کابل(آئی این پی)افغانستان میں حالیہ بد ترین خشک سالی کے نتیجے میں ہزاروں افغان شہریوں کو داخلی سطح پر بے گھری کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس صورتحال سے بیشتر افغان خاندان جہیز کے بدلے بچوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہیں۔بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف نے کہا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ کئی عشروں میں آنے والی بد ترین خشک سالی کے سبب ہزار ہا افغان شہریوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہونا پڑا ہے۔
یونیسف کے مطابق اس صورت حال میں بھوک اور معاشی بد حالی کا شکار ان افراد میں سے بیشتر زندہ رہنے کے لیے اپنے بچوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہیں تاکہ اس کے بدلے ملنے والی رقم اور جہیز سے وہ اپنی گزر بسر کر سکیں۔یونیسف نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہرات، بادغیس اور غور کے صوبوں میں اس سال خشک سالی کے سبب قریب دو لاکھ تیئیس ہزار افغان باشندے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔عالمی تنظیم برائے خوراک اور زراعت نے بتایا ہے کہ ان افغان شہریوں کو دن میں تین وقت کھانا میسر نہیں جس کے باعث یہ اپنے مویشی بیچ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں ان کے لیے امداد اور دیگر سہولیات تک رسائی حاصل کرنا آسان ہے۔تاہم بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف کا کہنا ہے کہ بعض خاندان اس سے کہیں زیادہ سخت اقدامات اٹھا رہے ہیں جن میں رواں برس جولائی اور اکتوبر کے درمیان ہرات اور باغدیس کے صوبوں میں ایک سو اکسٹھ بچوں کی منگنیاں یا شادیاں رجسٹر کی گئی ہیں۔ ان بچوں میں ایک سو پچپن لڑکیاں جبکہ پانچ لڑکے ہیں۔یونیسف کے ترجمان ایلسن پارکر نے تھامسن روئٹرز فانڈیشن سے بات کرتے ہوئے کہا، یہ گزشتہ کئی عشروں میں افغانستان میں آنے والی بد ترین خشک سالی ہے۔ جس میں بچے خاندانوں کے کفیل بن رہے ہیں۔ بچوں کی شادی کے بدلے والدین کو جہیز کے پیسے ملتے ہیں جس سے وہ اپنی گزر بسر کر پاتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق خشک سالی سے متاثرہ بیشتر خاندانوں کو خوراک، نقل مکانی کے لیے ٹرانسپورٹ اور علاج معالجے کے لیے رقم ادھار لینی پڑتی ہے۔