آپ کو ماضی دیکھنا پڑے گا‘ ماضی میں دونوں سخت‘ بے لچک اور شدت پسند ہوتے تھے‘آپ پہلے یہودیوں کا ماضی دیکھئے‘ یہ لوگ اس قدر سخت اور بے لچک تھے کہ انہوں نے سینکڑوں نبیوں کو صرف عقائد کی بنیاد پر قتل کر دیا‘ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی( عیسائی عقیدے کے مطابق) صلیب پر چڑھا دیا‘ یہ لوگ اپنی شدت‘ سختی‘ بے لچک رویوں اور سازشی فطرت کی وجہ سے سینکڑوں ہزاروں سال سے دنیا میں خوار ہو رہے ہیں‘ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے‘ یہ لوگ آپ کو مصر کے صحرائے سینا سے لے کر ہٹلر کے جرمنی تک پوری تاریخ میں بین کرتے دکھائی دیں گے‘ آپ کو دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں ملے گا جہاں ان کی عبادت گاہیں نہ جلائی گئی ہوں‘ جہاں ان کے شہر اور محلے نہ جلائے گئے ہوں اور جہاں ان کو سرے عام قتل نہ کیا گیا ہو‘ یہودی لوگ تاریخ کا بین‘ تاریخ کا گریہ ہیں لیکن آج ایسا نہیں‘ آج کی صورتحال مختلف ہے‘ کیوں؟ یہ میں آپ کو تھوڑی دیر میں بتاؤں گا‘ ہم اب عیسائی مذہب کے پیرو کاروں کی بات کرتے ہیں‘ آپ عیسائیت کی ساڑھے انیس سو سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ آپ کو اس میں بھی قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہیں ملے گا‘کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ بھی بے لچک اور سخت تھے اور ان کے بے لچک رویوں اور سختی کی وجہ سے پروٹیسٹنٹ جیسا فرقہ بھی پیدا ہوا اور کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کے درمیان جنگ بھی ہوئی ‘ یہ جنگ تین سو سال تک چلتی رہی‘ یہ لوگ اس دوران چرچوں کو آگ لگا دیتے تھے اور پانچ پانچ سو لوگ چرچ میں جل کر مر جاتے تھے‘ اس دور میں شہر کے شہر جلا دیئے گئے‘ خواتین کی سرے عام بے حرمتی ہوئی‘ بچوں کو نیزوں پر پرویا گیا اور مردوں کو زمین پر لٹا کر ان پر گھوڑے دوڑا دیئے گئے‘ عیسائی اس عہد کو ’’سیاہ دور‘‘ کہتے ہیں‘ یہ لوگ اس دور میں اتنے سخت تھے کہ یہ دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتے تھے‘ برطانیہ کے ایک بادشاہ ہنری ہشتم نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا‘ پوپ نے اجازت نہ دی تو اس نے ویٹی کن سٹی سے ترک تعلق کر کے ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ بنا لیا‘ یہ چرچ آج تک قائم ہے‘ دنیا میں دو عالمگیر جنگیں ہوئی ہیں‘ یہ دونوں جنگیں عیسائیوں نے عیسائیوں کے خلاف لڑیں اور ان میں8سے 10 کروڑ لوگ مارے گئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے نوے فیصد شہر زمین بوس ہو چکے تھے لیکن آج ایسا نہیں‘ آج کی صورتحال قدرے مختلف ہے‘ کیوں؟ یہ میں آپ کو تھوڑی دیر میں عرض کرتا ہوں‘ ہم پہلے سفید چمڑی اور رنگ دار چمڑی کی بات کریں گے۔
ہم اگر مذہب‘ روحانیت‘ سائنس اور آرٹ چاروں کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہم یہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ رنگ دار جلد کے لوگ مذہب اور روحانیت کے بانی اور پیرو کار ہیں جبکہ سائنس اور آرٹ ہزاروں سال سے سفید چمڑی والوں کی میراث چلی آ رہی ہے‘ آپ سائنسی علوم اور آرٹ کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجئے‘ دنیا میں طب ہو‘ ریاضی ہو‘ کیمسٹری ہو‘ فزکس ہو‘ زووالوجی ہو یا پھر فلکیات ہو آپ کو تمام سائنسی علوم یونان سے لے کر پرتگال تک سفید فام لوگوں کی زمینوں سے جنم لیتے نظر آئیں گے‘ دنیا کی نوے فیصد ایجادات بھی ٹھنڈے علاقوں کے سفید فام لوگوں کے پروفائل میں جاتی ہیں‘ آرٹ میں بھی موسیقی ہو‘ مصوری ہو‘ مجسمہ سازی ہو‘ شاعری ہو‘ ڈرامہ ہو‘ نثر ہو یا پھر رقص ہو ان تمام کے مراکز بھی یورپی علاقے رہے ہیں‘ امریکا دریافت ہوا تو سائنس اور آرٹ دونوں امریکا چلے گئے‘ وہاں ان کی نشوونما میں تیزی آ گئی‘ تاریخ کے پچھلے دو سو سالوں میں دنیا کی نوے فیصد ایجادات کا مرکز امریکا چلا آ رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مذاہب اور روحانیت کے مراکز ایسے خطے اور ایسے علاقے رہے جہاں گرمی پڑتی تھی‘ جہاں زندگی مشکل تھی اور جہاں کے لوگوں کی جلد سیاہ تھی‘ براؤن تھی یا پھر زرد تھی‘ دنیا میں چار بڑے دین اترے ہیں‘ آپ کو براعظم یورپ‘ براعظم امریکا اور براعظم آسٹریلیا میں ان چاروں میں سے کسی آسمانی مذہب کے آثار اور شواہد نہیں ملتے‘ یورپ نے مذہب دوسرے خطوں سے امپورٹ کیا‘ ہم اگر مذہب‘ روحانیت‘ آرٹ اور سائنس چاروں کو ایک قطار میں رکھیں اور پھر سفید اور رنگ دار جلد کے لوگوں کو ان کے سامنے بٹھا دیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے یورپ‘ امریکا اور آسٹریلیا کے لوگ آرٹ اور سائنس کے ساتھ پیدا ہوئے اور انہوں نے مذہب اور روحانیت امپورٹ کی جبکہ ہم رنگ دار جلد کے لوگ مذہب اور روحانیت لے کر پیدا ہوئے اور ہم نے آرٹ اور سائنس درآمد کی یا درآمد کر رہے ہیں چنانچہ یورپ‘ امریکا اور آسٹریلیا کے لوگ مذہب اور روحانیت سیکھ رہے ہیں اور ہم آرٹ اور سائنس کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہاں سے مسئلہ پیدا ہو تا ہے کیونکہ آرٹ اور سائنس ہمارے لئے اجنبی ہیں اور مذہب اور روحانیت ان لوگوں کیلئے چنانچہ ہم دونوں ایک دوسرے کو شک اور حقارت سے دیکھتے ہیں۔
ہم اب آج کی یہودیت اور عیسائیت کی طرف آتے ہیں‘ یہ مذاہب خوشی قسمتی سے سینکڑوں ہزاروں سال قبل رنگ دار جلد کے گرم علاقوں سے نکل کر ان علاقوں میں چلے گئے جہاں ٹھنڈ بھی تھی‘ لوگ بھی سفید فام تھے اور جہاں آرٹ اور سائنس کی روایات بھی موجود تھیں‘ یہ مذاہب وہاں پہنچے‘ وہاں ان کے درمیان جنگیں ہوئیں اور لوگ سینکڑوں ہزاروں سال تک عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے رہے لیکن آخر میں آرٹ اور سائنس جیت گئی‘ یورپ میں آرٹ اور سائنس پہلے اور دوسرے نمبر پر آ گئے اور مذہب اور روحانیت نے تیسری اور چوتھی پوزیشن سنبھال لی‘ یہ لوگ کروڑوں لوگوں کی جان دے اور لے کر یہ بھی سمجھ گئے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی امن بہرحال سپریم ہونا چاہیے جبکہ دوسری طرف ہم رنگ دار جلد کے لوگ مذہب اور روحانیت کی تلوار سے آرٹ اور سائنس کے ساتھ لڑتے بھی رہے اور ایک دوسرے کا گلہ بھی کاٹتے رہے‘ ہم آج بھی یہ کر رہے ہیں‘ ہم آج آرٹ سے بھی لڑ رہے ہیں‘ سائنس سے بھی‘ دوسرے مذاہب اور عقائد کے لوگوں سے بھی اور آخر میں اپنے مسلک اور اپنے روحانی سلسلے کو حق اور دوسرے روحانی سلسلے اور مسلک کو کافر سمجھ کر ایک دوسرے کا گلا بھی کاٹ رہے ہیں‘ یہودی اور عیسائی گلے کاٹ کاٹ کر سمجھ دار ہو چکے ہیں‘ وہ آرٹ اور سائنس کی پناہ میں چلے گئے جبکہ ہم نے آرٹ کو تسلیم کیا‘ سائنس کو مانا‘ دوسرے مذہب کو اور نہ ہی دوسرے مسلک اور روحانی سلسلوں کو چنانچہ ہم لڑتے چلے جا رہے ہیں‘ آپ ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجئے‘ آپ سنٹرل ایشیا سے لے کر ترکی تک اور ایسٹرن یورپ سے لے کر عرب کے ٹھنڈے علاقوں تک کا مطالعہ کیجئے‘ آپ وہاں کے مسلمانوں کو پرامن بھی دیکھیں گے اور آپ کو وہاں آرٹ اور سائنس بھی پروان چڑھتی نظر آئے گی جبکہ اس کے مقابلے میں آپ کو گرم علاقوں کے رنگ دار مسلمان حالت جنگ میں نظر آئیں گے۔
آپ اب ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجئے‘ 1990ء کی دہائی میں انٹرنیٹ عام ہوا تو دنیا سمٹ گئی‘ وائی فائی نے اس عمل کو تیز کر دیا‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب‘ سکائپ اور وٹس ایپ نے 2010ء تک دنیا کو حقیقتاً گلوبل ویلج بنا دیا‘ دنیا اب سات براعظموں پر پھیلی دنیا نہیں رہی‘ یہ اب چار انچ کا گلوبل ویلج بن چکی ہے‘ آپ کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور آپ اس فون کے ذریعے پوری دنیا کے ساتھ منسلک ہیں‘ 2020ء تک دنیا مزید آگے چلی جائے گی‘ دنیا کا کوئی شخص دوسرے شخص سے اوجھل نہیں رہے گا‘ آج کے اس گلوبل ویلج میں مذہب اور روحانیت کے ساتھ پیدا ہونے والے رنگ دار لوگ اور آرٹ اور سائنس کے ساتھ جنم لینے والے سفید فام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہیں اور یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ الجھ بھی رہے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ دونوں کا پس منظر اور روایات مختلف ہیں‘ ان دونوں کے درمیان ہزاروں سال کا فاصلہ ہے‘ یہ فاصلہ‘ یہ فرق اور یہ معاشرتی اختلاف نئے قوانین‘ نئے سوشل کانٹریکٹ کا متقاضی ہے‘ یہ دنیا بھر کے حکمرانوں سے تقاضا کر رہا ہے آپ اگر جارج بش اور حاجی بشیر کو ایک دوسرے کے ساتھ بٹھانا چاہتے ہیں‘ آپ اگر دنیا کو پرامن دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو نئے ضابطے اور نئے قوانین بنانے ہوں گے‘یورپ کو سمجھنا ہو گا ہم مسلمان شراب نہیں پیتے‘ ہم سور نہیں کھاتے‘ ہمارے حلال اور آپ کے حلال میں فرق ہے‘ ہماری خواتین سکارف لیتی ہیں‘ ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں‘ ہم نماز پڑھتے ہیں‘ ہم داڑھی رکھتے ہیں‘ آپ لوگوں نے ہماری یہ روایات تسلیم کر لیں‘ آپ ہماری داڑھی‘ ہماری نماز‘ ہماری تلاوت‘ ہمارے سکارف اور ہمارے حلال پر اعتراض نہیں کرتے‘ ہم آپ کے مشکور ہیں‘ آپ اب مہربانی فرما کر ہماری ایک بات بھی مان لیں‘ ہم لوگ اپنے رسولؐ اورصحابہ اکرامؓ سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتے ہیں‘ ہم ان کی توہین برداشت نہیں کر سکتے چنانچہ آپ انبیاء کرام اور صحابہ کرامؓ کی توہین کا سلسلہ بند کر دیں‘ آپ قانون پاس کر دیں‘ یورپ اور امریکا میں کسی نبی‘ کسی مقدس ہستی کا کارٹون بنے گا اور نہ ہی کوئی فلم ‘ آپ یقین کریں دنیا پرامن ہو جائے گی‘ مسلمان آپ کے ساتھ ہنسی خوشی رہیں گے اور آپ کو اس کے نتیجے میں یونٹی مارچ کرنے پڑیں گے اور نہ ہی سیکورٹی پر سینکڑوں ارب ڈالر خرچ ہوں گے‘ ہم مسلمانوں کو بھی معاملے کا فلسفیانہ تجزیہ کرنا ہو گا‘ ہمیں یہ جاننا ہو گا مذہب یورپ میں درآمد ہوا تھا‘ یورپ کے لوگوں نے مذہب کی وجہ سے سینکڑوں جنگیں بھی لڑیں اور یہ کروڑوں لاشیں بھی اٹھا چکے ہیں چنانچہ یہ لوگ مذہب کے باغی ہیں‘ یہ آزادی رائے کو اپنا سب سے بڑا حق بھی سمجھتے ہیں‘ یہ لوگ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک ایسی خوف ناک فلمیں بنا چکے ہیں جن کا ہم تصور تک نہیں کر سکتے اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا یورپی معاشرے میں توہین آمیز خاکے بنانے والے چند لوگ ہیں‘ باقی لوگ پرامن بھی ہیں اور یہ ہمارے مذہبی عقائد کا احترام بھی کرتے ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے ہم حملوں کی بجائے یورپ میں توہین مذہب اور توہین رسالت کا قانون پاس کروانے کیلئے یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر سفارتی دباؤ ڈالیں‘ ہم اقوام متحدہ کو مجبور کریں‘ ہم یورپی یونین کو بھی قائل کریں یہ انبیاء کرام کی حرمت کا قانون پاس کریں‘ مجھے یقین ہے ہم اگر کوشش کریں تو یہ لوگ ایسا قانون پاس کر دیں گے کیونکہ یورپ نے امن کیلئے کروڑوں لوگوں کی جانیں دی ہیں‘ یہ لوگ ہر حال میں امن چاہتے ہیں‘ ہم بس مناسب راستہ اختیار کریں‘ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ورنہ دوسر ی صورت میں یہ اختلافات صلیبی جنگوں کی شکل اختیار کر لیں گے اور پوری دنیا تباہ ہو جائے گی کیونکہ دنیا کے پاس اس بار صرف نظریات نہیں ہیں ایٹم بم بھی ہیں۔
نیو سوشل کانٹریکٹ
12
جنوری 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں