برلن(این این آئی)جرمنی میں ایک افغان خاتون کو قتل کرنے والے ایک افغان تارک وطن کے خلاف مقدمے کا آغاز کر دیا گیا ۔ اس افغان شہری کو چار بچوں کی ماں کے مذہب تبدیل کر کے مسیحیت اختیار کرنے پر اعتراض تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق جرمنی میں پناہ گزین اس تیس سالہ افغان تارک وطن نے افغانستان ہی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون تارک وطن کو اس کے دو بچوں کے سامنے خنجر کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ یہ افغان شہری اس بات پر نالاں تھا کہ اس خاتون نے اسلام ترک کر کے
مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا۔جرمن حکام نے اس افغان مہاجر کی شناخت مخفی رکھی ہے۔ اسلام ترک کرنے والی اس افغان خاتون مہاجر کے قتل کا واقعہ گزشتہ برس اپریل کے مہینے میں پیش آیا تھا۔ اس مسلمان مہاجر نے جرمن شہر پرین کی ایک سْپر مارکیٹ میں بیس سینٹی میٹر لمبے خنجر کے سولہ وار کر کے اس خاتون کو قتل کیا تھا۔افغان خاتون کو مذہب تبدیل کرنے پر قتل کر دیے جانے کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا تھا جب جرمنی میں لاکھوں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے بعد عوام میں ’مہاجرین کو خوش آمدید‘ کہنے کا کلچر تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا اور اے ایف ڈی جیسی مہاجرین اور اسلام مخالف عوامیت پسند جماعتیں اور تحریکیں تیزی سے مقبول ہو رہی تھیں۔جرمن شہر ٹراؤنسٹائن کے دفتر استغاثہ کے مطابق اڑتیس سالہ مقتولہ نے اسلام ترک کر کے مسیحیت اختیار کر لی تھی اور اس خاتون نے اس تیس سالہ افغان شہری کو بھی مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔ پراسیکیوٹر کے مطابق ترک اسلام کی دعوت اس تارک وطن کے مسلم عقیدے کے خلاف تھی، جس کے باعث وہ مشتعل ہو گیا تھا۔ واقعے کے وقت سْپر مارکیٹ میں موجود افراد نے اس شخص پر مختلف اشیا پھینک کر اسے روکنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔تیس سالہ افغان شہری قتل کے بعد موقع سے فرار ہو گیا تھا تاہم بعد ازاں پولیس نے اسے گرفتار کر لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد اس شخص کا کہنا تھا
کہ اس کی جرمن حکام کو دی گئی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی جس کے بعد وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔گرفتاری کے بعد ابتدائی طور پر اسے تین ماہ تک ذہنی مریضوں کے وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں اسے جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔عدالت نے ابتدائی طور پر اس مقدمے کی سماعت کے لیے چار روز مختص کیے ہیں۔ جرمنی میں قتل کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے تاہم زیادہ تر قیدیوں کو پندرہ برس بعد رہا کر دیا جاتا ہے