نئی دہلی(این این آئی)بھارت میں کسانوں کا دہلی چلو مارچ نویں روز بھی جاری, ہریانہ پولیس کا کسان مظاہرین پر تشدد,کسان رہنمائوں نے نئے نظام پر حکومت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا جبکہ بھارتی سکھ ریٹائرڈ فوجیوں نے بھی مودی سرکار کو خبردار کر دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق بھارتی پنجاب کے شہر چندی گڑھ میں مرکز کی تجاویز کو مسترد کرنے کے بعدکسانوں کے احتجاج میں 200 سے زائد یونینز مارچ میں شامل ہوگئیں۔پنجاب ہائی کورٹ نے کسانوں کو ایک جگہ نہ جمع ہونے کا حکم نامہ جاری کردیا،مودی سرکار نے کسان مظاہرین سے حواس باختگی میں دہلی کی سرحدوں پر سکیورٹی بڑھا دی،14 ہزار سے زائد کسان پنجاب ہریانہ شمبھو بارڈر پر جمع ہیں ۔
دہلی چلو کسان مظاہرین 1200 ٹریکٹرز کے ساتھ مارچ کی جانب رواں دواں ہیں ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مارچ میں لوگوں کی تعداد سے بھارتی دارالحکومت میں رکاوٹوں کے خدشات بڑھ رہے ہیں، کسانوں نے سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے ایم ایس پی پر دالوں، مکئی اور کپاس کی خریداری کی حکومت کی تجاویز مسترد کر دی تھی، کسان مزدور سرون سنگھ کا کہنا تھا کہ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ یا تو ہماریمسائل حل کریں یا ہماری رکاوٹیں ہٹائیں جائیں،آگے بڑھنا ہماری مجبوری بن گئی ہے اب آگے جوبھی ہوگا بھارت سرکار خود ذمہ دار ہوگی دہلی چلو مارچ کے مظاہرین پولیس کے بہیمانہ تشدد کے باوجود اپنے حق پر ڈٹے ہیں۔
مظاہرین نے21فروری کو دہلی میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔احتجاجی کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے 2020 میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔ دوسری جانب کسانوں کے مطالبات سے مودی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہیریٹائرڈ سکھ فوجی نے مودی سرکار کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ؛اگر ہمارے ساتھ کوئی زیادتی کی تو ہمارے سپاہی بچے بارڈر چھوڑ دیں گے اور 10منٹ کے اندر چین اور پاکستان دہلی پہنچ جائے گاسکھ رہنماں کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنا ہماری مجبوری بن گئی ہے، اب آگے جو بھی ہو گا اس کا ذمہ دار مودی سرکار خود ہو گیکسانوں کا دہلی چلو مارچ پچھلے8روز سے جار ی ہے۔ واضح رہے 2020 میں بھی ہزاروں کسانوں نے متنازع زرعی اصلاحات کے خلاف دہلی کی سرحد پر دھرنا دیا جس کے بعد مودی سرکار کو نئے قوانین معطل کرنے پڑے تھے