واشنگٹن(این این آئی)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکیں گے۔ ایران یمن اور شام میں دہشت گردی کی سپورٹ کر رہا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق فرانسیسی صدر ماکروں کے ساتھ ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ واشنگٹن ایران کی میزائل سرگرمیوں اور خطے میں تہران کے نفوذ میں کمی چاہتا ہے۔ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ایرانی حکومت بات چیت چاہتی ہے جو بہت اچھی بات ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم بات چیت کریں گے مگر اس چیز کو باور کرانا چاہتے ہیں تہران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکے گا۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں فرانس کے صدر ان کے ساتھ مکمل موافقت رکھتے ہیں۔دوسری جانب عمانوئل ماکروں نے کہا کہ ہم اس بات کا یقین چاہتے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل نہیں کریں گے۔اس موقع پر ٹرمپ نے باور کرایا کہ ان کے فرانسیسی ہم منصب عمانوئل ماکروں کے ساتھ اور امریکا کے فرانس کے ساتھ تعلقات خصوصی نوعیت کے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ جاپان میں جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے بعد چین پر نئے کسٹم محصولات عائد کرنے کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ 28 اور 29 جون کو مقررہ مذکورہ سربراہ اجلاس کے دوران اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کریں گے۔فرانسیسی صدر نے کہا کہ فرانس کے اہداف میں ایران کی بیلسٹک میزائل سرگرمیوں میں کمی اور اس کے علاقائی نفوذ پر روک لگانا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پیرس اور واشنگٹن کے درمیان ایک اور مشترکہ ہدف بھی ہے اور وہ ہے خطے میں امن جس کے لیے ہمیں نئے مذاکرات شروع کرنا چاہئیں۔ ماکروں کا کہنا تھا کہ آج کے روز صدر ٹرمپ کی جانب سے سامنے آنے والی گفتگو بہت اہم ہے۔ماکروں کے مطابق وہ فرانس اور امریکا کے بیچ تاریخی تعلقات کے خواہاں ہیں۔دریں اثناء امریکی ریپبلکن رکن کانگرس ایڈم کینزنگر نے کہاہے کہ ایران کے ساتھ جنگ چھڑنے کا موقع ہر دم موجود رہتا ہے۔
امریکی جریدے کے مطابق امریکی عسکری قوت کے غلبے کی مہربانی سے اس قبیل کے کسی بھی تنازع کا فیصلہ مختصر عرصے میں ہو جائے گا۔ اگر تہران نے اشتعال انگیزی کی کوششوں کو دہرایا تو اسے بہت تھوڑے وقت میں تباہ کر دیا جائے گا۔ ایڈم نے کہا کہ ایران ہمیں (امریکا) کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اس کی تکرار کی صورت میں رد عمل مناسب جواب ہو گا۔ اگر عسکری مقابلہ ہوا تو یہ یک طرفہ ہو گا۔تہران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کیے جانے کی دھمکی کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان زبانی جنگ کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ پروگرام ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ طے پانے کے بعد روک دیا گیا تھا۔علاوہ ازیں اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل مندوب عبداللہ المعلمی نے کہا ہے کہ ایران نے اماراتی سمندری حدود سے پرے چار بحری تیل بردار ٹینکروں پر حملہ کر کے معنی خیز پیغام پہنچانے کی کوشش کی، تاہم ایران جنگ میں دلچسپی نہیں رکھتا۔عرب ٹی وی کے مطابق ایک انٹرویو میں عبداللہ المعلمی نے کہا کہ سعودی عرب کو اس بات کا یقین ہے کہ فجیرہ کے نزدیک بین الاقوامی سمندر میں جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ امریکا کے پاس حملے میں ملوث افراد سے متعلق معلومات ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے حملہ کے ذریعے پیغام دینے کی کوشش کی۔۔۔ تہران جنگ چاہتا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ میں اس واقعہ سے متعلق پیش کردہ رپورٹ میں حملے کے فنی پہلوؤں پر بات کی گئی ہے، اس کے سیاسی مضمرات رپورٹ کا حصہ نہیں تھے۔امریکی وزارت خزانہ نے ایران کی بڑی پیٹروکیمکل ہولڈنگ کمپنیوں اور ان کے وسیع ذیلی ایجنٹوں کے نیٹ ورک پر پابندیاں عاید کی ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق وزارت خزانہ نے ایک بیان میں بتایا کہ نئی پابندیوں کا ہدف ایران کی بڑی اور منافع بخش پیٹروکیمکل کمپنیاں ہیں۔ ان پر پابندیوں کی وجہ پاسداران انقلاب کی انجنیئرنگ کور کے خاتم الانبیاء نامی بڑی تنصیب کو سرمایہ فراہم کرنا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ 39 مزید کمپنیاں اور ان کے بیرون ایران ایجنٹوں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ یہ تمام ادارے پرشیئن گلف پیٹروکیمکل انڈسٹریز کے زیر انتظام کام کرتے تھے۔
بیان میں اس امر کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے گروپ اور اس کی ذیلی کمپنیاں ایران کی پیڑوکیمکل پیداوار کا چالیس فیصد مال تیار کرتی ہیں۔ ملک کی 50 فیصد برآمد بھی انہی کمپنیوں کے تیارکردہ مال سے ہوتی ہے۔امریکی وزیر خزانہ سٹیفن منوچین کے حوالے سے خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ اس نیٹ ورک کو نشانہ بنا کر ہم ایرانی پیٹروکیمکل انڈسٹریز کو سرمایہ کی فراہمی کا سلسلہ بند کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہی ادارے اپنے منافع سے ایرانی پاسداران انقلاب کو مالی لوازمہ فراہم کرتے ہیں۔تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے بعد پیٹڑوکیمکل صنعت ایران کا دوسرا ایسا شعبہ ہے جس سے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اس شعبے کو امریکا نے اپنی پابندیوں کا ہدف نہیں بنایا تھا، تاہم نئی پابندیوں کے ذریعے امریکا نے اسے بھی ہدف بنا لیا ہے۔ادھر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ مزید سزاؤں کے نفاذ کا مقصد ایران کو خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کی کوششوں سے باز رکھنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایران کو ان رقوم سے محروم کر دیں گے جنہیں وہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ایرانی حکومت پر ہمارا دباؤ برقرار رہے گا۔