پادری دعا کیلئے آگے بڑھا‘ اس کے سامنے 20لاکھ لوگ موجود تھے جبکہ ٹیلی ویژن سکرینوں کے ذریعے پوری دنیا اسے دیکھ رہی تھی‘ پادری نے مجمعے کی طرف دیکھا اور بولا ’’یہ ہمارے خدا کی دین اور ہمارے معاشرے کی ترقی کا ثبوت ہے کہ آج افریقہ کے ایک مہاجر کا بیٹا دنیا کی واحد سپر پاور یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کا صدر بن گیا‘‘ پورے مجمعے نے نعرے لگائے اور تالیاں بجائیں‘
حلف کی تقریب کے آخرمیں باراک حسین اوبامہ نے خطاب کیا‘ اس خطاب میں انہوں نے اعتراف کیا ’’میرے والد کا تعلق کینیا کے ایک پسماندہ گاؤں سے تھا‘ وہ تارک وطن تھے‘ انہوں نے امریکہ میں پناہ لی تھی‘ وہ سکالر تھے لیکن غربت اور مالی کسمپرسی کا شکار تھے چنانچہ وہ ساٹھ برس قبل ریستوران میں ویٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے‘‘ صدر اوبامہ کے اس اعتراف پر لوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں اور انہوں نے ’’یس وی کین اوبامہ‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ 20جنوری 2009ء امریکہ کی اخلاقی فتح اور اس کے نظام کی کامیابی کا دن تھا اور ہم اگر چند لمحوں کیلئے اپنا تعصب‘ اپنی نفرت اور امریکہ کے خلاف اپنی رنجش ایک طرف رکھ دیں اور امریکہ کی جمہوری خوبیوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں امریکہ کی کامیابی اور عروج کی وجہ معلوم ہو جائے گی۔ امریکہ صرف تعلیم‘ معیشت‘ انڈسٹری‘ ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر میں پوری دنیا سے آگے نہیں بلکہ اس کی اصل خوبصورتی‘ اس کی اصل طاقت اس کی جمہوریت‘ اس کا نظام ہے اور یہ وہ نظام ہے جس کی بنیاد آج سے چودہ سو سال پہلے نبی اکرمﷺ نے مدینہ میں رکھی تھی۔ اسلام کے ظہور سے قبل عرب طبقاتی تقسیم کا شکار تھے‘ ان کی اشرافیہ کو سات قتل معاف تھے جبکہ غلاموں کو پورے کپڑے پہننے‘ حرم میں داخل ہونے اور بنو ہاشم کے کنوئیں سے پانی تک پینے کی اجازت نہیں تھی‘
لیکن پھر اسلام کا ظہور ہوا اور اللہ اور اس کے رسولﷺ نے عربی اور عجمی اور گورے اور کالے کی تمیز ختم کر دی۔ رسول اللہ ﷺ نے شام کی طرف پہلا لشکر بھجوایا تو اس کا سالار ایک غلام زادے اسامہ بن ریدؓ کوبنایا اور عرب کے بڑے بڑے سرداروں کو ان کا ماتحت بنا دیا۔ نبی اکرمﷺ کے وصال کے بعد یہ لشکر واپس لوٹ آیا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسے دوبارہ روانہ کیا اور خود اس غلام زادے کے گھوڑے کی رکاب پکڑ کر لشکر کو مدینہ سے تک چھوڑنے گئے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے جب حضرت خالدؓ بن ولید کو معزول کیا تو انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے سپہ سالار کی گرفتاری کا فریضہ غلام ابن غلام حضرت بلالؓ حبشی کو سونپا‘ حضرت بلالؓ حضرت خالدؓ بن ولید کے قریب پہنچے‘ انہیں خلیفہ کا پیغام سنایا‘ ان کی پگڑی کھول کر اس سے ان کے ہاتھ باندھے اور انہیں سوا لاکھ جوانوں کے لشکر کے درمیان سے لے کر مدینہ روانہ ہو گئے اور کسی کو اُف تک کرنے کی جرات نہ ہوئی‘
یہ اسلام کی وہ خوبی تھی جس نے مسلمانوں کو دنیا کی سپر پاور بنا دیا لیکن پھر اسلام کی یہ خوبی زوال پذیر ہوئی اور اسلامی مساوات خاندانوں‘ حسب نسب اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی نخوت تلے رونددی گئی اور یوں سمندروں جیسی وسیع اسلامی ریاست چھوٹے چھوٹے بدبودار جوہڑوں میں تبدیل ہو گئی جبکہ ہمارے دشمنوں نے اسلام کی یہ خوبی ’’ہائی جیک‘‘ کر لی چنانچہ آج سیاہ رنگ کا ایسا معمولی پروفیسر جس کا مسلمان والد60سال قبل غربت سے تنگ آ کرکینیا سے امریکہ پہنچا تھا اور جو تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے ریستوران پر ویٹری کرتا تھا وہ دنیا کی اس واحد سپر پاور کا صدر بن گیا ہے جس کا دفاعی بجٹ چار سو بلین ڈالر ہے‘
جس کا ایک ’’اوکے‘‘ گیارہ منٹ میں آدھی دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے اور جس کی ایک ہاں پاکستان جیسے درجنوں ملکوں کو خوشحال اور رئیس بنا سکتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے وہ اسلام جس نے دنیا میں پہلی بار گورے اور کالے کی تمیز ختم کی تھی اس کے ماننے والے تو آج غیر عربی کو عمرے تک کی اجازت نہیں دیتے‘ وہ تین تین نسلوں سے اپنے ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو شہریت نہیں دیتے اوروہ آج بھی خارجی کہہ کر غیر عربی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں جبکہ اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ملک نہ صرف کینیا کے ایک کالے مسلمان کی اولاد کو اپنا صدر منتخب کر لیتا ہے بلکہ اس کا اسلامی نام ’’بارک حسین اوبامہ‘‘ بھی تسلیم کر لیتا ہے۔
افسوس صد افسوس برابری‘ مساوات‘ انسانی حقوق اور انسانیت کو قانون کی شکل دینے والے مذہب کے پیروکار تو کم تر نسل کے مسلمان کے ہاتھ سے پانی نہیں پیتے جبکہ مسلمانوں کے دشمن امریکہ کے تخت پر ایک کالا بیٹھ گیا اور پورے امریکہ کے گورے جشن منا رہے ہیں۔ میں آج کے دن دنیا بھر کے مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں‘ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کوئی ایسا سیاہ فام پروفیسر جس کا والد ریستوران میں ویٹر رہا ہو کیا وہ کسی اسلامی ملک کا صدر یا وزیراعظم بن سکتا ہے؟
کیا سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت ‘ عراق‘ شام ‘ مصر‘ اردن اور انڈونیشیا سمیت 58اسلامی ممالک میں کوئی سیلف میڈ‘ کوئی غریب انسان‘ کوئی مہاجر اور کوئی ایسا باشندہ جس کا والد کسی دوسری قومیت اور رنگ سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ ان ملکوں کا سربراہ منتخب ہو سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے صدر‘ وزیراعظم یا بادشاہ تو بڑی دور کی بات ہے ہمارے 58اسلامی ملکوں میں کوئی غریب‘ کوئی خارجی اور کوئی کالا (افریقی اسلامی ممالک کے سوا) پارلیمانی امور تک کا وزیر نہیں بن سکتا اور یہ وہ بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے آج امریکہ ان داتا اور اسلامی دنیا بھکاری ہے۔
آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ عربوں کا وہ دور نکال کر دیکھ لیجئے جب ابو لہب اور ابو جاہل جیسے سردار کالے غلاموں کو خانہ کعبہ کے سائے تک میں نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور پھر آپ وہ دور دیکھ لیجئے جب حضرت بلال حبشیؓ کی اذان پر مدینہ کے سارے سردار نماز کیلئے مسجد نبویؐ میں حاضر ہوتے تھے اور ایک سردار زادہ (حضرت خالدؓ بن ولید) اپنے ہاتھ بوڑھے حبشی غلام (حضرت بلالؓ) کے آگے کر دیتا تھا اور وہ اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار کے ہاتھ اسی کی پگڑی سے باندھ دیتا تھا۔
آپ دونوں ادوار کا موازنہ کر لیجئے‘آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی طبقاتی تقسیم کے دور میں عرب غلام بھی تھے‘ مفلس بھی‘ بے آسرا بھی اور بے حمیت بھی لیکن جب معاشرے میں مساوات آئی تو مدینہ پوری دنیا کا دارالحکومت بن گیا۔ مسلمانوں کے پاس اتنی دولت آئی کہ پوری اسلامی ریاست میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا اور ایک عام عربی سردار روزانہ ہزار ہزار مہمانوں کو کھانا کھلاتا تھا ۔ دنیا کی دس ہزار سال کی تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے جس معاشرے میں مساوات ‘ برابری اور تمام شہریوں کیلئے ترقی کے یکساں مواقع نہیں ہوتے ان معاشروں میں خوشحالی‘ طاقت اور اطمینان نہیں آتا۔
آپ یقین کیجئے آج اگر امریکا ایک سیاہ فام باشندے کو اقتدار منتقل نہ کرتا تو امریکا کو ٹوٹتے ‘ بکھرتے اور زوال پذیر ہوتے دیر نہ لگتی۔ یہ اسلامی اصول صرف قوموں اور ملکوں تک محدود نہیں بلکہ میرا ذاتی تجربہ ہے جس سیاسی جماعت‘ تنظیم‘ ادارے‘ محکمے‘ کمپنی‘ فیکٹری اور فرم میں بھی اس اصول کی پیروی ہوتی ہے وہ فرم‘ وہ ادارہ اور وہ سیاسی جماعت بے تحاشا ترقی کرتی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے جس دکان‘ فیکٹری اور ادارے میں ملازمین اور مالکان اورورکرز اور افسروں میں مساوات ہوتی ہے‘
جس سیاسی جماعت میں بارک اوبامہ جیسے لوگوں کیلئے ترقی کے راستے کھلے ہوتے ہیں اور جس محکمے میں گورے اور کالے اور چھوٹے اور بڑے برابر ہوتے ہیں وہ آگے بھی بڑھتے ہیں اور مضبوط بھی ہوتے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچاپاکستان میں فوج کا ادارہ کیوں مضبوط ہے اور سیاسی جماعتیں کیوں زوال پذیر ہیں؟ اس کی وجہ یکساں مواقع ہیں‘ فوج میں آج بھی جنرل اشفاق پرویز کیانی جیسے لوئر مڈل کلاس بیک گراؤنڈ کے افسر آرمی چیف بن جاتے ہیں ‘ فوج میں آج بھی جنرلوں کے صاحبزادے اور کلرکوں کے بچے ایک ہی عمل سے گزر کر اوپر آتے ہیں جبکہ ہماری سیاسی جماعتوں میں چند اعلیٰ خاندانوں کا قبضہ ہے یا ان پر بریف کیس مافیا قابض ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں میں باراک حسین اوبامہ جیسے مڈل کلاسیئے لیکن جینوئن سیاسی کارکن اوپر نہیں آسکتے۔ آپ پورے ملک کی سیاسی جماعتوں کا پروفائل نکال لیجئے اور غور کیجئے آپ کو ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت کی بالائی صف میں مڈل کلاس دکھائی نہیں دے گی اور یہ وہ وجہ ہے جس پر ہم جتنا غور کریں ہمیں اتنی ہی شرم آئے گی‘ ہم شرمندہ ہوں گے۔