے‘ میں کانوں میں انگلیاں ڈال کر سر کو بار بار جھٹکے دینے لگا لیکن مجھے پانچ منٹ تک کچھ سنائی نہ دیا‘ میں نے کان کے پردے ہلکے کرنے کےلئے ایک پاﺅں پر اچھلنا شروع کر دیا‘ میرا ایک کان کھل گیا‘ اب میری آنکھ جو دیکھتی تھی وہ مجھے بھی سنائی دیتا تھا‘ میں نے لوگوں کو دھائی دیتے‘ سیاپا کرتے‘ چیختے چلاتے دیکھا‘ لوگ دیوانہ وار بھاگ رہے تھے‘ میں بھی بھاگ کھڑا ہوا لیکن مجھے افراتفری میں سمت کا اندازہ نہ ہوا اور میں یوحنا آباد سے باہر نکلنے کی بجائے مزید اندرچلا گیا اور میں کیتھولک چرچ کے سامنے پہنچ گیا‘ چرچ کے باہر انسانی جسموں کے چیتھڑے پڑے تھے‘ میں نے انسانی آنتیں بجلی کی تاروں پر لٹکی دیکھیں‘ دیواروں پر انسانی آنکھیں چپکی ہوئی تھیں اور سڑک پر دور دور تک خون کے چھینٹے اور انسانی کھوپڑیوں کی چربی پھیلی تھی‘ فضا میں خون‘ جلے ہوئے گوشت اور بارود کی بو تھی‘ میں ٹھٹھک کر رک گیا اور بے بسی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ میں پتھرا چکا تھا‘ میرے پاﺅں زمین پر جم گئے تھے‘ آنکھیں پتلیوں سے باہر تھیں اور سانس بے قابو ہو رہی تھی‘ میں پتھر کی طرح چرچ کے سامنے کھڑا تھا‘ اچانک میری کمر سے کوئی سخت چیز ٹکرائی‘ میں گھبرا کر پیچھے مڑا‘ میرے سامنے دو نوجوان کھڑے تھے‘ دونوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے‘ وہ دونوں مجھے گالیاں دے رہے تھے‘ دہشت گرد‘ دہشتگرد کے نعرے لگا رہے تھے اور مجھ پر ڈنڈے برسا رہے تھے‘ میں نے ڈنڈوں سے بچنے کی کوشش کی‘ میں نے اچانک ” دہشت گرد پکڑ لیا‘ دہشت گرد پکڑ لیا“ کی آوازیں سنیں‘ میں نے ” مولوی کو پکڑو‘ وہ مولوی دہشت گرد ہے“ کی آوازیں بھی سنیں‘ وہاں پچاس ساٹھ نوجوان جمع ہوئے اور مجھے مارنا شروع کر دیا‘ میں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر ہجوم زیادہ تھا اور میری توانائی کم‘ میں سڑک پر گر گیا‘ مجھ پر چاروں طرف سے ڈنڈے برس رہے تھے‘ میں نے آنکھیں بند کر لیںاور اپنا چہرہ بازوﺅں میں چھپا لیا‘ میں درد سے دہرا بھی ہو چکا تھا‘ میرے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی‘ مجھے بس اتنا محسوس ہورہا تھا میرے پورے جسم پر لاٹھیاں برس رہی ہیں‘ میں نے اس وقت یوحنا آباد کی سڑک پر لیٹے لیٹے محسوس کیا‘ انسان ہمیشہ تکلیف میں آنکھیں بند کر لیتا ہے اور یہ موت کی آخری سرگوشی تک اپنا چہرہ بچانے کی کوشش کرتا ہے‘ شاید انسان کوشش کرتا ہے اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی شناخت باقی رہے‘ انسان جب موت کے قریب پہنچتا ہے تو اس کے کان بھی حساس ہو جاتے ہیں‘ ہم جو آوازیں عام حالت میں نہیں سن پاتے موت کے قریب پہنچ کر ہم وہ آوازیں بھی سننے لگتے ہیں‘ میں نے محسوس کیا جب انسان کی ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹتی ہیں تو اسے سب سے زیادہ درد ہوتا ہے‘ مجھے اس وقت محسوس ہوا آپ زندگی میں جن لوگوں سے نفرت کرتے ہیں وہ موت کے قریب پہنچ کر آپ کو زیادہ یاد آتے ہیں‘ آپ کو موت کے قریب پہنچ کر اپنا بچپن بھی یاد آتا ہے‘ آپ کے دماغ میں ایک فلم سی چلتی ہے اور آپ بچپن سے لے کر جوانی تک اپنی پوری زندگی کو چند لمحوں میں دیکھ لیتے ہیں اور مجھے محسوس ہوا جب آپ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹتی ہے تو آپ تمام دکھوں‘ تمام دردوں سے آزاد ہو جاتے ہیں‘ آپ کی ساری تکلیف ختم ہو جاتی ہے‘ میں نے شروع میں اپنی ٹانگوں کو کرچی کرچی ہوتے محسوس کیا‘ پھر میری پسلیاں ٹوٹیں‘ میں نے پسلیوں کی نوکوں کو اپنے دل‘ اپنے پھیپھڑوں اور اپنے جگر میں اترتے بھی محسوس کیا‘ پھر میری ناف پھٹی اور ناف سے انتڑیاں نکل کر باہر آ گئیں‘ ہجوم نے میری انتڑیوں کو ڈنڈے پر لپیٹنا شروع کر دیا‘ وہ انتڑیاں ڈنڈے پر لپیٹتے جاتے تھے اور میرا پیٹ خالی ہوتا جاتا تھا ‘ لوگوں نے پھر مجھے الٹا کیا اور پھر میری کمر پر درجنوں ڈنڈے گرے اور میری ریڑھ کی ہڈی چار جگہوں سے ٹوٹ گئی‘ میں درد اور تکلیف سے آزاد ہو گیا‘ مجھے ہجوم مارتا جا رہا تھا‘ مجھے اچانک کھانسی کا دورہ پڑا‘ میں نے کھانسنے کی کوشش کی لیکن میرے پھیپھڑے پھٹ چکے تھے‘ میرے گلے سے خون ٹپک رہا تھا‘ میں نے سانس کھینچی‘ سانس کھنچ گئی لیکن سانس واپس نہ جا سکی‘ میرا زخمی بدن کانپا‘ میرے ایک ایک انگ میں بجلی سی تڑپی اور میری روح نکل گئی‘ میں مر چکا تھا۔
مجھے مرنے کے بعد دو تجربے ہوئے‘ میرا کٹا پھٹا اور ننگا جسم سڑک پر پڑا تھا‘ لوگ میرے جسم پر ڈنڈے برسا رہے تھے لیکن میں اپنے جسم سے تین گز کے فاصلے پر فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا‘ میں دو لوگ بن چکا تھا‘ ایک وہ جسے لوگ توڑ رہے تھے اور ایک وہ جو ہر قسم کی تکلیف سے دور‘ چپ چاپ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا‘ میں جو زخمی تھا وہ لوگوں کو نظر آ رہا تھا اور میں جو ہر دکھ‘ ہر تکلیف سے آزاد تھا‘ وہ سب کو دیکھ رہا تھا لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ پا رہا تھا‘ میں نے فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے لوگوں کو اپنی لاش پر ڈنڈے برساتے دیکھا‘ میں نے لوگوں کو اپنی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتے دیکھا‘ یہ مجھے پاﺅں سے پکڑ کر کبھی ادھر گھسیٹتے تھے اور کبھی ادھر لے جاتے تھے‘ یہ میری لاش کو ٹھڈے بھی مار رہے تھے‘ یہ مجھے گھسیٹتے گھسیٹتے فیروز پور روڈ پر لے آئے‘ میں بھی فٹ پاتھ سے اٹھا اور آہستہ آہستہ ان کے پیچھے چل پڑا‘ میں اور میری لاش ہم اب فیروز پور روڈ پر تھے‘ ہجوم میں اضافہ ہو چکا تھا‘ یہ لوگ دہشت گرد‘ دہشت گرد اور ظالمو جواب دو‘ خون کا حساب دو کے نعرے لگا رہے تھے‘ یہ مجھے سڑک کے عین درمیان لے کر آئے‘ ایک بندہ دوڑتا ہوا آیا‘ اس کے ہاتھ میں تیل کا ڈبہ تھا‘ اس نے لوگوں کو پیچھے ہٹایا اور میرے اوپر تیل چھڑکا‘ میں پاﺅں سے سر تک تیل میں بھیگ گیا‘ دوسرے نے ماچس نکالی‘ تیلی جلائی ”پھپ“ کی آواز آئی اور اس نے تیلی میرے اوپر گرا دی‘ ”ٹھس“ کی آواز آئی اور میری لاش نے آگ پکڑ لی‘ شعلے دس دس فٹ اونچے تھے‘ فضا میں تیل‘ انسانی گوشت اور دھوئیں کی بو پھیل گئی‘ لوگوں نے بو سے بچنے کےلئے ناک پر ہاتھ رکھ لئے‘ میں جل رہا تھا اور لوگ نعرے لگا رہے تھے‘ وہ خون کا حساب مانگ رہے تھے‘ وہ ظالمو کو للکار رہے تھے‘ وہ گالیاں دے رہے تھے‘ وہ حکومت کے خلاف بھی نعرے لگا رہے‘ وہ جنگلے بھی توڑ رہے تھے‘ وہ ڈنڈے بھی لہرا رہے تھے اور وہ ملک کو برا بھلا بھی کہہ رہے تھے‘ لوگ ڈنڈوں سے میری لاش کو دائیں بائیں بھی کر رہے تھے‘ وہ میری لاش پر تیل بھی ڈالتے جا رہے تھے اور وہ مجھے پتھر بھی مارتے جا رہے تھے اور میں میٹرو بس کے جنگلے کے ساتھ بیٹھ کر اپنی لاش کو جلتا‘ لوگوں کو جلاتا اور نعرے لگاتا دیکھ رہا تھا‘ لوگ میری لاش کی دھڑا دھڑ تصویریں اور فلمیں بھی بنا رہے تھے‘ یہ مختلف زاویوں سے‘ کبھی آگے ہو کر اور کبھی پیچھے ہٹ کر میری فلم بناتے تھے‘ یہ میری لاش پر جھک کر بھی تصویریں بناتے تھے‘ میں یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ ”یہ کیوں ہو رہا ہے“میں باربار اپنے آپ سے پوچھتا تھا لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملتا تھا‘ میں جلتے جلتے کوئلہ ہو گیا‘ میرا وجود کوئلے کی طرح سیاہ ہو گیا‘ مجھے اس وقت ایک نیا تجربہ ہوا‘ مجھے معلوم ہوا انسان کی لاش جلنے کے بعد بے وزن ہو جاتی ہے‘ آپ کا وزن سو کلو گرام ہے اور آپ اگر خدانخواستہ جل گئے ہیں تو آپ کا وزن دس بارہ کلو گرام رہ جائے گا‘ انسان میں شاید پانی اور چربی بھاری ہوتی ہے‘ یہ جب جل کر ہوا میں اڑجاتی ہیں تو پیچھے صرف پنجر رہ جاتا ہے اور یہ بے وزن ہوتا ہے‘ میں جب جل جل کر بجھ گیا تو لمبے بالوں والے ایک نوجوان نے مجھے ڈنڈے کے ساتھ سیدھا کیا اور مجھے ڈنڈے کے سرے کے ساتھ گھسیٹتا ہوا میٹرو کے جنگلے تک لے آیا‘ اس نے مجھے میٹرو کے جنگلے کے ساتھ لگا دیا‘ میں اب جنگلے کے ساتھ چپکا ہوا تھا‘ وہ نوجوان میری جنگلے کے ساتھ چپکی لاش کو بھی ڈنڈے ماررہا تھا اور میں جنگلے کے ساتھ بیٹھ کر یہ منظر دیکھتا رہا۔
میں آپ کا ناشتہ خراب نہیں کرنا چاہتا‘ میں آپ کی خوبصورت اور خوشبودار زندگی میں زہر بھی نہیں گھولنا چاہتا‘ میں کسی کو اپنا قاتل‘ اپنا مجرم بھی نہیں سمجھتا‘ میں صرف آپ کو خوش قسمت اور خود کو بد قسمت سمجھتا ہوں کیونکہ 15 مارچ کو اگر آپ میری جگہ ہوتے تو شاید آپ کے ساتھ بھی یہی ہوتا‘آپ یاد رکھیں‘ پاکستان میں صرف آپ نہیں ہیں‘ یہاں ایک محروم طبقہ بھی ہے‘ یہ لوگ پیدا ہوتے ہی جبر کی چکی میں پسنے لگتے ہیں‘ ملک میں کچھ بھی ہو جائے‘ کوئی بھی اچھی یا بری تبدیلی آئے یہ طبقہ براہ راست متاثر ہوتا ہے‘ سیلاب آئے تو صرف ان کے گھر بہتے ہیں‘ زلزلہ آئے تو صرف ان کے گھر گرتے ہیں‘ بجلی‘ گیس اور پانی جائے تو صرف ان کے گھروں سے جاتی ہے‘ سڑکیں بنیں تو ان کے گھروں‘ ان کی دکانوں پر بنتی ہیں‘ میٹروبس شروع ہو تو صرف ان کی جائیدادیں سرکار کے قبضے میں آتی ہیں‘ فتح کے جشن ہوں تو ان کے گھروں پر حملے ہوتے ہیں‘ شکست ہو جائے تو بھی صرف یہ لوگ مارے جاتے ہیں اور دہشت گردی ہو تو بھی صرف یہ لوگ نشانہ بنتے ہیں‘ حالات کی اس چکی نے ان کی رگوں میں نفرت بھر دی ہے اور انھیں اب جہاں اپنی نفرت کے اظہار کا موقع ملتا ہے یہ پیچھے نہیں ہٹتے‘ یہ ملک کے محروم لوگ ہیں‘ محرومی ان کی قومیت بھی ہے‘ ان کی زبان بھی‘ ان کا فرقہ بھی اور ان کا مذہب بھی‘ یہ کبھی مسلمان بن کر کوٹ رادھا کشن میں شہزاد مسیح اورشمع بی بی کو بھٹے میں ڈال کر جلا دیتے ہیں‘ یہ کبھی جوزف کالونی میں ڈیڑھ سو گھر جلا دیتے ہیں‘ یہ کبھی عیسائی بن کر یوحنا آباد میں نعیم اور بابر نعمان کو راکھ بنا دیتے ہیں اور یہ کبھی شیعہ بن کر سنیوں کو قتل کرتے ہیں اور کبھی سنی بن کر شیعوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کردیتے ہیں اور یہ کبھی پٹھان‘ بلوچی‘ سندھی ‘ پنجابی اور مہاجر بن کر ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے ہیں‘ یہ مذہب‘ فرقے اور نسل سے بالا تر لوگ ہیں‘ یہ صرف محروم ہیں‘ میں بھی محروم تھا اور مجھے مارنے والے بھی محروم لوگ تھے‘ آپ جب تک ان لوگوں کی محرومی کا کوئی حل نہیں نکالیں گے اس وقت تک ہمارے جیسے لوگ قتل بھی ہوتے رہیں گے اور ہماری لاشوں کی بے حرمتی بھی ہوتی رہے گی‘ میں بدقسمت تھا‘ میں بد قسمتی کی موت مارا گیا اور آپ خوش قسمت ہیں آپ آج بھی دھوپ میں بیٹھ کر ناشتہ کر رہے ہیں۔
میں بس آپ لوگوں سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں‘ صرف ایک سوال‘ آپ نے کبھی ملک میں سنا کسی شخص نے کسی کتے‘ بلی یا بکری کو ڈنڈے مار مار کر مار دیا اور پھر اس کی لاش کو تیل چھڑک کر آگ لگائی ہو اور پھر اس لاش کو جنگلے کے ساتھ لٹکا دیا ہو‘ آپ نے یہ خبر کبھی سنی یا پڑھی نہیں ہو گی لیکن آپ نے پاکستان مین زندہ لوگوں کو سڑکوں پر ڈنڈے مار کر قتل کرنے‘ لاشوں کو آگ لگانے اور سوختہ لاشوں کو لٹکانے کے درجن بھر واقعات سنے ہوں گے‘ مجھے صرف یہ جواب دیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسان بلی اور بکری سے سستا کیوں ہے؟ یہاں بلیاں محفوظ اور انسان غیر محفوظ کیوں ہیں؟ آپ جیسے خوش قسمت لوگوں سے میرا بس یہ سوال ہے۔