لاس ویگاس(این این آئی)امریکی شہر لاس ویگاس میں اندھا دھند فائرنگ کے واقعے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کر لی ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق داعش کے آن لائن میگزین ’اعماق‘ کے مطابق یہ حملہ ان کے ایک ایسے سپاہی نے کیا ہے، جس نے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی اسلام قبول کیا تھا۔ اس بیان میں مزید واضح کیا گیا کہ یہ حملہ اتحادی افواج کی داعش کے خلاف جاری کارروائیوں کا رد عمل ہے۔
تاہم امریکا کی وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے مطابق ابھی تک اس حملے اور بین الاقوامی دہشت گرد گروپ کے مابین رابطے واضح نہیں ہو سکے ہیں۔دریں اثنا امریکی شہر لاس ویگاس میں گزشتہ روز میوزک کنسرٹ پر فائرنگ کرنے والے شخص کے پاس مختلف اقسام کے 48 جدید اور خودکار ہتھیاروں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق لاس ویگاس کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں امریکی تاریخ کی بدترین خونریزی کے واقعہ کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کررہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اب تک اس بات کا پتہ نہیں لگا سکے کہ ملزم کے اصل مقاصد کیا تھے۔ پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد بتایا کہ 64 سالہ اسٹیفن پیڈک کے پاس پائلٹ اور شکار کرنے کے لائسنس تھے تاہم اس کے خلاف کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملا۔ ملزم ایک مالدار سابق اکاؤنٹنٹ تھا لیکن ماضی میں اس کا باپ بینک ڈکیتی کا مرتکب پایا گیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم مینڈلے بے ہوٹل کی 32 ویں منزل پرمقیم تھا جہاں سے اس نے احاطے میں موجود ہزاروں لوگوں پر فائرنگ کی۔ واقعے کے بعد پولیس نے جب کمرے کا دروازہ توڑا تو ملزم مردہ حالت میں پایا گیا جس پر پولیس کا کہنا ہے کہ شہریوں پر فائرنگ کے بعد ملزم نے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔پولیس افسر ٹوڈ فیصلو نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ جب کمرے کی تلاشی لی گئی تو وہاں سے 23 ہتھیار برآمد ہوئے جب کہ ملزم کے گھرپر چھاپہ مار کارروائی کے دوران 19 ہتھیار قبضے میں لیے گئے۔
پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسٹیفن پیڈک اپنی 62 سالہ خاتون دوست ماریلؤ ڈینیللے کے ساتھ رہتا تھا لیکن جب پولیس نے ان کی دوست کے بارے میں معلوم کیا تو انہیں پتہ چلا کہ وہ امریکا سے باہر ہیں۔واضح رہے کہ لاس ویگاس میں میوزک کنسرٹ میں فائرنگ سے کم ازکم 59 افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔