منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

مودی کو اپنے پر تنقید پسند نہ آئی ، کتنے اخبارات کے اشتہارات روک دیئے ؟ تفصیلات سامنے آ گئیں

datetime 29  جون‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی(آن لائن)بھارتی حکومت نے تقریباً 3 بڑے اخبارات کے لیے اشتہارات روک دیے جس کے بارے میں اپوزیشن اور ایگزیکٹوز کا کہنا ہے کہ یہ تنقید شائع کرنے کا رد عمل ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے آزادی صحافت پر حملے کیے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب صحافیوں نے بھی حساس خبریں لکھنے پر سخت رد عمل کا سامنا کرنے کی شکایت کی ہے۔

بھارت کے بڑے اخبار جن کی مجموعی اشاعت 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہے، کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے ایک ماہ قبل سے ہی لاکھوں روپے کے سرکاری اشتہارات رک گئے ہیں۔بینیٹ کولمین اینڈ کو، جو ٹائمز آف انڈیا اور اکنامک ٹائمز اخبارات کے انتظامات سنبھالتا ہے، کے ایگزیکٹو نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘یہاں رکاوٹ پیدا کی گئی ہے جس کی وجہ چند رپورٹس جن سے وہ ناخوش ہیں، ہوسکتی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ٹائمز گروپ کے 15 فیصد اشتہارات حکومت سے آتے ہیں جن میں زیادہ تر اشتہارات سرکاری ٹینڈرز اور اسکیموں کے ہوتے ہیں’۔اے بی پی گروپ جو ‘دی ٹیلی گراف’ اخبار شائع کرتا ہے، کے 2 حکام نے بتایا کہ ‘ہمارے اخبار نے قومی سلامتی اور بے روزگاری کے حوالے سے ریکارڈ شائع کرتے ہوئے نریندر مودی سے سوالات کیے تھے، ہمیں گزشتہ 6 ماہ میں سرکاری اشتہارات میں 15 فیصد کمی کا سامنا ہے’۔اے بی پی حکام کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ اپنے ایڈیٹوریل میں حکومت کی مقررہ لکیر کو پار کرتے ہیں اور کچھ بھی حکومت کے خلاف شائع کرتے ہیں تو ان کے پاس آپ کو سزا دینے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اشتہارات روک دیتے ہیں’۔ایک اور حکام کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور کمپنی اس خلا کو پر کرنے کے لیے دیگر ذرائع تلاش کر رہی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آزادی صحافت کو برقرار رہنا ہوگا اور یہ ان چیزوں کے بغیر ہوگا’۔بھارت کے وفاقی اشتہارات کے ذمہ دار بیورو آف آؤٹ ریچ اینڈ کمیونکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ستیاندر پراکاش نے رائے کے لیے کیے گئے ای میلز اور فون کالز کا جواب نہیں دیا تاہم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نالن کوہلی کا کہنا ہے کہہ بھارت میں صحافت پوری طرح آزاد ہے۔ان کا کہنا

ہے کہ ‘حکمراں جماعت کے خلاف اخبارات اور ٹی وی چینلز پر تنقید کی جاتی ہے تاہم بی جے پی کا آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے الزامات مضحکہ خیز ہیں’۔خیال رہے کہ عالمی آزادی صحافت کے انڈیکس برائے 2019 میں بھارت کا نمبر 180 میں سے 140 ہے جو افغانستان، میانمار اور فلپائن سے بھی کم ہے۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…