مشہور سینئیر کالم نگارنذیر ناجی نے اپنے ایک کالم میں بچے اغوا کرکے فروخت کرنے والی عورت کی پھانسی کا ماجرہ بیان کیا تھا کہ کس طرح مجرم عورت کومنٹوں میں انجام تک پہنچا دیا گیا ۔وہ لکھتے ہیں’’ چند روز پہلے میں نے چین کے ایک نیٹ ورک پر ایک مجرم خاتون کو سزا ملتے ہوئے دیکھی۔ وہ ایک وسیع و عریض عمارت کے دروازے سے‘ ایک بندھی بندھائی
خوبصورت خاتون کو‘ دھکے دیتے ہوئے دروازے سے باہر لاتے ہیں۔ د ونوں طرف کے سپاہیوں نے اس کے ہاتھ پکڑ رکھے ہیں جو کہ پشت کی طرف کر کے باندھے گئے ہیں۔ اسی طرح رسی ڈھیلی چھوڑ کے‘ اس کے پاؤں باندھے گئے ہیں تاکہ اسے زبردستی گھسیٹا جاسکے لیکن کون بدنصیب ایسا ہوسکتا ہے جو بندھے ہوئے ٹخنوں کے ساتھ لمبے لمبے قدم اٹھا سکے چنانچہ اسے گھسیٹنا پڑتا ہے۔ آخر میں جہاں برآمدہ ختم ہوتا ہے‘اس کے سامنے ایک چھوٹے صحن میں لا کر اسے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ایک مرد اس کے عقب سے نکلتا ہے اور جہاں جہاں سے اس کا جسم باندھا گیا تھا‘ اسے کھول دیا جاتا ہے۔ ہاتھ اور پاؤں پکڑ کے‘ اسے بٹھا دیا جاتا ہے۔اس کے سر کے عقب میں کھوپڑی کے اوپر ‘پستول کی نالی رکھ کے گولی چلا دی جاتی ہے۔ یہ بد قسمت خاتون جس کی عمر زیادہ نہیں‘اسے سزائے موت اتنی نفاست سے دی جاتی ہے کہ اس کے گرد لپٹی ہوئی ‘چادر کے اندر سے‘ خون کا ایک قطرہ تک نہیں گرتا۔ کیا نفاست ہے؟حکام اسے فرش پر بے یارو مددگار تڑپنے اور جان دینے کے لئے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ بعد میں ظاہر ہے کوئی دوسری فورس ہو گی جو اس خاتون کی لاش کوٹھکانے لگا دیتی ہو۔ جب سے یہ سب کچھ دیکھاہے۔ میں یہ سوچ کے لرز جاتا ہوں کہ ہمارے ملک کے جو حکا م ‘ ٹھیکیدار‘ یا بیوپاری‘ چینیوں کے ساتھ
کوئی بے ایمانی کرتے ہیں تو انہیں سزا کیسے دی جا تی ہو گی؟یاد رہے جس چینی خاتون کو کیمرے کے سامنے سزائے موت دی گئی ‘ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ چھوٹے بچوں کو اٹھا کر فروخت کرتی تھی۔ ‘‘