قاہرہ(این این آئی)لیبیا کے سابق مقتول مرد آہن کرنل معمر قذافی کے چچا زاد احمد قذاف الدم نے انکشاف کیا ہے کہ کرنل قذافی نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے، ترکی میں اقتدار حاصل کرنے اور حکومت کے قیام میں مدد کے لیے 30 ارب ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی تھی۔عرب ٹی وی کو انٹرویومیں قذاف الدم نے کہا کہ قذافی ترکی کو عرب اور اسلامی دنیا کا ایک بڑا ملک بنانا چاہتے تھے۔
ترکی کے ساتھ دینی اور تاریخی روابط کی بنیاد پر انہوں نے ترکی کی رفاہ پارٹی کے صدر نجم الدین اربکان کیساتھ بھی تعلقات استوار کیے۔ نجم الدین اربکان اپنے اسلام پسندانہ نظریات کی وجہ سے مشہور تھے۔سنہ 1980ء میں انہوں نے ترک حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے پر زور دیا۔ اسی عرصے میں کرنل معمر قذافی کی پروفیسر اربکان اور ان کی جماعت کی قیادت سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں موجود ترک صدر رجب طیب ایردوآن بھی موجود تھے۔ اس موقع پرلیبی لیڈر نے ترکی میں اسلام پسندوں کوپارلیمانی انتخابات میں کامیاب کرنے اور اقتدار میں لانے کے لیے مالی معاونت کا یقین دلایا،قذاف الدم نے انکشاف کیا کہ کرنل معمر قذافی نے ترک اسلام پسند رہ نما نجم الدین اربکان کے سامنے یہ شرط رکھی ان کی جماعت رفاہ پارٹی پارلیمانی انتخابات اور حکومت سازی میں کامیابی کے بعد ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرتے ہوئے عرب ممالک کے ساتھ مقابلہ بازی کے بجائے تعاون کو فروغ دے گی اور ترکی کو اسلامی ممالک کی صف میں لائے گی۔ نیز یہ کہ ترک حکومت فلسطین جیسے دیرینہ مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے ترکی عالمی فورمز پرعرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کا ثبوت دے گا۔قذاف الدم نے بتایا کہ اربکان اور ان کی جماعت نے ترکی میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی کے باوجود قذافی کے ساتھ طے پائے عہد و پیمان پورے نہ کیے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی برقرار رکھے، عرب ممالک بالخصوص شام اور مصر کے ساتھ مخاصمت بھی ترک نہ کی اور عرب ممالک کے اہم ترین مسائل کے حل میں بھی کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔لیبی رہ نما نے انکشاف کیا کہ قذافی کی طرف سے اربکان کو دی گئی مالی امداد کیبعد طیب ایردوآن کے ساتھ بھی
کئی سرمایہ کارانہ معاہدے کیے۔ ان میں دو طرفہ صنعتی، تجارتی اور آبی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے سمجھوتے شامل تھے۔دونوں ملکوں کے درمیان عسکری میدان میں بھی تعاون شروع ہوا۔ یوں لیبیا اور ترکی کے درمیان تعلقات میں مزید گہرائی آتی گئی تاہم جب کرنل قذافی نے محسوس کیا کہ طیب ایردوآن اور ان کی جماعت ان کے ساتھ کیے وعدے ایفا نہیں کررہے توانہوں نے مالی مدد روک دی تھی۔
قذاف الدم نے انکشاف کیا کہ ترکی میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے کئی بار لیبیا کے سابق مرد آہن کرنل معمر قذافی سے ملاقاتیں کیں۔ انتخابات سے قبل ایردوآن کی جماعت کی طرف سے طرابلس کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے اقتدار میں آنے کے بعد ان پرعمل نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ استنبول کی
مساجد میں نیم برہنہ سیاحوں کی آمد اور یادگاری تصاویر بنواتے ہوئے مذہبی مقامات کی بے حرمتی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔قذاف الدم نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پرعرب ممالک پراپنی اجارہ داری مسلط کرنے کا الزام عاید کیا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی نے عرب ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کیقیام کے بجائے شام اور عراق پرحملے کرکے توسیع پسندی کا طرز عمل اپنایا۔
عرب ممالک میں کالعدم قرار دی گئی مذہبی جماعت اخوان المسلمون کی حمایت کی۔ مصر میں من پسند حکومت کے قیام کے لیے مداخلت کی کوشش کی گئی اور مصرمیں 25 جنوری 2011ء کوبرپا ہونے والی بغاوت کے بعد اسلام پسندوں کو اقتدار میں لانے کی کوشش کی گئی۔قذاف الدم کا کہناتھا کہ موجودہ ترک حکومت اور صدر طیب ایردوآن عرب ممالک سے دشمنی کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔ عرب ممالک اور
ترکی کے درمیان دینی اور ثقافتی قدروں کے مشترک ہونے کے باوجود ایردوآن خلافت عثمانیہ کی بحالی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ چار براعظموں پرپھیلی عظیم الشان سلطنت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں مگر مصرمیں اخوان المسلمون، سوڈان میں عمرالبشیر کے سقوط کے بعد ترک قیادت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ لیبیا کے ذریعے اپنے بڑھنے کا راستہ تلاش کررہی ہے۔