حال ہی میں انڈیا کے فوجی سربراہ جنرل بیپن راوت نے کہا تھا کہ انڈین فوج ڈھائی محاذوں پر جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے۔ بیپن راوت کے اس بیان پر انڈیا سمیت ہمسایہ ممالک چین اور پاکستان کی میڈیا میں بھی کافی توجہ دی گئی تھی۔چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا تھا کہ بیپن راوت نے چین، پاکستان اور انڈیا میں فعال باغی گروہوں سے جنگ جیتنے کی بات کہی تھی۔ پاکستانی میڈیا میں بھی بیپن راوت کا یہ بیان شہ سرخیوں میں
آیا تھا۔خیال رہے کہ چین اور انڈیا کے درمیان گذشتہ دو ماہ سے ڈوكلام سرحد پر کشیدگی ہے۔ چینی میڈیا میں جنگ کی دھمکیاں مسلسل جاری ہیں۔ چینی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ انڈیا نے ڈوكلام سرحد کی خلاف ورزی کی ہے۔چین یہ بھی کہہ چکا ہے کہ انڈیا اپنے فوجیوں کو واپس بلا لے جبکہ انڈیا کا کہنا ہے کہ چین وہاں سڑک کی تعمیر کا کام بند کرے۔چینی میڈیا میں ہندوستان کو 1962 کی جنگ کی یاد دلائی جا رہی ہے جس میں انڈیا کو بری طرح سے شکست ہوئی تھی۔ کیا ہندوستان کو لگتا ہے کہ اگر چین کے ساتھ جنگ ہوئی تو اسے پاکستان سے بھی لڑنا پڑے گا؟ذرا غور کریں کہ سنہ 1962 کی انڈیا چین جنگ میں پاکستان کا کردار کیا تھا؟ کیا تب بھی پاکستان نے چین کا ہی ساتھ دیا تھا؟ اگر اب انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی جنگ میں تبدیل ہوتی ہے تو پاکستان کا رخ کیا ہو گا؟آزادی کے بعد انڈیا کی تمام جنگوں کے گواہ سینیئر صحافی کلدیپ نیر کہتے ہیں: ‘میں اس وقت لال بہادر شاستری (جو نہرو کے بعد انڈیا کے وزیر اعظم بنے) کے ساتھ کام کرتا تھا۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر چین کے ساتھ 1962 کی جنگ میں پاکستان ہمارے ساتھ آ جاتا تو ہم جنگ جیت جاتے۔ ایسے میں وہ ہم سے کشمیر بھی مانگتے تو ان سے نہیں کہنا مشکل ہو جاتا۔ انڈیا نے پاکستان سے مدد نہیں مانگی تھی، لیکن مدد کی توقع ضرور رکھتے تھے۔’انھوں نے مزید بتایا کہ لال بہادر جی نے ان سے کہا تھا کہ ‘اس
صورت حال میں، میں نے ایوب خان سے پوچھا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ وہ انڈیا کی مدد کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اس جنگ میں پاکستان انڈیا کے ساتھ نہیں تھا۔ اس سے پہلے میں نے جناح سے پوچھا تھا کہ اگر انڈیا پر کوئی تیسری طاقت حملہ کرتی ہے تو پاکستان کا رخ کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ ہم انڈیا کے ساتھ ہوں گے۔ ہم ساتھ مل کر ڈریگن کو بھگا دیں گے۔ اس معاملے میں ان کا موقف بالکل واضح تھا۔
وہ کہتے تھے کہ ہم دونوں بہترین دوست ہوں گے۔ جناح کہتے تھے کہ جرمنی اور فرانس میں اتنی لڑائی ہوئی تو کیا وہ دوست نہیں ہوئے۔’پاکستان امریکہ کے دباؤ میں تھا؟تو کیا چین انڈیا جنگ میں پاکستان غیر جانبدار تھا؟ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز میں پروفیسر سویتا پانڈے کہتی ہیں: ‘اس وقت پاکستان پر محمد ایوب خان کی حکومت تھی۔ پاکستان امریکہ کے کافی دباؤ میں تھا۔ امریکہ نے پاکستان پر کافی دباؤ ڈالا تھا
کہ وہ انڈیا چین کے فرنٹ پر کچھ نہ کرے۔’پروفیسر پانڈے بتاتی ہیں کہ اس وقت پاکستان نے اس بات کو مسترد کر دیا تھا کہ اس پر امریکہ کا دباؤ تھا۔ سنہ 1962 میں سرد جنگ کی آہٹ جنوبی ایشیا میں محسوس کی جا رہی تھی۔ سویتا پانڈے کہتی ہیں: ‘پاکستان اور امریکہ میں دفاعی معاہدہ ہو چکا تھا اور وہ ویسٹرن الائنس نظام کا بھی حصہ بن گیا تھا۔ امریکہ نے 1962 کی جنگ میں انڈیا کی مدد کی تھی لہٰذا یہ بہت ممکن ہے کہ اس نے
پاکستان کو روکا تھا۔’1962 کی جنگ کو 55 سال ہو گئے ہیں۔ کیا اتنے سال بعد بھی انڈیا اور چین کی کشیدگی میں پاکستان پر امریکہ کا دباؤ کام کرے گا؟کلدیپ نیر کہتے ہیں: ‘اس وقت بھی پاکستان میں یہی احساس تھا کہ چلو انڈیا کو چین اچھی طرح سے شکست دے رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں فرائیڈے ٹائمز کے مالک بی آر شیٹی انڈیا کی کھل کر حمایت کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں انڈیا اور پاکستان دوستی کے بغیر
نہیں رہ سکتے۔’کیا اب پاکستان انڈیا کے خلاف کھل کر سامنے آئے گا؟نیر مزید کہتے ہیں: ‘اب انڈیا اور چین کے درمیان جنگ کی صورت بنتی ہے تو پاکستان کھل کر انڈیا کے خلاف ہو گا۔ وہ جو بھی کر سکتا ہے کرے گا۔ پاکستان دوسرا مورچہ کھول کر سامنے آئے اس پر تو مجھے شبہ ہے، لیکن وہ چین کی مدد کرے گا۔ انڈیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ چین کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو پاکستان اس کی طرف نہیں ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ
پاکستان پر اتنا دباؤ برقرار رکھے کہ وہ غیر جانبدار رہے۔’جبکہ سویتا پانڈے کہتی ہیں: ’55 سال میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ پوری دنیا کی سیاست بدل گئی ہے۔ پہلے جو طاقت کا توازن تھا وہ آج نہیں ہے۔ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان مختلف مسئلہ ہے اور چین کے ساتھ انڈیا کا مختلف مسئلہ ہے۔’پاکستان چین دوستی انڈیا کے لیے باعث تشویش؟
پروفیسر پانڈے نے کہا: ‘پوری دنیا اس بات کو سمجھتی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی انڈیا کے تعلق سے ہی ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے دو سرحدوں پر جنگ لڑنا کافی مشکل کام ہے۔ پاکستان کے رشتے تین محاذوں پر خراب ہیں۔ وہ انڈیا کے علاوہ ایران اور افغانستان سے بھی دوچار ہے۔ فوج کے سربراہ نے خواہ کوئی بیان دیا ہے، لیکن دو محاذوں پر جنگ لڑنا آسان نہیں ہے۔’اب پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان اور چین
کے رشتے بھی کافی گہرے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اس وقت امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات مبینہ طور پر خراب ہیں۔ ایسے میں کیا 1962 کی طرح 2017 میں بھی پاکستان پر امریکہ کا دباؤ کام کرے گا؟سویتا پانڈے کہتی ہیں: ‘ہم جب بھی جنگ یا کشیدگی کی بات کرتے ہیں تو بیرونی طاقت کو نظر انداز نہیں کرتے۔ بیرونی طاقت کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان امریکہ کے دباؤ میں آ کر کچھ نہیں کرے
گا۔ پھر بھی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان پر امریکہ کا اثر ہے۔’دو محاذوں پر جنگ کس قدر مشکل؟انڈیا نے 1962 کے بعد 1965 کی جنگ لڑی تھی۔ سویتا پانڈے کہتی ہیں کہ ‘پاکستان نے یہ سوچا تھا کہ ہندوستانی فوج کا حوصلہ پست ہے اور ایسے وقت میں حملہ کیا تو انڈیا کو پھر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ پاکستان کا یہ اندازہ بالکل غلط تھا اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔’پروفیسر پانڈے کہتی ہیں کہ
’1965 کی جنگ پاکستان کے لیے عبرت تھی۔ انھوں نے کہا کہ اب پاکستان براہ راست جنگ کے بجائے پراکسی وار کو ترجیح دیتا ہے۔ تو کیا 1962 کی جنگ سے ہی پاکستان کو تحریک ملی تھی کہ وہ انڈیا کو ہرا سکتا ہے؟اس کے جواب میں پروفیسر پانڈے کہتی ہیں کہ اس دلیل میں دم ہے اور پاکستان نے ایسا سوچا تھا۔ انھوں نے کہا: ‘پاکستان کو لگا تھا کہ یہ اچھا موقع ہے اور وہ کشمیر میں اتھل پتھل کرا سکتا ہے۔ 1962 میں
پاکستان اور چین کے تعلقات ویسے نہیں تھے جیسے آج ہیں۔ 1962 کی لڑائی کے بعد ہی پاکستان اور چین کے تعلقات مضبوط ہوئے۔ 1963 میں پاکستان نے انڈیا کے علاقے چین کے حوالے کر دیے تھے۔ 1962 کی جنگ کے بعد ہی پاکستان اور چین کے درمیان دوستی بڑھی تھی۔’پاکستان میں چین کی جس طرح موجودگی ہے ایسی صورت میں کیا دونوں ممالک حالت جنگ میں ساتھ نہیں آئیں گے؟ جے این یو کے جنوبی ایشیائی سٹڈیز کے
پروفیسر پی لاما کہتے ہیں: ‘پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک اور قراقرم ہائی وے کا جو تعلق ہے اس کا انڈیا مخالف ہے۔ انڈیا کی مخالفت اس لیے ہے کہ چین نے بغیر انڈیا کی اجازت کے کے او پی سے راستہ بنا لیا تھا۔’پروفیسر لاما کا کہنا ہے کہ ‘چین اور پاکستان کی دوستی کو انڈیا سمجھتا ہے، لیکن دوسرے محاذ پر پاکستان انڈیا کے خلاف آئے یہ بات آسان نہیں۔’(ساجد صدیق، بشکریہ بی بی سی)