بغداد (آن لائن) سابق عراقی صدر صدام حسین کے باورچی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ محاذ جنگ پر بھی پسندیدہ پکوان لے جاتے تھے۔ پولینڈ کے معروف مصنف یتولد زیبلوفسکی نے اپنی تصنیف ’ڈکٹیٹر کے دسترخوان‘ میں صدام حسین کے باورچی کا علامتی نام ابو علی بتایا ہے۔ابو علی نے بتایاکہ صدام حسین کو خاص انداز سے پکائے جانے والے کھانے اچھے لگتے ہیں۔ صدام حسین اس وقت تک کسی بھی کھانے
کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے تاوقتیکہ ان کی سکیورٹی ٹیم وہ کھانے چکھ کر رپورٹ نہ دے۔ اس قسم کے سخت حفاظتی انتظامات اس ڈر سے کیے جاتے تھے کہ کہیں کسی نے پکوان میں زہر نہ ملا دیا ہو۔۔ حد تو یہ ہے کہ 1980 سے 1988 کے دوران ایران اور عراق کے درمیان جاری جنگ کے دوران محاذ جنگ پر بھی وہ اپنے پسندیدہ پکوان لے کر جایا کرتے تھے۔ابو علی نے بتایا کہ ایک مرتبہ عجیب و غریب واقعہ پیش ا?یا۔ صدام حسین کو عربی کوفتے پسند تھے۔ ان کی ضد تھی کہ وہ عراق میں دریائی سیر کے دوران اپنے مہمانوں کو خود اپنے تیار کردہ کوفتے کھلائیں گے۔ دلچسپ ماحول اس وقت بنا جب انہوں نے کوفتے میں گرم مصالحے بہت زیادہ بھر دیے ۔ ابوعلی نے بتایا کہ صدام حسین فرزند عراق تھے۔انہیں بھنڈی کا سوپ، دال کا سوپ اور مچھلی کا سوپ بے حد مرغوب تھا۔ وہ کوئلوں پر سینکی ہوئی مچھلی بے حد رغبت سے کھاتے تھے۔ سابق عراقی صدر صدام حسین کے باورچی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ محاذ جنگ پر بھی پسندیدہ پکوان لے جاتے تھے۔ پولینڈ کے معروف مصنف یتولد زیبلوفسکی نے اپنی تصنیف ’ڈکٹیٹر کے دسترخوان‘ میں صدام حسین کے باورچی کا علامتی نام ابو علی بتایا ہے۔ابو علی نے بتایاکہ صدام حسین کو خاص انداز سے پکائے جانے والے کھانے اچھے لگتے ہیں۔ صدام حسین اس وقت تک کسی بھی کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے تاوقتیکہ ان کی سکیورٹی ٹیم وہ کھانے چکھ کر رپورٹ نہ دے۔