اسلام آباد (نیوز ڈیسک) – ترکی میں استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو، جو صدر رجب طیب اردوان کے بڑے سیاسی حریف سمجھے جاتے ہیں، کو صدارتی امیدوار نامزد کیے جانے سے چند روز قبل حراست میں لے لیا گیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بدھ کی صبح ترک پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔
اکرم امام اوغلو، جو سیکولر نظریات کی حامل ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) سے تعلق رکھتے ہیں، کو 23 مارچ کو صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا جانا تھا۔ تاہم، ان پر کرپشن اور ایک دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ پولیس نے تحقیقات کے دوران 100 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے، جن میں سیاستدان، صحافی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ امام اوغلو نے اپنی گرفتاری کے بعد ایک آن لائن بیان میں کہا کہ عوام کی رائے کو دبایا نہیں جا سکتا۔
ترکی میں احتجاج اور حکومتی ردعمل
اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ترکی کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ استنبول میں عوام نے سڑکوں، یونیورسٹیوں اور ٹرین اسٹیشنوں پر احتجاج کیا، جس کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ حکومت نے استنبول میں چار دن کے لیے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے، لیکن اپوزیشن نے مزید مظاہروں کی پیشگوئی کی ہے۔
ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امام اوغلو کی گرفتاری دراصل انہیں آئندہ صدارتی انتخابات کی دوڑ سے باہر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ دوسری طرف، ترکی میں سوشل میڈیا سروسز میں خلل پڑنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، جس کے باعث عوام کو معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
یونیورسٹی ڈپلومہ کی منسوخی
دلچسپ بات یہ ہے کہ امام اوغلو کی گرفتاری سے ایک دن قبل، ان کا یونیورسٹی ڈپلومہ بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔ عرب میڈیا کے مطابق، اس فیصلے کے بعد امکان ہے کہ وہ صدارتی انتخاب کے لیے اپنی نامزدگی سے محروم ہو سکتے ہیں۔
ترکی میں یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، اور اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔