نئی دہلی (نیوز ڈیسک) بھارت میں انٹیلی جنس بیورو سے لے کر این آئی تک دس سینٹرل ایجنسیاں اب کسی بھی کمپیوٹر میں موجود، ریسیو اور اسٹورڈ ڈیٹا سمیت کسی بھی معلومات کی نگرانی، انٹرسپیٹ اور ڈکرپٹ کرسکتی ہیں۔ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ایک حکم کے مطابق 10 ایجنسیوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی کمپیوٹر کے ڈیٹا کو چیک کرسکتی ہیں۔
ان ایجنسیوں میں انٹیلی جنس بیورو، نارکوٹکس کنٹرول بیورو، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، سینٹرل ٹیکس بورڈ، ریونیو انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ، مرکزی تفتیشی بیورو، قومی تفتیشی ایجنسی، کابینہ سکرٹریٹ (آر اینڈ ارے ڈبلیو) ڈائریکٹوریٹ آف سگنل انٹیلی جنس (جموں و کشمیر)، نارتھ ایسٹ اور آسام کے علاقوں کیلئے اور پولیس کمشنر دہلی کا شامل ہیں۔بھارتی وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے مطابق اس آرڈر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات میں توسیع کر دی گئی ہے تاکہ وہ موجودہ دور کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ یہ حکم نامہ 20 دسمبر کو جاری کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس پر عوام کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور اس حکم سے سیاستدانوں اور شہریوں نے آن لائن شدید مذمت کی ہے۔ اس حکم کے مطابق سبھی سبسکرائبر یا سروس پرووائیڈر اور کمپیوٹر کے مالک کو ایجنسیوں کو تکنیکی تعاون دینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے، تو انہیں سات سال کی سزا کے ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ شدید ردعمل کے بعد حکومت یہ واضح کرنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ آرڈر نیا نہیں ہے اور وہ محض ان اختیارات کا اعادہ کر رہی ہے جو ان ایجنسیوں کو پہلے سے دستیاب تھے۔ نئے حکم سے ان ایجنسیوں کے اختیارات میں بہت اضافہ ہوگیا ہے، جنہیں پہلے صرف کالز یا ڈیٹا کو روکنے کی اجازت تھی۔ بنیادی طور پر اب سرکاری ادارے آپ کی کالیں ٹیپ کر سکتے ہیں، آپ کی آن لائن کمیونیکشن کو پڑھ سکتے ہیں، آپ کے کمپیوٹر پر محفوظ ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں چاہے وہ انٹرنیٹ سے منسلک ہے یا نہیں اور ساتھ ہی کسی ڈیجیٹل معلومات کو روک سکتے ہیں۔ پہلے ڈیٹا اسکین کرنے کے اختیارات مختلف ایجنسیوں کو دیے گئے تھے لیکن اب موجودہ اعداد و شمار، سٹوریج اور پیدا ہونے والے ڈیٹا کو بھی روکا جا سکتا ہے۔