اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) روس میں ایک آدم خور جوڑے کا انکشاف ہوا ہے جنہوں نے کم ازکم 30 افراد کو زندہ مار کر کھا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے گھر میں تمام مرنے والے 30 افراد کے اعضا جمع کرنے اور ان کے ساتھ تصاویر کھنچوانے کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔روسی پولیس نے آدم خور خاندان کے گھر سے 8 بڑے انسانی اعضا دریافت کرنے کی بھی تصدیق کر دی ہے مزید شواہد اکٹھے کرنے کے لیے گھر کی تلاشی لی جارہی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس خونی واقعے کے مرکزی ملزم 35 سالہ دمیتری بکشیو ہیں جس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ پچھلے 18 سالوں سے انسانوں کو مار کر کھا رہا ہے۔ یہ خاندان جنوبی روس کے علاقے کراسنوڈر میں مقیم تھا اور اس شخص کی بیوی 42 سالہ نتالیہ ایک نرس ہیں جو خود اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔پولیس نے جب گھر کی تلاشی لی تو بعض تصاویر اور ’آدم خوری کے اسباق‘ سکھانے والی ویڈیوز بھی برآمد کی ہیں۔ نتالیہ کو گرفتار کر کے فوری طور پر اس کا نفسیاتی تجزیہ کرایا گیا تو انکشاف ہوا کہ آدم خور ذہنی اور نفسیاتی طور پر مکمل صحت مند ہے۔دمیتری بکشیو اور اس کی بیگم نے فریج اور فریزر کے علاوہ برتنوں اور مرتبانوں میں انسانی گوشت بھی جمع کر رکھا تھا۔ فریج سے انسانی اعضا کی 7 تھیلیاں بھی ملیں جن میں منجمند گوشت موجود ہے۔ اس کے علاوہ گھر سے مرنے والوں کی جلد کے 19 بڑے ٹکڑے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ معمولی دباؤ پر آدم خور جوڑے نے اعترافِ جرم کر لیا ہے۔حکام کے مطابق اس جوڑے کے گھر میں سب سے پہلے 12 ستمبر کو تہہ خانے سے خاتون کے اعضا برآمد ہوئے تھے جو ایک بالٹی اور شاپنگ بیگ میں موجود تھے جبکہ دوسرے بیگ میں خاتون کی دیگر اشیا رکھی تھیں۔
ایک خاتون کے سر کے ساتھ تصاویر بھی ملی ہیں۔ اسی طرح ان کے گھر کے پاس کام کرنے والے مزدوروں کو ایک موبائل فون ملا جس میں اس شخص کی انسانی اعضا کے ساتھ سیلفی لی گئی تھی۔ اسی طرح 28 دسمبر 1999 کو لی گئی ایک تصویر میں انسانی سر ایک پلیٹ پر رکھا ہے اور اطراف میں نارنگیاں دھری ہوئی ہیں۔ آدم خور جوڑے نے اعتراف م کیا ہے کہ 1999 سےلوگوں کو شکار کر رہا ہے۔مارنے سے پہلے لوگوں کو کوروالول نامی دوا پلا کر بے ہوش کیا جاتا تھا تاکہ انہیں کھانے میں آسانی ہو۔پولیس نے دونوں کو گرفتار کرکے واقعے کی مزید تفتیش کا آغاز کر دیا ہے ۔واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے ۔مرنے والے کون افراد تھے ان کی شناخت سامنے نہیں آسکی اور نہ ہی ان کے لواحقین سامنے آسکے ہیں۔