مودی کو اپنے پر تنقید پسند نہ آئی ، کتنے اخبارات کے اشتہارات روک دیئے ؟ تفصیلات سامنے آ گئیں

29  جون‬‮  2019

نئی دہلی(آن لائن)بھارتی حکومت نے تقریباً 3 بڑے اخبارات کے لیے اشتہارات روک دیے جس کے بارے میں اپوزیشن اور ایگزیکٹوز کا کہنا ہے کہ یہ تنقید شائع کرنے کا رد عمل ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے آزادی صحافت پر حملے کیے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب صحافیوں نے بھی حساس خبریں لکھنے پر سخت رد عمل کا سامنا کرنے کی شکایت کی ہے۔

بھارت کے بڑے اخبار جن کی مجموعی اشاعت 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہے، کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے ایک ماہ قبل سے ہی لاکھوں روپے کے سرکاری اشتہارات رک گئے ہیں۔بینیٹ کولمین اینڈ کو، جو ٹائمز آف انڈیا اور اکنامک ٹائمز اخبارات کے انتظامات سنبھالتا ہے، کے ایگزیکٹو نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘یہاں رکاوٹ پیدا کی گئی ہے جس کی وجہ چند رپورٹس جن سے وہ ناخوش ہیں، ہوسکتی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ٹائمز گروپ کے 15 فیصد اشتہارات حکومت سے آتے ہیں جن میں زیادہ تر اشتہارات سرکاری ٹینڈرز اور اسکیموں کے ہوتے ہیں’۔اے بی پی گروپ جو ‘دی ٹیلی گراف’ اخبار شائع کرتا ہے، کے 2 حکام نے بتایا کہ ‘ہمارے اخبار نے قومی سلامتی اور بے روزگاری کے حوالے سے ریکارڈ شائع کرتے ہوئے نریندر مودی سے سوالات کیے تھے، ہمیں گزشتہ 6 ماہ میں سرکاری اشتہارات میں 15 فیصد کمی کا سامنا ہے’۔اے بی پی حکام کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ اپنے ایڈیٹوریل میں حکومت کی مقررہ لکیر کو پار کرتے ہیں اور کچھ بھی حکومت کے خلاف شائع کرتے ہیں تو ان کے پاس آپ کو سزا دینے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اشتہارات روک دیتے ہیں’۔ایک اور حکام کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور کمپنی اس خلا کو پر کرنے کے لیے دیگر ذرائع تلاش کر رہی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آزادی صحافت کو برقرار رہنا ہوگا اور یہ ان چیزوں کے بغیر ہوگا’۔بھارت کے وفاقی اشتہارات کے ذمہ دار بیورو آف آؤٹ ریچ اینڈ کمیونکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ستیاندر پراکاش نے رائے کے لیے کیے گئے ای میلز اور فون کالز کا جواب نہیں دیا تاہم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نالن کوہلی کا کہنا ہے کہہ بھارت میں صحافت پوری طرح آزاد ہے۔ان کا کہنا

ہے کہ ‘حکمراں جماعت کے خلاف اخبارات اور ٹی وی چینلز پر تنقید کی جاتی ہے تاہم بی جے پی کا آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے الزامات مضحکہ خیز ہیں’۔خیال رہے کہ عالمی آزادی صحافت کے انڈیکس برائے 2019 میں بھارت کا نمبر 180 میں سے 140 ہے جو افغانستان، میانمار اور فلپائن سے بھی کم ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…