واشنگٹن (این این آئی) امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ امریکا شمالی شام میں موجود اپنے ایک ہزار فوجیوں کو واپس بلانے کی تیاری کر رہا ہے۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق خطے سے فوجی انخلا کی تیاریاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی میں تبدیلی اور داعش کے خلاف جنگ میں کرد جنگجوؤں کے ساتھ تعاون کے لیے تعینات فوج کو واپس بلانے کے فیصلے کے بعد سامنے آئی ہیں۔
امریکا کے اس فیصلے سے ترکی کو شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے خلاف کارروائی کرنے کا موقع ملا تھا۔مارک ایسپر نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ترک اپنے حملوں کو مزید بڑھاتے ہوئے جنوب اور پھر مغرب کی جانب بڑھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایس ڈی ایف معاہدہ کرنا چاہتا ہے اور اگر ایسا ہوسکا تو پھر شام اور روس کے زیر کنٹرول علاقے شمال میں ترک فوج پر جوابی حملے کیے جاسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میری صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہفتے کی رات کو بات ہوئی تھی اور انہوں نے ہدایت دی ہے کہ امریکی فوج کو شمالی شام سے واپس بلایا جائے۔دریں اثنا دو امریکی دفاعی حکام کا کہنا تھا کہ کم تعداد میں امریکی فوجی شمالی شام میں عین عیسیٰ شہر کو چھوڑ کر جاچکے ہیں۔نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر عہدیداروں نے بتایا کہ فوج کو ترک حملوں کی زد میں آنے کا خدشہ تھا جس کی وجہ سے انہیں وہاں سے نکالا گیا ہے۔واضح رہے کہ ترکی نے شام میں کرد جنگجووں، جسے وہ دہشت گرد قرار دیتا ہے، کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوج کو وہاں سے بے دخل کرنے کے اچانک فیصلے کے فوری بعد کیا، جبکہ ٹرمپ کے فیصلے کو واشنگٹن میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔