مودی حکومت ترقی کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی اب ان کا ترقی کا ڈھول پھٹ گیا‘کنہیا کمار نے بی جے پی کی بولتی بند کردی

18  فروری‬‮  2020

پٹنہ (این این آئی)انڈیا میں مذہبی نفرت کی سیاست میں میں شدت آئی ہے۔ ملک کی سیاست نفرت میں ڈوبی ہوئی ہے لیکن اس کی ایک حد ہے اور یہ زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ایسا کہنا ہے انڈیا کے ابھرتے ہوئے رہنما کنہیا کمار کا جو ان دنوں شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف پورے بہار میں ریلیاں کر رہے ہیں۔ ان کی ریلیوں میں لاکھوں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔کنہیا کمار کہتے ہیں کہ پوری دنیا کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ

جب بھی کہیں معیشت بحران سے گزرتی ہے وہاں نفرت کی سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ملک کی معیشت انتہائی برے وقت سے گزر رہی ہے۔ حکومت دانستہ طور پر نزاعی موضوعات کو اچھال رہی ہے تاکہ لوگوں کی توجہ روزی روٹی اور ملازمت جیسے بنیادی سوالوں سے ہٹائی جا سکے۔واضح رہے کہ کنہیا کمار 27 فروری کو ریاستی دارالحکومت پٹنہ میں ایک بڑی ریلی منعقد کر رہے ہیں۔ اس میں ملک کے بڑے سیاسی رہنما، دانشور اور فنکار شریک ہوں گے۔اس ریلی میں ریاستی حکومت سے اپیل کی جائے گی کہ وہ اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے شہریت کے قانون کو مسترد کر دے۔ ریاست میں بی جے پی کے اتحاد کی حکومت ہے۔کنہیا کمار کا کہنا ہے کہ شہریت کا قانون سی اے اے مودی حکومت کو آسام کی وجہ سے لانا پڑا۔’مودی حکومت یہ توقع کر رہی تھی کہ آسام میں این آر سی سے شہریت سے خارج ہونے والے بیشتر لوگ مسلمان ہوں گے لیکن جب 19 لاکھ میں 15 لاکھ باشندے ہندو نکلے تو پھر انھیں شہریت دینے اور چار لاکھ مسلمانوں کو شہریت سے باہر کرنے کے لیے سی اے اے لانا پڑا۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو اس قانون کو واپس لینا پڑے گا۔کنہیا نے غیر ملکی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں 40 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کے پاس پیدائش، جائیداد اور رہائش وغیرہ کے صحیح دستاویزات نہیں ہیں۔ این آر سی ای کی صورت میں پورے ملک میں

صرف مسلمان ہی نہیں کروڑوں ہندو بھی متاثر ہوں گے۔ بہت سی ریاستیں اسے پہلے ہی مسترد کر چکی ہیں۔وہ کہتے ہیںمودی حکومت ترقی کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی اب ان کا ترقی کا ڈھول پھٹ گیا ہے۔ وہ پوری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اب ان کے پاس نفرت کی سیاست کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔کنہیا کہتے ہیں کہ ملک کی فضا یقیناً بہت خراب ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں نے بی جے پی کی

مذہبی نفرت کی سیاست کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔بی جے پی کو جتنے ووٹ ملتے ہیں اس سے دوگنے لوگ اس کے خلاف ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہندوتوا کی سیاست سے لوگوں کو یکجا کرنا آسان ہے لیکن جو سیکولر جماعتیں ہیں وہ ایک ساتھ نہیں آ پاتیں۔کنہیا کا خیال ہے ملک کی اپوزیشن جماعتیں فرقہ پرستی کی سنگینی کو ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھیں۔اب انھوں نے اس کے خطرے کو

سمجھنا شروع کیا ہے اور وہ جگہ جگہ اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔کنہیا کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے لوگوں کی نفسیات میں انصاف کا پہلو بہت مضبوط ہے۔ یہاں جمہوریت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ان کا کہنا ہے اس سیاہ رات کے بعد تو صبح ہو گی، یقین ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے بعد انڈیا کی جمہوریت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گی۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…