پیر‬‮ ، 07 اپریل‬‮ 2025 

مودی کو اپنے پر تنقید پسند نہ آئی ، کتنے اخبارات کے اشتہارات روک دیئے ؟ تفصیلات سامنے آ گئیں

datetime 29  جون‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی(آن لائن)بھارتی حکومت نے تقریباً 3 بڑے اخبارات کے لیے اشتہارات روک دیے جس کے بارے میں اپوزیشن اور ایگزیکٹوز کا کہنا ہے کہ یہ تنقید شائع کرنے کا رد عمل ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے آزادی صحافت پر حملے کیے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب صحافیوں نے بھی حساس خبریں لکھنے پر سخت رد عمل کا سامنا کرنے کی شکایت کی ہے۔

بھارت کے بڑے اخبار جن کی مجموعی اشاعت 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہے، کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے ایک ماہ قبل سے ہی لاکھوں روپے کے سرکاری اشتہارات رک گئے ہیں۔بینیٹ کولمین اینڈ کو، جو ٹائمز آف انڈیا اور اکنامک ٹائمز اخبارات کے انتظامات سنبھالتا ہے، کے ایگزیکٹو نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘یہاں رکاوٹ پیدا کی گئی ہے جس کی وجہ چند رپورٹس جن سے وہ ناخوش ہیں، ہوسکتی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ٹائمز گروپ کے 15 فیصد اشتہارات حکومت سے آتے ہیں جن میں زیادہ تر اشتہارات سرکاری ٹینڈرز اور اسکیموں کے ہوتے ہیں’۔اے بی پی گروپ جو ‘دی ٹیلی گراف’ اخبار شائع کرتا ہے، کے 2 حکام نے بتایا کہ ‘ہمارے اخبار نے قومی سلامتی اور بے روزگاری کے حوالے سے ریکارڈ شائع کرتے ہوئے نریندر مودی سے سوالات کیے تھے، ہمیں گزشتہ 6 ماہ میں سرکاری اشتہارات میں 15 فیصد کمی کا سامنا ہے’۔اے بی پی حکام کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ اپنے ایڈیٹوریل میں حکومت کی مقررہ لکیر کو پار کرتے ہیں اور کچھ بھی حکومت کے خلاف شائع کرتے ہیں تو ان کے پاس آپ کو سزا دینے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اشتہارات روک دیتے ہیں’۔ایک اور حکام کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور کمپنی اس خلا کو پر کرنے کے لیے دیگر ذرائع تلاش کر رہی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آزادی صحافت کو برقرار رہنا ہوگا اور یہ ان چیزوں کے بغیر ہوگا’۔بھارت کے وفاقی اشتہارات کے ذمہ دار بیورو آف آؤٹ ریچ اینڈ کمیونکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ستیاندر پراکاش نے رائے کے لیے کیے گئے ای میلز اور فون کالز کا جواب نہیں دیا تاہم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نالن کوہلی کا کہنا ہے کہہ بھارت میں صحافت پوری طرح آزاد ہے۔ان کا کہنا

ہے کہ ‘حکمراں جماعت کے خلاف اخبارات اور ٹی وی چینلز پر تنقید کی جاتی ہے تاہم بی جے پی کا آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے الزامات مضحکہ خیز ہیں’۔خیال رہے کہ عالمی آزادی صحافت کے انڈیکس برائے 2019 میں بھارت کا نمبر 180 میں سے 140 ہے جو افغانستان، میانمار اور فلپائن سے بھی کم ہے۔

موضوعات:



کالم



زلزلے کیوں آتے ہیں


جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…

ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…