تہران(این این آئی)عراق میں امریکی فوج کے فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایرانی اور امریکی قیادت کے درمیان ذرائع ابلاغ پر لفظی جنگ بھی زور وشور سے جاری ہے۔حالیہ ایام میں امریکا اور ایران کی ایک دوسرے کوسبق سکھانے کی دھمکیوں کے ساتھ ایران کے ثقافتی مقامات اور 52 کا عدد بھی بحث میں چھائے رہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق ٹویٹر پر یکے بعد آنے والی ٹویٹس میں ایرانی ثقافتی مراکز پر بھی کسی نا کسی شکل میں بحث کی گئی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے کسی قسم کی جارحیت کی تو اس کے جواب میں ایران میں 52 مقامات کو سرعت اور طاقت سے نشانہ بنایا جائے گا۔ امریکی صدر نے کہا کہ 52 کا عدد سنہ 1979ء میں ایرانی انقلاب کے دوران یرغمال بنائے گئے امریکی سفارت کاروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ٹرمپ کے بیان کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف میدان میں آئے اور ایرانی ثقافت اور تہذیب کا حوالہ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ نے ایران میں 52 مقامات کو نشانہ بنایا تو یہ جنگی جرم ہوگا۔اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی ٹرمپ کے دفاع میں اتر آئے اور اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ایرانی ہم منصب کو ان کی اوقات یاد دلائی۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی تہذیب وثقافت کو ایرانی رجیم سے زیادہ کسی نے نقصان نہیں پہنچایا۔انہوں نے ٹویٹس میں لکھا کہ یہ ایرانی رجیم ہی ہے جو ایران قوم سے ان کی تہذیب وثقافت اور کلچر چھین رہی ہے۔ عید نوروز پر تعطیل ختم کردی گئی۔ لوگوں جو خوشی منانے سے روکا جاتا ہے۔ ملک میں مذہبی رواداری نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس طرح ایرانی رجیم نے ایرانی عوام سے ہر وہ چیز چھین لی جس سے وہ پیار کرتے ہیں۔
مائیک پومپیو نے مزید لکھا کہ تہران رجیم ایرانی ثقافت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے رواداری اور تحمل کے کلچر کی بنیاد رکھی، تاریخ گواہ ہے کہ ہم فارس کے کلچر کا بے حد احترام کرتے ہیں۔امریکی صدر کی طرف سے 52 کے عدد کی دھمکی کے جواب میں صدر حسن روحانی نے کہا کہ ہمیں باون کا عدد یاد دلانے والے 290 کے عدد کو نہ بھولیں۔ ان کا اشارہ سنہ 1998ء میں مار گرائے گئے ایرل سول طیارے کی طرف تھا جس میں 290 ایرانی ہلاک ہوگئے تھے۔ ایرانی صدر نے اشارتا دھمکی دی کہ اگر امریکا نے 52 ایرانی مقامات کو نشانہ بنایا تو امریکا کے 290 مقامات تہران کے نشانے پر ہوں گے۔