ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے کے حالات اسلام قبول کرنے والوں کے لیے انتہائی پریشان کْن اور اذیت ناک تھے۔ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے کے حالات اسلام قبول کرنے والوں کے لیے انتہائی پریشان کْن اور اذیت ناک تھے۔ بقول شخصے اسلام کی تاریخ بننے سے قبل ہی بگڑتی معلوم ہوتی تھی۔ گنتی کے چند لوگ ہی قبول اسلام کے بعد اپنے نظریے پر استقامت سے کھڑے تھے۔
شرق و غرب اور عرب و عجم سے کفر و ظلم کی تاریکیوں کو مٹانے کی دعوے دار یہ قلیل سی، مگر منظم اجتماعیت خود اپنے ہی شہر میں تاریخی جبر کے ہاتھوں مجبور اور مقہور تھی۔ وہ کون سی ذہنی و جسمانی اذیت تھی، جس کا کڑوا کسیلا ذائقہ رحمۃ اللعالمین ؐ اور اؐپ کے صحابہؓ نے نہ چکھا ہو، مگر صد آفرین کہ بار گاہ الہیٰ میں ایک ساعت کے لیے بھی شاکی نہ ٹھہرے۔ایسے میں رب العالمین نے اپنے محبوب ؐ اور ان کے جان نثاروں کی دل بستگی اور ہمت افزائی کے لیے وہ تاریخی انعام فرمایا کہ جو حضور سرور دو عالم ؐکے توسط و تصدق سے تا قیامت عالمی انسانی ترقی کی حقیقی منزل کا روشن نشان قرار پایا۔
آسمانی برق سے تیز رفتار براق پر سوار آقائے دو جہاں ؐ اور جبریل امین ؑ پر مشتمل مختصر سے قافلہ نے پہلا قیام مسجد اقصیٰ میں فرمایا۔ سابقہ انبیاء و رسل ؑ نے استقبال فرمایا اور آپؐ کی اقتداء فرمائی۔ لہٰذا خاتم الا انبیاءؐ سفر معراج کی ابتداء میں امام الانبیاء کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ ایسی عظیم الشان تقریب کے لیے شایان شان مقام کے حسنِ انتخاب کے کیا کہنے! کہ جو اکثر انبیاء کا وطن اور مدفن ہے۔یہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر فرمائی، جہاں چنیدہ اْوالعزم پیغمبروں سے فرداً فرداً ملاقات کا اہتمام موجود تھا۔
پہلے آسمان پر سیدنا آدم ؑ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر یحییٰ ؑ و عیسیٰ ؑ نے مرحبا کہا، تیسرے آسمان پر حسن یوسف ؑ نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ موجود تھے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ سے تعارف ہوا، چھٹے آسمان پر سیدنا موسیٰ ؑ کا جاہ و جلال سراپائے استقبال تھا اورساتویں آسمان پر آپ ؐ کے جد امجد سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اپنی دعا کو مکمل و مجسم صورت میں ملاحظہ فرما رہے تھے۔