ڈاکٹر عبدالقدیر رہا ہو چکے ہیں‘ عدالت کے فیصلے کے مطابق وہ اب پاکستان کے کسی بھی حصے میں جا سکتے ہیں لیکن کل سے حکومت نے سیکورٹی کے نام پر ڈاکٹر صاحب کی آزادی کے پر کاٹنا شروع کر دئیے ہیں مگرپوری قوم کی خواہش ہے ڈاکٹر صاحب کی آزادی کو محدود کرنے کا یہ سلسلہ جلد ختم ہو جائے اور لوگ ڈاکٹر صاحب کو اپنے درمیان گھومتے پھرتے دیکھیں۔
میں اس ملک کے باقی سترہ کروڑ لوگوں کی طرح ڈاکٹر صاحب کا فین ہوں‘ ڈاکٹر صاحب ایک وژنری‘ بہادر اور متحرک شخص ہیں۔ آپ تصور کیجئے جس شخص نے چند خرادیوں کو جمع کر کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا تھا‘ جس نے دنیا جہاں سے نٹ بولٹ اور پرزے اکٹھے کر کے یورینیم افزودہ کر دی تھی اور جس نے وسائل‘ صلاحیت اور حوصلے کی کمی کے شکار اس ملک کو آبرو‘ عزت اور حمیت کے ساتھ جینے کے قابل بنا دیا اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو کس کس صلاحیت سے نوازا ہے؟ وہ اس ملک کے لئے کیا کیا کر سکتا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو رہائی نصیب کی چنانچہ ڈاکٹر صاحب اس مہلت کو استعمال کر کے پاکستان کو اسلامی دنیا کا ہارورڈ یا آکسفورڈ بنا سکتے ہیں‘ وہ اگرتعلیم بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو اپنا مقصد حیات بنالیں اور پاکستان میں دنیا کی جدید ترین ٹیکنیکل یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دیں اور اس یونیورسٹی میں اسلامی دنیا کے طالب علموں کو سائنس کی تعلیم اور ٹریننگ دیں تو مجھے یقین ہے یہ یونیورسٹی اسلامی دنیا کو ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سینکڑوں‘ ہزاروں بلکہ لاکھوں سائنس دان فراہم کر سکتی ہے اور یہ اصل اسلامی انقلاب ہوگا۔ہم اب فرض کرتے ہیں ڈاکٹر عبدالقدیر اپنے لئے تعلیم کا میدان چنتے ہیں اور وہ پاکستان میں بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے سامنے کیا کیا مسئلے سر اٹھائیں گے؟
ڈاکٹر صاحب کے سامنے فنڈز‘ فیکلٹی‘ ٹیکنالوجی اور سلیبس جیسے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت ہے آج دنیا میں مسلمان جائے نماز اور تسبیح تک بنانے میں غیر مسلموں کے محتاج ہیں لہٰذا ڈاکٹر صاحب کو بھی اچھی یونیورسٹی بنانے کیلئے بیرونی امداد درکار ہو گی لہٰذا سوال یہ ہے اس کے لئے ڈاکٹر صاحب کیا کریں ؟ڈاکٹر صاحب فنڈز تو اسلامی دنیا سے جمع کر سکتے ہیں مگر فیکلٹی سلیبس اور تجربہ گاہیں کہاں سے ملیں گی؟ یقیناًیہ بہت بڑا چیلنج ہو گا‘
اس کیلئے ڈاکٹر صاحب کے پاس دو آپشن ہیں‘ وہ یورپ اور امریکہ سے مدد لیں یا پھر جاپان اور چین کی طرف بڑھیں‘ یورپ اور امریکہ ایٹم بم بنانے کے جرم کی وجہ سے کسی قیمت پر ڈاکٹر صاحب کی مدد نہیں کریں گے جس کے بعد پیچھے رہ جاتے ہیں جاپان اور چین ۔ میرا خیال ہے اگر ہم اس سلسلے میں ذرا سی سمجھداری سے کام لیں‘ ہم چینی اور جاپانی اقوام کے مذہبی جذبات کو تحریک دے لیں تو یہ مسئلہ فوراً حل ہو سکتا ہے۔لیکن کیسے؟ اس کیلئے ہمیں تاریخ میں جھانکنا ہوگا۔
یہ ملک جسے اب دنیا پاکستان کہتی ہے یہ بودھ مت کے پیروکاروں کیلئے مقدس حیثیت رکھتا ہے‘ آج سے پانچ ہزار سال قبل مارگلہ کی پہاڑیوں سے سوات کے پہاڑوں تک یہاں ایک سولائزیشن تھی جسے تاریخ تاکشیلا‘ ٹیکسلا‘ گندھارا یا بودھ سولائزیشن کہتی ہے‘ آج جس جگہ اسلام آباد‘ واہ اور ٹیکسلا کے شہر آباد ہیں یہاں دو ہزار سات سو برس پہلے دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی ہوتی تھی‘ یہ یونیورسٹی بودھ مت کے عظیم رہنما چلاتے تھے‘
اس یونیورسٹی میں 68شعبے (فیکلٹیز) تھے اور اس میں ایک وقت میں دس ہزار پانچ سو طالب علم پڑھتے تھے‘ یہ دنیا کی وہ پہلی درسگاہ تھی جس نے لسانیات‘ فلسفے‘ طب ‘ سرجری‘ آرکیالوجی‘ سیاسیات‘ دفاع‘ فلکیات‘ اکاؤنٹس‘ دفتری نظام‘ موسیقی‘ رقص‘ مصوری‘ تحقیق اور غیر مرئی علوم کو باقاعدہ سائنس کی شکل دی ‘ ان کا نصاب مرتب کیااور پھر نوجوانوں کو پڑھانا شروع کیا‘ اس یونیورسٹی میں داخلے کیلئے 16سال عمر اور مضامین کے بارے میں ابتدائی معلومات ضروری ہوتی تھیں‘
جب طالب علم ایک بار یہاں ’’داخل‘‘ ہو جاتا تھا تو پھر اسے یہاں 8برس تک مسلسل پڑھنا پڑتا تھا‘ یہ یونیورسٹی دنیا میں اتنی مشہور تھی کہ بابل‘ یونان‘ روم‘ شام‘ عرب‘ چین‘ ہندوستان اور اس وقت کے مشرق بعید کے بادشاہ‘ راجے اور مہاراجے اپنے بچوں کو پڑھنے کیلئے یہاں بھیجا کرتے تھے‘ خود مہاتما بدھ اس علاقے میں آئے‘ رہے اور انہوں نے اس زمین کو پسند فرمایا تھا‘ اسلام آباد کے ای سیون سیکٹر میں آج بھی برگد کا وہ درخت موجود ہے جس کے نیچے مہاتما بدھ نے قیام کیا تھا‘
ہر سال سینکڑوں بودھ اس درخت کی زیارت کیلئے آتے ہیں۔ اس یونیورسٹی نے اپنے وقت کے تین اسکالر پیدا کئے تھے‘ چارک جس نے طب میں آریوویدک طریقہ علاج دریافت کیا‘ کوٹلیہ جس نے ارتھ شاستر جیسی معرکتہ الآراء کتاب لکھی اور دنیا میں سفارتکاری‘ حکومت کاری اور سیاست کاری کو باقاعدہ فن کی شکل دی اور پانافی جسے سنسکرت کے سب سے بڑے اسکالر کی حیثیت حاصل ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’مہا بھارت‘‘ سب سے پہلے اسی یونیورسٹی میں پڑھی گئی تھی‘
یہ یونیورسٹی بعدازاں وقت کی گرد میں دفن ہو گئی لیکن ٹیکسلا کے قریب ’’جولیاں‘‘ میں آج بھی اس کے آثار موجود ہیں‘ دنیا سے ہر سال ہزاروں بودھ ٹیکسلا آتے ہیں‘ جولیاں کے قرب و جوار میں پھرتے ہیں اور اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب مارگلہ کی پہاڑیوں سے سوات اورسوات سے افغانستان کے شہر بامیان تک بدھ کا امن‘ آشتی اور محبت کا پیغام گونجتا تھا‘ جب دنیا بھر کے پیاسے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے ٹیکسلا آتے تھے اور علم و ادب کے چشموں سے سیراب ہوتے تھے۔
دنیا میں اس وقت گیارہ بڑی بودھ ریاستیں ہیں‘ جاپان‘ چین‘ سری لنکا‘ تھائی لینڈ‘ لاؤس‘ کمبوڈیا‘ برما‘ منگولیا‘ ویتنام‘ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا۔ ان گیارہ ممالک میں سے 3کا شمار فرسٹ ورلڈ میں ہوتا ہے۔ جاپان‘ چین اور جنوبی کوریا وہ ممالک ہیں جو ٹیکنالوجی‘ علم اور سرمائے کے لحاظ سے ’’سپرپاور‘‘ ہیں اور یہ تینوں ممالک ٹیکسلا کو اپنا ویٹی کن سمجھتے ہیں چنانچہ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر جولیاں کی 2ہزار 7سو سال پرانی یونیورسٹی کی تعمیر نو کا اعلان کر دیں‘ یہ ٹیکسلا میں دنیا کی قدیم ترین درسگاہ میں جدید ترین یونیورسٹی قائم کرنے کا بیڑا اٹھا لیں تو یہ 11ممالک ان کی بھر پور مدد کر سکتے ہیں۔
صرف ٹوکیو شہر میں ایک ہزار یونیورسٹیاں ہیں جبکہ چین کی بیجنگ یونیورسٹی کا شمار دنیا کی 20بڑی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے‘ اگر ڈاکٹر صاحب ٹوکیو کی دس اور چین کی ایک یونیورسٹی کا تعاون حاصل کر لیں تو پاکستان کے نوجوان پانچ برسوں میں اندھیرے سے روشنی میں آ سکتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر صاحب ٹیکسلا‘ گندھارا یا بودھ یونیورسٹی کے نام سے ادارہ قائم کریں‘ جولیاں کے آثار کے گرد پہاڑوں میں عمارتیں بنانے کا آغاز کریں اور پھر دیکھیں اللہ کہاں کہاں سے کرم کرتا ہے۔
اس ملک کی بجھی بھٹیوں سے کون کون سی چنگاری اڑتی ہے اور اس ملک کی فضاؤں میں کون کون سے رنگ بکھرتے ہیں۔ اللہ کے حبیبﷺ نے فرمایا تھا ’’علم حاصل کرو خواہ اس کیلئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ میں عالموں کی جوتیوں کی خاک سے بھی کمتر ہوں لیکن نہ جانے کیوں یہ احساس ہوتا ہے شائد اللہ کے حبیبﷺ کے اس فرمان کے ہزاروں معنوں میں سے ایک معنی یہ بھی ہیں ’’تم لوگ چین جاؤ‘ علم کی مشعل حاصل کرو اور پھر یہ مشعل ٹیکسلا جیسے ویرانوں میں رکھ دو تاکہ اس کی روشنی 61اسلامی ممالک کے اندھیروں کو نور میں بدل دے ‘‘
چنانچہ اگر ڈاکٹر صاحب اسلام کی بجھی ہوئی مشعل کو چین اور جاپان کی جلتی مشعلوں تک لے جائیں‘ مومن کی بجھی ہوئی میراث کو جلتی ہوئی میراث کے ساتھ مس کریں اور چنگاری میں چنگاری اور روشنی میں روشنی ملائیں تو مجھے یقین ہے اندھیروں میں غرق عالم اسلام میں دوبارہ علم کا نور پھیل جائے گا۔ ہم ایک بار پھر اقوام عالم کی راہبری کا فریضہ ادا کرنے لگیں گے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کوٹ پتلون اور ٹائی مسلمانوں نے ایجاد کی تھی‘ آنکھ کی ہئیت‘ آنکھ کا پہلا آپریشن مسلمانوں نے کیا تھا‘
دنیا کا پہلا باقاعدہ ہسپتال مسلمانوں نے بنایا تھا‘ روشنی کے انعکاس کا فارمولہ مسلمانوں نے دریافت کیا تھا‘ علم ہندسہ‘ دھاتوں کا دھاتوں سے تعلق اور ایک ہزار نوسو بارہ کیمیائی ردعمل مسلمانوں کی دریافت تھے لیکن آج یہ مسلمان ٹوائلٹ پیپر تک نہیں بنا سکتے‘ یہ مسلمان ڈسپرین کی گولی تک کیلئے محتاج ہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر عالم اسلام کی وہ واحد ہستی ہیں جو پاکستان میں اسلامی دنیا کی پہلی ہارورڈ یونیورسٹی بنا کر مسلمانوں کو محتاجی سے رہائی دلا سکتے ہیں۔