تنہائی کے اضطراب میں، مصیبتوں کے ہجوم میں اور ستمگاریوں کے تلاطم میں ساتھ دینے والی آپ صلى الله علیه وسلم کی غمگسار بیوی ام الموٴمنین حضرت خدیجہ-رضی الله عنہا کا رمضان ۱۰ ء نبوت میں جب انتقال ہوگیا تو آپ صلى الله علیه وسلم نے چار سال بعد یہ ضروری سمجھا کہ آپ صلى الله علیه وسلم کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہوں جنہوں نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی میں کھولی ہو اور جو نبی صلى الله علیه وسلم کے گھرانے میں آ کر پروان چڑھیں،
تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکیں۔چنانچہ اس مقصد کے لیے مشیت الٰہی نے حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کو منتخب فرمایا اور شوال ۳ ء قبل الہجرہ مطابق ۶۲۰/ مئی میں حضرت عائشہ رضی الله عنہاسے آپ صلى الله علیه وسلم کا نکاح ہوا، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر جمہور علماء کے یہاں چھ سال تھی اور تین سال بعد جب وہ ۹ سال کی ہوچکی تھیں اور اُن کی والدئہ محترمہ حضرت ام رومان رضی الله عنہا نے آثار و قرائن سے یہ اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ وہ اب اس عمر کو پہنچ چکی ہیں کہ رخصتی کی جاسکتی ہے تو نبی اکرم صلى الله علیه وسلم کے پاس روانہ فرمایا اور اس طرح رخصتی کا عمل انجام پایا۔
(صحیح مسلم جلد۲، صفحہ ۴۵۶، اعلام النساء صفحہ ۱۱، جلد ۳، مطبوعہ بیروت)
حضرت عائشہؓ ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی صاحبزادی تھیں، ماں کا نام زینب بنت عو یمر اور کنیت اُمّ رومان تھی۔آپ پہلے جبیر بن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب تھیں۔حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد حضرت خولہ ؓبنت حکیم نے آنحضرت ﷺسے نکاح کی تحریک کی، آپﷺ نے رضا مندی ظاہر کی، خولہؓ نے ا ُم رومان سے کہا تو انھوں نے حضرت ابو بکرؓ سے ذکر کیا، حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ جبیربن مطعم سے و عدہ کرچکا ہوں اور میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ لیکن مطعم نے خود اس بناء پر انکار کردیا کہ اگر حضرت عائشہؓ اس کے گھر آگئیں تو گھر میں اسلام کا قدم آجائے گا ، اس طرح وہ بات ختم ہو گئی اور حضرت ابو بکرؓ نے حضور اکرم ﷺسے آپ کا نکاح کردیا۔ چار سو درہم مہر قرار پایا ۔لیکن مسلم میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہوتا تھا، (سیرت النبی ،ابن ہشام-جلد اول)